Siyasi Manzar
علاقائی خبریں

کلامِ اقبالؒ اسلام کی نشأۃ ثانیہ اورفلسفۂ خودی سے آراستہ بیداری‘ ترقی وانقلاب کاپیغام

عالم اسلام کاتقاضہ رہاکہ نئی نسل کی تعمیرِنوکیلئے اقبالیات کا ترجمہ اُن کی ملکی زبانوں میں بھی ہو:مولانا خلیل احمدندوی نظامی

حیدرآباد۔16؍ نومبر(نمائندہ) کلامِ اقبالؒ نے صرف تعلیماتِ اسلامیہ کاہی احاطہ نہیں کیا بلکہ ذہنِ انسانی‘ کائینات کی جن لامحدود وسعتوںتک رسائی حاصل کرسکتا ہے ان ہفت افلاک کو کلامِ اقبالؒ نے اپنے اندر سمودیا، ان کے تخیل وتصورکی بلندپروازی نے عروج وارتقائی مراحل کی نشاندہی کے ساتھ آسمانی دُنیا کی نورانیت کو محسوسات میں بدلنے کی کوشش کی؛ تاکہ حقائق کی منزلِ مقصودتک پہنچ سکے۔ مولانا خلیل احمد ندوی نظامی‘ سابق ماہرِکتبات عربی وفارسی‘ محکمۂآثارِقدیمہ‘ چیئرمین صمدانی گروپ آف ایجوکیشنل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹس‘ کمپیوٹر ٹریننگ اینڈ لینگویجس سنٹر NCPUL وفانوسِ آگہی (تاریخِ اسلام وثقافتِ اسلامیہ سے نئی نسل کو واقف کرانے کیلئے کل ہند سطح پر انٹر اسکولس؍ کالجس مقابلۂ جات) حیدرآباد نے کہا علامہ اقبالؒ نے جو پیغام دیا اس کا ایک ایک لفظ دل پر نقش کرتا ہے۔ انسانیت کی گرتی ہوئی ساکھ‘ اس کی تعمیرِنو اور مسلمانوں کی اپنی انتہاکو پہنچتی ہوئی غفلت علامہ اقبالؒ کیلئے لمحۂ فکربنی رہی‘ اس لئے انہوں نے فلسفۂ خودی اور شاہین وعقاب کو موضوع بناکر ملت کو جگانے کی کوشش کی، اس قدر تڑپ اُن کے کلام میں اُبھرآئی کہ ایسا لگتا ہے کہ اُنہوں نے اُس کو بیان کرنے کیلئے قلم کی سیاہی کی جگہ اپنے خونِ دل کا استعمال کیا اور پوری ملت کے دردِمشترک کو اپنے جگرمیں سمولیا۔ انسانیت اور ملتِ اسلامیہ کیلئے باعثِ فخر اسلاف کے کارناموں کے روشن خدوخال سے رہتی دنیا تک کے نوجوانوں اور نئی نسل کو واقف کراتے ہوئے حال کو سمجھنے اور مستقبل کو سنوارنے کی راہ دکھلائی، مذہبِ اسلام کی خوبیوں وکمالات پر آپؒ کا کامل ایمان تھا‘ اسلام کو تمام انسانیت کا نجات دہندہ مذہب تصور کرتے تھے، ہرکامیابی کا راز اسی سے وابستگی میں قرار دیتے، عظمتِ خداوندی اور محبتِ رسولؐ سے سرشار اقبالؒ قرآن وحدیث میں ہرمسئلہ کا حل تلاش کرنے پر زور دیتے، اہل اللہ کی صحبت کو اکسیر اور دین سے وابستگی اور اُس پر عمل میں زندگی کا تحفظ سمجھتے‘ مغربی افکار‘ تہذیب اور پالیسیوں سے انسانیت پر پڑنے والے مضراثرات سے ہرمکتبِ فکرونظرکو آگاہ کرنے کی کوشش کرتے۔ عصری علوم میں مہارت کے ساتھ اسلامی علوم وفنون سے گہری واقفیت رکھتے تھے؛ابتدائی زمانہ کے اساتذہ کی تعلیم وتربیت علماء واہلِ دین کی صحبت اور مسلسل مطالعہ وکتب بینی نے انہیں اسلامی علوم وفنون کا ماہر بنادیا جس نے ان کو یہ نظریہ دیاکہ مذہب میں اطمنان اور قوت دونوں ہیں۔ فارسی واُردو زبان کے اونچے درجہ کے شاعراور ایک عظیم فلسفی‘ دانشور ومفکر ہونے کے ساتھ مؤمنانہ فراست کا ایک وافرحصہ انہیں میسر تھا‘ نئی نسل کے تابناک مستقبل کیلئے ہمیشہ آرزومند رہتے۔ اقبالؒ کو علامہ شبلی نعمانیؒ، مولانا الطاف حسین حالی ؒ، اکبرالہ آبادیؒ، ڈاکٹر میک ٹیگرٹ‘ کیمبرج یونیورسٹی، پروفیسر نکسن‘ پروفیسر براؤن اور پروفیسر آرنلڈ وغیرہ سے وابستگی رہی۔ 1901 سے کلامِ اقبالؒ کو کافی پسند کیا جانے لگا‘ اس طرح مختلف رسالوں اور محافل کی زینت بنتا گیا، یوروپ میں 1905 تا 1908 قیام رہا‘ اس دوران اُن کی فارسی شاعری نے وہاں کے تغیرات وترقیات کے نام پر انسانیت دشمن عناصرکو کھل کر پیش کیا، یوروپ سے واپسی کے بعد شاعری کا رخ اُردوزبان کی طرف ہوا جس نے اُن کی مقبولیت کو چارچاند لگادیئے۔ اُردو کلام کے شائقین کی دیرینہ آرزو کو نہ صرف پورا کیا بلکہ بامِ عروج تک پہنچادیا۔ آپؒ کا کلام بانگِ درا ہو یا بالِ جبریل‘ پیامِ مشرق ہویا ضربِ کلیم، زبورِعجم ہو یا ارمغانِ حجاز، اسرارِخودی ہو یا رموزِخودی؛ الغرض! کلامِ اقبال صالح نظریہ اور انسانیت کے حق میں نجات دہندہ تہذیب کو لئے ہوئے ہے، ہندوستان کو غلامی سے آزاد کرنے کی فکر اُنہیں ہروقت لاحق رہی۔ آپؒ نے رنگ‘ نسل‘ مذہب وملت کا فرق کئے بغیر اُن کی عظمتوں کا اعتراف‘ تعریف وتوصیف کی اور تعینات وتقیدات سے آزاد وبالاتر ہوکر وُسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا۔ اقبالؒ نے اپنے کلام کے ذریعہ ان عظیم ہستیوں کو زندگی بخشی جنہوں نے تاریخ میں اہم کردار ادا کیا‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو جیسے ہندومت‘ رام چندرجی‘ گوتم بدھ‘ گرونانک‘ وشومترا وغیرہ، نیز وہ بزرگانِ دین جنہوں برصغیر کے اندر اشاعتِ اسلام میں نمایاں خدمات انجام دیں جیسے حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ، حضرت شیخ احمد سرہندیؒ مجددالف ثانی، حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہیؒ ودیگر کے ساتھ اسلام سے خاص لگاؤں رکھنے والے حکمران ٹیپوسلطانؒ، شیرشاہ سوریؒ، عالمگیرؒ کے علاوہ روحانی پیشوا‘ مذہبی رہنماء‘ شاہانِ مملکت‘ مصلحینِ قوم، شعرائے کرام شامل ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری زندہ جاوید حقیقتوں کی نمائندگی کرتی ہے، وہ رموزوحقائق سے پردہ ہٹانے کا فن جانتے تھے اور اپنے کلام سے حکمت ودانائی کے موتی بکھیرتے‘ جولوگ ان کو سنتے یا پڑھتے اپنے دماغ کو روشن پاتے اور دل میں سودوگداز کی کیفیت محسوس کرتے۔ اُن کا دل پاکیزہ جذبات‘ حسین تخیلات اور انسانی مسائل سے دلچسپی کا مسکن تھا۔ ہمیشہ خوشنودیٔ باریٔ تعالیٰ پر نظر رہتی۔ وہ خودی کو زندگی کا اصل محرک قرار دیتے ہیں‘ کہ ملت اسلامیہ اپنے آپ کو پہچانتے ہوئے اپنے تئیں ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بیدارمغزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانیت کی بھلائی کو اپنا نصب العین بنائے۔ عرب دُنیا و عالم اسلام کے معروف عالم دین شیخ علی طنطاویؒ نے بارہا مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ سے خواہش کی کہ عالم اسلام کو اقبالؒ سے واقف کرانے کا نظم کریں؛ چنانچہ مولانا علی میاںؒ نے اقبالؒ کے بیشتر کلام کو عربی میں منتقل کیا‘ کیونکہ علامہ اقبالؒ کا کلام صرف اُردو یا فارسی ادب کا شاہکارہی نہیں بلکہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا پیغام اور مسلمانوں کی بیداری‘ قومی یکجہتی‘ انسانی رواداری اور اُن کے عروج وزوال کی شعوروآگہی لانے والی سبق آموز داستان ہے اور اس طرح اُنہوں نے ایسے تابندہ نقوش چھوڑے جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

Related posts

ریاست تلنگانہ کے تمام مسلم ووٹرز سے حق رائے دہی استعمال کرنے کی اپیل

Siyasi Manzar

جمعیت الشبان المسلمين کااجلاس عام ومدرسہ تحفیظ القرآن کےحفاظ کی دستاربندی

Siyasi Manzar

بی جے پی اقلیتی محاذ نے پی ایم کی کال پر مذہبی مقامات پر صفائی مہم کا آغاز کیا

Siyasi Manzar