Siyasi Manzar
مضامین

 قدامت پسند تصورات میں قید کر دی گئی عورت

نیلم گرانڈی
گڑوڑ، اتراکھنڈ
ہندوستان نے گزشتہ چند دہائیوں میں تیزی سے ترقی کی ہے۔ سائنس، خلائی، ٹکنالوجی، سیاست، معیشت یا عالمی لیڈر کا کردار ہو، ان سب میں ہندوستان کا مضبوط کردار ابھر کر سامنے آیاہے۔ آج دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔ ہالی ووڈ کے عظیم اداکار اور اداکارائیں بھارتی فلموں میں کام کرنے کا خواب دیکھتی ہیں۔ درحقیقت دنیا ہندوستان کو تیزی سے ابھرتے ہوئے اور طاقتور ملک کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ لیکن اگر ہم سماجی طور پر بات کریں، خاص طور پر دیہی ماحول کی، تو یہ اب بھی پسماندہ نظر آتا ہے۔ خصوصاً خواتین کے حوالے سے معاشرے کی سوچ اور ادراک اس قدر تنگ ہو جاتا ہے کہ وہ انہیں زنجیروں میں قید دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ انہیں سماجی روایات اور قدامت پسند تصورات کا پابند دیکھنا چاہتا ہے۔اسے خواتین کا تعلیم حاصل کرنے، نوکری کرنے یا اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر بااختیار بننا قبول نہیں ہے۔تاہم آج ہمارے معاشرے میں خواتین کو حکومت کی طرف سے بہت سی اسکیموں اور سہولیات کا فائدہ دیا جا رہا ہے۔ مرکز سے لے کر ریاستی سطح تک اسکالرشپ اور کئی اسکیموں کے ذریعے انہیں بااختیار بنانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ جیسی مہم کے ذریعے ان کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی ہندوستان کے دیہی علاقوں میں عورتیں اور لڑکیاں کسی نہ کسی شکل میں قدامت پسند عقائد کی وجہ سے قید ہیں۔ اسے ہر لمحہ یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ ایک بیٹی ہے، بہو ہے، ایک ماں ہے اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔ اس لیے اسے روایات کی زنجیروں میں قید رہنا چاہیے، یہی اس کی زندگی کا فرض ہے۔ اگر عورت معاشرے اور اس کی روایات کو ماننے سے انکار کردے، ظلم کے خلاف آواز اٹھائے، سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سیکھ جائے تو وہ مثالی عورت نہیں ہوسکتی ہے۔
درحقیقت آئین اور قانون میں خواتین کے لیے مساوی حقوق بنائے گئے ہیں لیکن آج بھی اسے سماجی طور پر اس کے ثمرات نہیں مل رہے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے نے ایسے قدامت پسند تصورات پیدا کیے ہیں جن کے چنگل میں وہ قید ہو چکی ہے۔ عورت خواہ کتنی ہی پڑھی لکھی کیوں نہ ہو، اپنے پیروں پر کتنی ہی کھڑی کیوں نہ ہو، اسے اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کا حق نہیں ہے۔ اگر کسی مرد کی بیوی مر جائے تو اسے نہ صرف دوبارہ شادی کا پورا حق دیا جاتا ہے بلکہ اس کام کے لئے معاشرہ بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی نوجوان بیوہ ایسا ہی کرنا چاہے تو اسے بے کردار قراردے دیا جاتا ہے۔ قدم قدم پر اس کا ساتھ دینے کے بجائے اسے ذہنی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ دیہاتی معاشرے کا دوہرا کردار ہے کہ وہ مردوں کے کسی عمل کو غلط نہیں دیکھتا بلکہ اپنی تنگ ذہنیت کی وجہ سے خواتین کو پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔سماجی ذہنیت کی وجہ سے عورت چاہے کسی بھی طبقے یا مقام سے تعلق رکھتی ہو، وہ خود کو بے بس سمجھتی ہے اور اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کے لیے کم از کم 10 بار سوچنے پر مجبور ہوتی ہے اور مردانہ ذہنیت کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ آج معاشرے میں طرح طرح کے بندھنوں میں پھنسی خواتین اپنی اور اپنی شناخت کے لیے ملک کے کونے کونے سے آواز اٹھا رہی ہیں لیکن پھر بھی وہ کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی ہیں۔ اگر وہ معاشرے کی قدامت پسند سوچ کو بدلنے کی کوشش کرتی ہے تو انہیں جسمانی اور ذہنی اذیت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ اس معاشرے میں مردوں کے لیے ایسا کوئی قدامت پسند تصور پیدا نہیں ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روایات صرف خواتین کے لیے ہی کیوں ہے؟ عورت کوہی ثقافت کی بیڑیوں میں کیوں باندھا جاتا ہے؟ اقدار اور روایات کا طوق مردوں پر کیوں نہیں لگایا جاتا ہے؟
عورتوں کی یہ حالت زمانوں سے ایسی ہی چلی آ رہی ہے۔ اس کے ارد گرد اقدار کا ایسا ظالم محافظ ہے کہ اس کے اندرونی احساسات سے آشنا ہونا بہت مشکل ہے۔ وہ کس حد تک انسان ہے اور کس حال میں اس کے حقوق کیا ہیں، یہ بات عورت اس وقت سوچتی ہے جب اس کے دل کو شدید چوٹ پہنچتی ہے۔ روایات اور معاشرے کے قدامت پسند خیالات کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ خواتین کو آزادی نہیں ہے۔ لیکن آزادی کے نام پر وہ آج بھی کئی طرح کی غلامی میں قید ہے۔ وہ پیدائش سے لے کر شادی اور موت تک اسی بندھن میں بندھے ہوئے ہے۔ ایسی غلامی، جسے عورت اپنی اقدار، اپنے فرائض اور اپنی ثقافت سمجھ کر پھنس جاتی ہے اور وہ خود بھی اس بات سے واقف نہیں کہ وہ قدامت پسندانہ تصورات کے چنگل میں کیسے پھنسی ہوئی ہے؟اس حوالے سے پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے دور افتادہ گاؤں چورسوں کی رہنے والی 25 سالہ سنگیتا کا کہنا ہے کہ ”مجھے شادی ہوئے تقریباً 6 سال ہو گئے ہیں۔ لیکن میرے شوہر اور سسرال والوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ عورت کے کردار کے حوالے سے ان کی سوچ آج بھی بہت پرانی ہے۔ وہ بھلے ہی خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ان کے خیالات آج بھی معاشرے کی بنائی ہوئی روایات کی بنیاد پر چلتی ہے۔ جن کا میں ہر لمحہ شکار ہوتی ہوں۔ میں بھی شادی کے بعد اپنی پڑھائی مکمل کرنا چاہتی تھی لیکن نہ کرسکی کیونکہ آج میں کسی کے گھر کی بہو اور ان کے گھر والوں کی عزت ہوں۔ اگر گھر سے باہر پڑھنے نکلتی تو ان کے خاندان کی عزت برباد ہو جائے گی۔ آج تک میں یہ سمجھ نہیں سکی کہ آخرعزت کا سارا بوجھ عورت پر ہی کیوں ڈال دیا جاتا ہے؟ایک مرد، شوہر، باپ یا داماد سے ایسی ہی توقع کیوں نہیں کی جاتی ہے؟“
سنگیتا سے دو سال بڑی ایک اور خاتون نروپما کہتی ہیں ”میری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں، ان آٹھ سالوں میں میں نے اپنی پوری زندگی اپنے سسرال والوں کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے، تاہم آسائشوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے اپنے شوہر کی رضامندی کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم اپنی پسند کے کپڑے بھی نہیں پہن سکتی ہیں اور نہ پسند کے کپڑے خرید سکتی ہیں۔“ درحقیقت یہ معاشرے کی قدامت پسند سوچ ہے، جو خواتین کے لیے پابندیوں کا سبب بنتی ہے۔ اس سے اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔آئین کے نام پر ہم سب کے لیے مساوی حقوق اور آزادی کا جتنا بھی نعرہ بلند کریں، سچ تو یہ ہے کہ آج بھی معاشرہ اپنی قدامت پسند سوچ سے آزاد نہیں ہو سکا ہے اور وہ خواتین کو پابند سلاسل رکھنا چاہتا ہے۔وہ انہیں روایت اور ثقافت کی زنجیروں قید دیکھنا چاہتا ہے۔ مصنفہ باگیشور، اتراکھنڈ میں چرخہ کی ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر ہیں۔(چرخہ فیچرس)

Related posts

وہ بزرگ رکشے والا

Siyasi Manzar

برف کی خشکی

Siyasi Manzar

یوپی کے مدارس پر خطرے کی تلوار

Siyasi Manzar

Leave a Comment