Siyasi Manzar
مضامین

ماہ رمضان اور ہماری تقوی شعاری

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ انتہائی بابرکت اور باعظمت مہینہ ہے اس ماہ مبارک میں اللہ رب العالمین نے اہل ایمان کو 30 دن روزے کے ساتھ قیام اللیل، تلاوت قرآن،صدقہ وخیرات اور دیگر نوافل ومستحبات کو بجا لانے کا حکم عطا فرمایاہے۔ یہ مہینہ دراصل اللہ رب العالمین نے اس لیے مقرر فرمایا ہے تاکہ ایک مومن بندہ اس مہینے میں روزہ رکھ کر اور روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کر کے اپنے آپ کو اللہ رب العالمین سے جوڑ لے اور اپنے دل کی دنیا کو بدل کر اس میں اللہ رب العالمین کی محبت ،اسکے کے دین سے محبت اور اللہ رب العالمین کے احکام سے محبت کو غالب کر لے اور اس طرح سے جب بندے کے دل میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکی چاہت پیدا ہو جائے گی تو وہ نیک بن جائے گا ،صاحب تقوی بن جائے گا، اللہ سے ڈرنے والا بن جائے گا اور اللہ رب العالمین کی سچی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والا بن جائے گا اور یہی مقصد ہے رمضان کا، اللہ رب العالمین نے بیان فرمایا کہ ((اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہارے اوپر روزے ایسے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئےتھے تاکہ تم صاحب تقوی بن جاؤ))
تقوی ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں بندہ اپنی زندگی کی تمام تر جدوجہد اور سرگرمیوں کو اللہ رب العالمین کی طرف موڑ دیتا ہے اور اپنے قلوب اور اذہان کی تمام تر توجہات کو اللہ رب العالمین کی بندگی کی طرف پھیر دیتا ہے اور اس طرح سے وہ اپنی زندگی میں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی باتوں اور شریعت کے احکام کو غالب کر لیتا ہے کہ پھر اس کا من بھی نیک ہو جاتا ہے اورتن بھی ٹھیک ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پورے بدن کو پاک اور صاف کرتے ہوئے، دل کی دنیا کو پاکیزہ بناتے ہوئے، نیتوں کو خالص کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ کے لیے خالص ہو جاتا ہے اور اسی کے بارے میں پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ((جس نے رمضان المبارک کا روزہ ایمان اور احتساب کے طور پر رکھا تو اس کے پچھلے گناہوں کو بخش دیا جائے گا))
ایمان اور احتساب میں یہی مطلوب ہے کہ بندہ اپنے ایمانی کیفیت کو روزے کی حالت میں تازہ کر کے اپنے دل کی دنیا کو اللہ کے حوالے کر دے اور اسے اتنا پاکیزہ اور اتنا بہتر بنا لے کہ اس میں اللہ کے سوا ،اللہ کے دین کے سوا اور اللہ رب العالمین کی آخرت کے سوا کسی اور کی چاہت اور طلب نہ ہو اور پھر عبادتوں میں اور بندگی کی راہوں میں اس طریقے سے لگ جائے جیسے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حضرات صحابہ کرام اور ان کا یہ گروہ مقدس لگ جایا کرتا تھا ہمیں اور آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں قیام اللیل فرماتے تھے اور سال کے پورے 12 مہینے آپ قیام اللیل فرماتے تھے، تہجد کی نماز پڑھتے تھے، رات میں سو کر اٹھنے کے بعد اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر کے عبادت کرتے تھے جسے رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں تراویح بھی کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر اس عبادت میں اپنے دلوں کو اللہ سے جوڑتے کہ اپنے بدن کا بھی خیال نہیں رہ جاتا، لمبا قیام ہوتا، لمبا رکوع ہوتا لمبی قراءت ہوتی، یہاں تک کی آپ کے قدم مبارک میں ورم پیدا ہو جاتا ،سوجن پیدا ہو جاتا، بدن کو تکلیف ہونے لگتی۔صحابہ کرام اسے اپنی نگاہوں سے، اپنی انکھوں سے محسوس کرتے اور پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے کہ اللہ کے نبی ﷺ آپ اللہ کی عبادت میں اس طرح سے پریشانی کیوں اٹھاتے ہیں؟ اپنے پیروں کو اور اپنے بدن کو تکلیف میں کیوں ڈالتے ہیں؟ تو پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان رسالت مآب گویا ہوتی کہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بن جاؤں؟تو یہ شکر گزاری کی کیفیت رمضان المبارک کی عبادتوں میں اور اس کی طاعتوں میں اور اللہ کی دی ہوئی ان تمام نعمتوں میں بھی ہماری اور آپ کی زندگی میں ظاہر ہونا چاہیے، پیدا ہونا چاہیے جو ہم اور آپ اپنی دنیا کے اندر محسوس کرتے ہیں۔ پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام بھی اسی طریقے سے عبادتوں میں لگے رہتے تھے. بعض صحابہ کرام سے یہ بات منقول ہے کہ وہ بکثرت رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں تلاوت فرماتے تھے، بعض صحابہ کرام سے یہ بات منقول ہے کہ وہ بکثرت مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور ان تمام عبادتوں میں توجہ اور جدوجہد صرف کرتے تھے جن کے ذریعے سے اللہ کی رضا مل سکے، اللہ کی خوشنودی اور اللہ رب العالمین کی جنت مل سکے.
خود پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں جبرائیل امین کا نزول ہوتا اور آپ قران مجید کا مراجعہ فرماتے اور ایسے پاکیزہ ماحول میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راتیں اللہ سے جڑ جاتی تو آپ اپنے خزانے کا، اپنے مال کا دروازہ کھول دیتے اور اتنی سخاوت فرماتے اتنی سخاوت فرماتے جیسے تیز آندھی ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔
رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ اللہ رب العالمین نے نیکیوں کے لیے ،اپنی اطاعت و بندگی کے لیے اورتقوی شعاری کے لیے نے مقرر فرمایا ہے۔ آپ تصور کریں کہ اللہ رب العالمین نے ایک بندے کو نیک بنانے کے لیے کس طریقے سے رمضان المبارک کے مقدس مہینوں میں اسے حلال سے بھی بچنے کا حکم عطا فرمایا اور اسی کا نام ورع اور پرہیزگاری ہے کہ آدمی بعض حلال چیزوں سے بھی اس وجہ سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کی رضامندی اور اللہ رب العالمین کی خوشنودی کا ذریعہ اور سبب ہے۔ 11 مہینے اللہ رب العالمین نے حرام سے بچنے کا حکم عطا فرمایا اور حلال کو استعمال کرنے، حلال کو کھانے اور پینے اور اپنی زندگی میں بجا لانے کی اجازت دی لیکن جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آیا تو اللہ رب العالمین نے دلوں کو پاکیزہ بنانے اور مزیداپنی قربتوں اور چاہتوں کو بڑھانے کے لیے حرام کے ساتھ ساتھ حلال کو بھی اللہ رب العالمین نے کچھ لمحے کے لیے، کچھ گھنٹوں کے لیے حرام ٹھہرا دیا ۔روزے کی حالت میں کھانا پینا حرام ہو گیا۔ روزے کی حالت میں بیوی کے پاس جانا حرام ہو گیا ۔یہ دراصل اللہ رب العالمین کی طرف سے نیکیوں کے لیے اور عبادت اور بندگی اور دلوں کی توجہ کو موڑنے اور بندے کے دل میں تقوی کی حقیقی کیفیت کو اجاگر کرنے کے لیے وہ احکام ہیں جو اللہ رب العالمین نے ہمیں اور آپ کو عطا فرمائے ہیں۔ اس لیے ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے آپ کو ایسا صاحب تقوی بنالے۔ایسا صاحب تقوی بنائے کہ اس کے دل میں اللہ کی چاہت اوراسکی بندگی اور عبادت کی چاہت اور اسکے دین کی چاہت اور آخرت اور اس میں کامیابی کی چاہت کے علاوہ کوئی اور چاہت اور خواہش نہ ہو۔بلکہ ہماری تمام ترخواہشات اورہرطرح کی چاہتوں ومحبتوں پر دین غالب آجائے ۔نیکی غالب آجائے، اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت غالب آجائے ،بندگی اور عبادت کا جذبہ غالب آجائے ،سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع غالب آ جائے اور ہم اس راستے میں اخلاص اور للھیت کے ساتھ اپنی آخرت کو بنانے کے لیے چل پڑیں تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہمارا تقوی کا سفر شروع ہو گیااورہم اب صاحب ایمان کے ساتھ صاحب تقوی بن گئے ۔
تقوی یہ دراصل نیکی کی بنیاد اور نیکی کی اساس ہے اگر ایمان کے ساتھ ہماری اور آپ کی زندگی میں تقوی کی یہ کیفیت نہ پیدا ہو تو ہم اور آپ اللہ سے نہیں جڑ سکتے ہمارے دلوں میں اخلاص نہیں پیدا ہو سکتا، ہمارے دلوں کے اندر فکر آخرت نہیں بیدار ہو سکتی اور ہم اپنے آپ کو ایسے ہی دنیا کی چاہتوں میں حیران کرتے ہوئے، خواہشات نفس کی وادیوں میں بھٹکاتے ہوئے اللہ رب العالمین سے دور کر لیں گے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ ہمارا ایمان ہمارے دلوں سے نکل جائے گا۔
رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ انہی چاہتوں کو پانے اور انہی چاہتوں کو قائم کرنے اور تقوی کی اسی کیفیت کو بندہ مومن کے دل میں اجاگر کرنے اور اللہ کی طرف خالص توجہ کو موڑنے کے لیے اللہ رب العالمین نے مقرر فرمایا ہے اس لیے ہر مومن بندے کو چاہیے کہ وہ صاحب تقوی بن جائے اور اپنے دل کی دنیا کو بدل کر اپنے آپ کو اللہ رب العالمین سے جوڑ لے ،اللہ کی شریعت سے جوڑ لے ،اللہ کے دین سے جوڑ لے اور اللہ کی آخرت سے جوڑ لے،تب وہ بندہ کامیاب اور کامراں ہو جائے گا اور اسے وہ بشارتیں اور خوشخبریاں حاصل ہوں گی جو اللہ رب العالمین نے ایک صاحب تقوی کو دینے کا وعدہ فرمایاہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو اللہ کے لیے متقی بن جائے گا۔ صاحب تقوی ہو جائے گا تو اللہ رب العالمین اس کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ آسان فرما دے گا اور ایسی جگہ سے روزی کا انتظام فرمائے گا جہاں آدمی کا وہم و گمان اور تصور نہیں جا سکتا اور ایسا علم عطا فرمائے گا کہ آدمی سوچ نہیں سکتا کہ یہ علم اور اس کی دلوں کے اندر جاگزینی کیسے اللہ رب العالمین عطا فرما رہا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ہم تمام لوگوں کو صاحب تقوی بنا دے اور رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ ایمان اور تقوی سے جوڑ دے۔ ہماری عبادتوں میں اللہ رب العالمین تقوی پیدا فرما دے اور ہم جہاں کہیں بھی رہیں صاحب تقوی بن کر کے رہیں۔ اللہ رب العالمین ہماری عبادتوں کو، ہماری بندگیوں کو، ہمارے روزے کو، ہماری چھوٹی موٹی نیکیوں کو رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں قبول فرما اور ہمیں یہ سعادت عطا فرما کہ ہم اخلاص اور للہیت کے ساتھ تیری بندگی اور تیری عبادت میں لگے رہیں۔ اللہ رب العالمین ہم تمام لوگوں کو رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں جہنم سے آزاد فرما اور جنت الفردوس کا مستحق بنا۔ تمام اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ رمضان المبارک کے اس لمحے کو قیمتی سمجھیں اور ایک ایک لمحے کو قیمتی سمجھتے ہوئے اسے اللہ کی عبادت اور بندگی میں گزاریں اور اسے ضائع اور برباد نہ کریں اور اس مبارک مہینے میں اللہ کی اطاعت، اللہ کی عبادت اور بندگی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کریں ،زیادہ سے زیادہ نوافل اور سنن کو بجا لانے میں گزاریں اور زیادہ سے زیادہ صدقہ اور خیرات کریں۔ اپنے گرد و پیش محتاجوں ،ضرورت مندوں ، فقیروں ، مسکینوں اور لاچاروں کا خیال رکھیں۔ اللہ رب العالمین تمام لوگوں کی عبادتوں کو قبول فرمائے اور اس رمضان کو اللہ رب العالمین تمام مسلمانوں کے لیے اور دنیا کے تمام لوگوں کے لیے خیر اور برکت کا اور امن و سلامتی کا مہینہ بنائے۔وماتوفیقی الا باللہ ۔

Related posts

دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ ،کچھ باتیں ، کچھ یادیں*  Darul Uloom Ahmadia Salafia

Siyasi Manzar

سوامی اسمرنانندابدی سفر پر روانہ

Siyasi Manzar

"خود آگہی سے اتحاد تک”

Siyasi Manzar

Leave a Comment