سہیل انجم
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اترپردیش کے اسلامی مدارس کا وجود واقعی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے ایک فیصلے نے صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اگر اس فیصلے کا بہ نظرغائر مطالعہ کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ جو مدارس یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے تسلیم شدہ ہیں اور حکومت سے امداد لیتے ہیں وہ یا تو بند ہو جائیں گے یا پھر ان کی امداد بند ہو جائے گی۔ کیونکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایجوکیشن بورڈ کو غیر آئینی قرار دیا اور اسے دستور کی دفعہ چودہ، اکیس اور چودہ اے اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ایکٹ 1956 کی دفعہ 22 کے منافی بتایا ہے۔ اس نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ چھ سے چودہ سال کی عمر کے طلبہ کو تعلیم سے محروم نہ کیا جائے۔ بلکہ ان کو مدارس سے نکال کر ریگولر اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔ جسٹس وویک چودھری اور جسٹس سوربھ ودیارتھی کی بینچ نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جمعرات کو اپنے فیصلے میں کہا کہ مذکورہ بورڈ ہندوستان کے آئینی سیکولرزم کے خلاف ہے۔ عدالت کو بظاہر اس بات پر اعتراض ہے کہ مدارس اسلامیہ میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کو حاصل کیے بغیر کوئی بھی طالب علم اگلی کلاسوں میں نہیں جا سکتا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک انٹرویو میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ان کی حکومت عدالتی فیصلے کا احترام کرتی ہے اور وہ اس پر مرحلہ وار عمل درآمد کرے گی۔ ان کے مطابق ہم ریاست کے تعلیمی نظام کو مشترک تعلیمی نظام سے مربوط کریں گے جہاں مذہب یا ذات برادری کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ عدالت کے فیصلے سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ اسلامی مدارس میں طلبہ کے ساتھ مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ریاستی بی جے پی کے ترجمان راکیش ترپاٹھی نے بھی ایسا ہی بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مدارس کے نہیں بلکہ ان کے امتیازی رویے کے خلاف ہیں۔ حکومت کو مدارس کی غیر قانونی فنڈنگ پر بھی تشویش ہے۔ حکومت عدالتی فیصلے کی روشنی میں کارروائی کرے گی۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں مجموعی طور پر 25 ہزار مدارس ہیں جن میں سے 16500 ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے تسلیم شدہ ہیں جن میں سے 560 مدارس کو حکومت امداد دیتی ہے۔ جب کہ 8400 غیر تسلیم شدہ ہیں۔ یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے صدر افتخار احمد جاوید کے مطابق اس عدالتی فیصلے سے 27 لاکھ طلبہ اور دس ہزار اساتذہ متاثر ہوں گے۔ خیال رہے کہ 2004 میں وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کی حکومت نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ بنایا تھا جس کے مطابق مدارس کا انتظام ریاستی حکومت کے تحت آگیا۔ شرائط پوری کرنے والے مدارس کو بورڈ منظور کرتا ہے اور نصاب، تعلیمی مواد اور اساتذہ کی ٹریننگ کے سلسلے میں رہنما ہدایات جاری کرتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ ریاستی حکومت کی جانب سے مدارس کے سروے کے چند ماہ بعد آیا ہے۔ حکومت نے گزشتہ سال اکتوبر میں مدارس کو ملنے والی غیر ملکی عطیات کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ اس نے آٹھ ہزار مدارس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہند نیپال سرحد پر واقع مدارس کو 100 کروڑ کا غیر ملکی چندہ ملا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ریاستی حکومت ایک عرصے سے مدارس اسلامیہ کے سروے اور جانچ میں الجھی ہوئی ہے۔ اس کو شبہ ہے کہ ان مدارس کی غیر ملکی فنڈنگ ہوتی ہے اور ملنے والے چندے کا استعمال تعلیم کے علاوہ تخریبی سرگرمیوں میں بھی ہوتا ہے۔ اس نے اس سے قبل یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ ان مدارس کو کہاں کہاں سے عطیات ملتی ہیں اور کیا یہ مدارس ان کا کوئی حساب کتاب رکھتے ہیں۔ اس کو یہ بھی شبہ ہے کہ ہند نیپال سرحد پر واقع مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن نہ تو سروے میں اس کا کوئی ثبوت ملا اور نہ ہی جانچ میں۔ ایس آئی ٹی کو صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ ہند نیپال سرحد پر واقع مدارس کو 100 کروڑ کا غیر ملکی چندہ ملا ہے۔ اس کی بنیاد پر اس نے آٹھ ہزار مدارس کے خلاف کارروائی کی سفارش کر دی۔ حالانکہ مدارس کو غیر ملکی چندہ صرف قانونی ذرائع سے ملتا ہے اور صرف ان کو ملتا ہے جو متعلقہ قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور جن کو ایف سی آر اے کے تحت منظوری حاصل ہے۔ یہ غیر ملکی چندہ خفیہ نہیں ہوتا بلکہ ہندوستانی بینکوں کے توسط سے ملتا ہے اور مدارس کی جانب سے اس کی تفصیلات حکومت کے پاس جمع کرائی جاتی ہیں۔ ابھی حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی کہ عدالت نے اس کا بہت آسان راستہ کھول دیا۔
مدرسہ ٹیچرز ایسو سی ایشن نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین نے فیصلے کے مطالعے کے بعد حکمت عملی مرتب کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ حکومت اور عدالت دونوں کا خیال ہے کہ ان مدارس میں صرف اسلامی تعلیم دی جاتی ہے لہٰذا تمام بچوں کو معیاری تعلیم حاصل کرنے کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جبکہ مدارس کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ان میں صرف مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ جب سے حکومت نے مدارس کی جدید کاری کے نام پر مداخلت کی کوشش کی ہے اس کے بعد سے ہی ان میں حکومت کے ادارے این سی ای آر ٹی کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ بہت سے طلبہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن کر ملک و قوم کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ اگر صرف مذہبی تعلیم دی جاتی تو وہ آئی اے ایس کا مشکل ترین امتحان کیسے پاس کر لیتے۔ مدارس کے نصاب میں جدید تعلیم بھی شامل ہے اور ان میں تمام سبجکٹ پڑھائے جاتے ہیں۔ مدارس کا ہدف مذہبی تعلیم دینا نہیں بلکہ زبانوں کو زندہ رکھنا اور ان کے وقار کو باقی رکھنا ہے۔ حکومت جو امداد دیتی ہے وہ مذہبی تعلیم کے لیے نہیں دیتی بلکہ اورینٹل لینگویجز جیسے کہ عربی، فارسی اور سنسکرت کے فروغ کے لیے دیتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مدارس میں طلبہ کو مفت تعلیم اور قیام و طعام کے علاوہ طبی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آتیہ ناتھ مدارس کے معاملے میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما سے بھی دو قدم آگے چلے گئے ہیں۔ آسام میں تقریباً تیرہ سو مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان کے اساتذہ کو ہٹایا نہیں گیا۔ جبکہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں اساتذہ کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جن مدارس کی امداد بند کی جائے اور جن کے طلبہ کو اسکولوں میں داخل کرایا جائے گا ان کے اساتذہ بے روزگار ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ پرائمری سطح کے اساتذہ کو کم از کم پچاس ہزار، اوپری درجے کے اساتذہ کو اسّی ہزار اور نظماء کو ایک لاکھ روپے تنخواہ ملتی ہے۔ یہ معاملہ اپنی جگہ پر ہے کہ امداد یافتہ مدارس کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مدارس میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے علما کی جانب سے انتظامیہ کو دس دس لاکھ روپے تک کی رشوت دی جاتی ہے۔ اس بارے میں علما یا پھر مفتی حضرات ہی کوئی رائے دے سکتے ہیں کہ کیا رشوت دینا جائز ہے۔ بہرحال یہ سوال بھی اپنی جگہ پر ہے کہ کیا عدالتی فیصلہ صرف امداد یافتہ مدارس کے سلسلے میں ہے یا پھر اس کا اطلاق تمام مدارس پر ہوگا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ فیصلہ تو امداد یافتہ مدارس کے سلسلے میں ہے لیکن خطرے کی تلوار تمام مدارس کے اوپر لٹک گئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اہل مدارس خواہ قانون کی کتنی ہی پابندی کریں اور تمام شرائط پوری کریں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا ذہن بنا لیا ہے۔ ایسی صورت میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
sanjumdelhi@gmail.com