دین اسلام ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے اس میں ایمان اور عقیدے کے تحفظ کے ساتھ بندوں کے حقوق کی رعایت اور عالم انسانیت کے احترام اور ان کے حقوق اور واجبات کے تحفظ کی بھی گارنٹی اور ضمانت دی گئی ہے اللہ رب ذوالجلال نے ہمیں دین وایمان کو بچانے اور اس کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ جان مال عزت و آبرو اور عقل و شعور کی بھی حفاظت کا حکم عطا فرمایا ہے اور اس سلسلے میں وہ تمام ہدایات قرآن مجید کے ذریعے سے اور پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے دنیائے انسانیت کو عطا کیے گئے جن سے اس روئے زمین پر رہنے والے اللہ کے تمام بندوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکے اور انسانیت اور تمام مذاہب عالم کے احترام کے ساتھ ایک مومن بندہ سماج اور معاشرے میں اپنی زندگی سکون واطمینان سے گزار سکے ۔پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یوں تو اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جوآپ کی طرف سے انسانیت کے تئیں رحمت ومحبت ،رواداری و خیر سگالی باہمی ہمدردی اور انسانی تعاون کی بنیادوں پر احادیث مبارکہ اور سیرت طیبہ کے صفحات پر روز روشن کی طرح سے عیاں ہے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی احترام انسانیت کی بنیادیں استوار کی گئی اور اپ کے گرد و پیش موجود اہل کتاب ،کفار و مشرکین اور تمام ان مذاہب کا اور اللہ کے ان بندوں کا احترام ملحوظ خاطر رکھا گیا جو اس وقت عرب کی سرزمین پر یا مکہ اور مدینہ کے گرد و پیش موجود تھے ۔ اہل ذمہ اور عہد وپیمان پر رہنے والے لوگوں کے سلسلے میں آپ کی ہدایات ان تمام باتوں پر شاہد عدل ہیں فرمان نبوی ہے «ألا من ظلم معاهدا أو انتقصه أو كلفه فوق طاقته أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس فأنا حجيجه يوم القيامة»خبردار ! جس کسی نے کسی معاہد( اہل ذمہ) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضاکے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑوں گا ( أبو داود: 3052 وصححہ الألباني)
اوردوسری روایت میں اس بابت بہت سخت وعید سنائی گئی . آپ ﷺفرماتے ہیں کہ : «من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة وإن ريحها يوجد من مسيرة أربعين عاما» جس شخص نے کسی ذمی کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو 40 سال کی مسافت کی دوری سے پائی جائے گی(بخاري/: 3166)
دعوت و تبلیغ کے تعلق سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم عطا فرمایاگیا کہ آپ کو نرمی، سہولت اور سماحت و رواداری کے ساتھ اپنی دعوت کو کفار و مشرکین تک پہونچاناہے اس میں نفرت، دل کی تنگی اور سختی یہ آپ کی دعوت کا زیب عنوان نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا ((فَبِمَا رَحْمَةٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَوَكِّلِينَ )) پھر اللہ کی رحمت کے سبب سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا، اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو البتہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے، پس انہیں معاف کردے اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لیا کر، پھر جب تو اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ کر، بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے (آل عمران/159)
اور انہی بنیادوں پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والا صحابہ کرام کا گروہ مقدس بھی چل پڑا جنہوں نے تاریخ عالم میں احترام انسانیت، رواداری اور دوسری قوموں کی عبادت گاہوں اور ان کی عزت وآبرو کی حفاظت اور جان مال کے تحفظ کے سلسلے میں تاریخ کے صفحات میں انمٹ نقوس چھوڑے ہیں ۔
صحابہ کرام کی سیرت کو اگر بغور پڑھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح سے عیاں ہو جاتی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں خلافت راشدہ کے مبارک دور میں اور اس کے بعد دیگر ادوار میں احترام انسانیت اور مذاہب عالم کے تئیں انہی بنیادوں کو استوار فرمایا جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں قائم فرمایا تھا۔ جہاں بھی گئے لوگوں کےجان و مال کے تحفظ پر ہمیشہ پوری توجہ رکھی۔دوسری قوموں کے ساتھ جنگوں اور لڑائیوں کے باوجود بھی انسانیت اوراحترام انسانیت کے دامن کو کبھی داغدار نہ ہونے دیا ۔ہرایک کی عزت و آبرو اورسماجی مقام کا بھرپور خیال رکھا اور دیگر اقوام عالم کے ساتھ اس طریقے سے مروت، رواداری ،سماحت والفت، خیر سگالی ،انسانی محبت اور باہمی ہمدردی کے ساتھ سماج اور معاشرے میں ہر ایک کی مدد اور معاونت میں ہمیشہ لگے رہے.تاریخ اسلام میں کوئی ایسی مثال ہمیں اور آپ کو نہیں ملے گی جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے ان بنیادوں کو متزلزل کرنے کی ادنی بھی کاوش کی ہو یا اس میں ادنی سی کوتاہی کی ہو.
اس زمانے میں اگرچہ مواصلات ،اتصالات اورآپسی تعلقات کے وہ وسائل نہیں تھے جو موجودہ زمانے میں موجود ہیں لیکن پھر بھی حتی المقدور جہاں بھی رہے اور جس جگہ بھی گئے روم، ایران، فارس اور جزیرۃ العرب سے باہر نکل کر تمام اقوام عالم کے ساتھ انسانیت کی بنیادوں پراحترام انسانیت کے انمٹ نقوش چھوڑے۔کبھی کسی کی عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا نہ ہی جان اور مال کے ساتھ ناحق دست درازی اور ظلم و تعدی کا شکار ہوئے جہاں بھی رہے حق و انصاف کا بول بالا رہا اور انسانیت کی بنیادوں پر اقوام عالم کے ساتھ تعامل اور معاشرتی زندگی جاری اور ساری رہی اور یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام کےانہیں صاف ستھرے کرداروں کی وجہ سے اسلام روس اور چین کی سرحدوں تک اور ہمارے اورآپ کے وطن عزیز ہندوستان تک پہنچا اور ان کی انسانیت نوازی ،رواداری اور انسانی بنیادوں پر تمام مذاہب اور اقوام عالم کے ساتھ ہمدردی اور خیر سگالی کے جذبات نے تمام اقوام عالم کو دین اسلام کو پڑھنے سمجھنے اور اس کے قریب آنے کا موقع فراہم کیا چنانچہ بہت قلیل مدت میں بہت سارے لوگ صحابہ کرام کے انہی احترام انسانیت کے عظیم کرداروں کی وجہ سے حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
حیرہ کے نصرانیوں کے ساتھ خلیفۃ المسلمین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی انسانیت نوازی کی عظیم مثال تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے کہ انہوں نے اپنے عہد خلافت میں وہاں کے ذمیوں کے سلسلے میں خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے ساتھ مراعات اور انسانی ہمدردی برتنے کا آرڈر صادر فرمایا اور ان میں سے کمزوروں، محتاجوں اور عمر دراز لوگوں کی بیت المال سے کفالت کا حکم عطا فرمایا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھے گئے آپ کے اس فرمان کو سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے،فرماتے ہیں کہ "ایسے لوگ جو کام نہیں کر سکتے یا ان کو کوئی آفت اور مصیبت لاحق ہو چکی ہے اور وہ قلاش ہو چکے ہیں اور ان کی قوم کے لوگ ان کے اوپر صدقہ و خیرات کرنے لگے ہیں ایسی صورت میں ان لوگوں کا جزیہ ختم کر دیا جائے اور ان کے اور ان کے بچوں کی بیت المال سے کفالت کی جائے”.(کتاب لخراج/ابویوسف:306)
اسی طرح عہد فار قی میں اہل ذمہ کے ساتھ انسانیت نوازی اور سماحت اسلام واحترام اقوام کے لئے عظیم الشان ہدایات جاری کی گئیں چنانچہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بعد تمام خلفاء کو اس بات کی وصیت کی کہ اہل ذمہ کے ساتھ عہد اور معاہدے کی رعایت کی جائے اور ان کے جان ومال کی حفاظت کی جائے اور طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لیا جائے ۔صحیح بخاری کے اندر یہ روایت موجودہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بعد آنے والے تمام خلفاء کو اہل ذمہ کے سلسلے میں یہ کہتے ہوئے وصیت جاری کی تھی کہ” میں ذمیوں کے سلسلے میں اللہ اور اللہ کے رسول کا واسطہ دے کر کے ان کے عہد و پیمان کو پورا کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور یہ کہ ان کے پیچھے سے ان کے جان ومال کی حفاظت کے لیے لڑائی لڑی جائے اور انہیں طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے .(بخاري :1392)
اس بابت ایک اور واقعہ تاریخ کے صفحات میں درج ہے کہ:” حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر ایک ایسے آدمی کے پاس سے ہوا جو نابینا تھا اور لوگوں کے دروازوں پر دست سوال دراز کر رہا تھا،اسے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ تم کون سے اہل کتاب میں سے ہو اس نے جواب دیا کہ میں یہودی ہوں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پھر پوچھا کہ تم اس طرح سے بھیک کیوں مانگ رہے ہو اس نے کہا کہ جزیہ دینا ہے اور میری اپنی ضرورت ہے اور میری عمر کا تقاضا ہے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اپنے گھر لے گئے اور جو کچھ میسر تھا اسے دیا اور پھر بیت المال کے خادم کے پاس اسے بھیجا اور فرمایا کہ دیکھو اس کو اور اس جیسے پریشان حال لوگوں کو اللہ کی قسم اگر ہم نے ان کی جواں سالی میں ان سے کچھ (جزیہ) لیا ہے تو یہ انصاف کی بات نہیں ہوگی کہ بڑھاپے میں ہم ان کو رسوا کریں اور پھر ان کا جزیہ اور ٹیکس معاف کر دیا۔(کتاب الخراج /ابویوسف :126)
نبی علیہ السلام اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں میں تکریم انسانیت اور احترام آدمیت اور دیگر مذاہب عالم اور اقوام کائنات کی مدد اور ان کے ساتھ رواداری کی اس طرح کی بے شمارمثالیں ملتی ہیں جوانسانی تاریخ میں سونے کر حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند قابل مبارکباد ہے جس نے وقت کے اس حساس عنوان پردارالحکومت دہلی کے معروف گراؤنڈ رام لیلامیدان میں کل 9-10نومبرکو پینتیسویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس منعقد کی ہے جس میں تمام مذاہب ومسالک کے ذمہ داران اورمعروف علماء واسکالرز کے ساتھ حرم مدنی اورمسجد نبوی کے مایہ نازامام وخطیب ڈاکٹر عبداللہ البعیجان حفظہ اللہ بھی شرکت فرمائیں گے ،اوردنیا کو اسلام کا پیغام امن و انسانیت سنائیں گے ۔عوام الناس سے گذارش ہے کہ اس موقع سے بھرپورفائدہ اٹھائیں اور کانفرنس کے مرکزی پیغام کو سمجھتے ہوئے بحیثیت مسلمان اپنے گرد وپیش اس طرح کے لوگوں کی خبر گیری کریں ،اوراپنے حسین انسانی کرداروں سے انکے دلوں کو اسلام کی محبت سے بھردیں اورانہیں نبی علیہ السلام ا ورصحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اسلام اوراسکے انسانی پیغام سے آشناکردیں اوراہل کائنات تک یہ پیغام پہونچا دیں کہ مذہب اسلام امن و شانتی اورانسانیت نوازی اورلوگوں کے حقوق کی بلاتفریق رنگ ونسل اوردھرم ومذہب تحفظ دینے والا ہے۔ یہاں بدامنی، دھشت اورنفرت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔اللہ ہمیں نیک توفیق عطاء فرمائے۔