Siyasi Manzar
مضامین

ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے Qari Mushtaq Ahmed


مولانا ساجد حسین چمپارنی ندوی
استاذ مدرسہ عالیہ عرفانیہ، لکھنؤ
اللہ رب العزت نے ہر جاندار کے لئے موت کا ایک دن مقرر کررکھا ہے، یہاں جو بھی آیا ہے،اسے ایک نہ ایک دن جانا ہے،امیر،غریب، عالم، جاہل اس میں کوئی قید نہیں ہے،مگر بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں،جن کے جانے سے ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے، جس کا پر ہونابظاہر مشکل نظر آتا ہے، ان ہی میں سے مدرسہ عالیہ عرفانیہ کے بانی ومہتمم رئیس القرا حضرت قاری مشتاق احمد پرتاپ گڑھی ہیں، جن کا وجود طالبان علوم نبوت کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں تھا۔
میری مدر سہ عالیہ عرفانیہ کی زندگی رئیس القراء حضرت قاری مشتاق احمد صاحب ؒ کے احسانات تلے دبی ہوئی ہے، میرا مستقبل بنا نے اور سنوارنے کا سارا سہرا قاری صاحبؒ کے سر جاتا ہے جب میں مدرسہ جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا چمپارن سے ۱۹۹۸؁ء میں حفظ سے فارغ ہوا تو میرے حفظ کے استاذ حضر ت قاری سلیم صاحب مدظلہ العالی نے اعلیٰ تعلیم کے لئے مجھے مشورہ دیا کہ فنِّ تجوید و قرأ ت کا مرکز، مشہور و معروف ادارہ ، مدرسہ عالیہ عرفانیہ لکھنؤ چلا جائوں ، میں نے ۱۹۹۹؁ء میں لکھنؤ کے لئے رخت سفر باندھا ، جب میں لکھنؤ مدرسہ عالیہ عرفانیہ پہونچا اور یہاں کے نظم و نسق کو دیکھا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیوں کہ یہ شہر تہذیب اور مدرسۂ علم و عرفاں دونوں میرے لئے بالکل نئے تھے مجھے یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ یہاں اخراجات کس طرح پورے ہونگے کیوں کہ میرے گھریلو حالات زیادہ اچھے نہ تھے،میرا تعلق مغربی چمپارن کے ایک چھوٹی سی بستی رگھوناتھ پور سے ہے، والد صاحب ایک کاشت کار ہیں ، بہر حال حضرت قاری صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے عربی اول میں داخلہ لے لیا میں نے عربی اول میں بہت ساری کتابیں دیکھیں تو پریشان ہو گیا چونکہ صرف حفظ کر کے آیا تھا اس لئے سوچ میں پڑ گیا کہ اتنی ساری کتابیں کس طرح پڑھوںگا اور سمجھوںگا لیکن اساتذہ کی توجہ اور محنت سے ساری کتابیں بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ میں آنے لگیں ، پھر پوری لگن کے ساتھ میں تعلیم میں مصروف ہو گیا ، حضرت قاری صاحبؒ کو دیکھا کہ ہر وقت ایک مشفق باپ کی طرح کلاس کے وقت اور کلاس کے بعد بھی پوری نگرانی رکھتے ہیں ، کچھ سالوں بعد حضرت قاری صاحب نے میری نماز اور کلاس کی پابندی کو دیکھتے ہوئے تیسری منزل کے بچوں کا نگراں بنا دیا اور اس زمانہ میں دو سو روپیہ ماہانہ نگرانی کے دینے لگے اور میں بخوشی اس کام کو انجام دیتا رہا میرے لئے دو سو روپیےکسی نعمت سے کم نہیں تھے جن سے میں اپنی مختلف چھوٹی موٹی ضروریات پوری کر لیتا ، میں نے حفص و سبعہ کی اسناد حضرت قاری نثار صاحب سے حاصل کی ، عالیہ ثانیہ کا سالانہ امتحان دارالعلوم ندوۃ العلماء میں اول نمبر سے پاس کیا اس وقت حضرت قاری صاحب دارالعلوم ندوۃ العلماء جانے والے طلباء کو مختلف انعامات سے نوازتے تھے ، مجھے بھی خصوصی انعامات سے سرفراز کیا اور حوصلہ افزائی کی،دارالعلوم میں داخلہ کے بعد جب بھی حضرت قاری صاحب ندوہ جاتے تھے میں ان سے ملاقات کرتا تھا ، فراغت کے بعد بھی حضرت سے میرا تعلق برقرار رہا ، گاہے بگاہے حضرت سے ملاقات کرتا رہتا تھا ، حضرت مجھے قیمتی مشوروں سے نوازتے تھے ، چونکہ حضرت کو چمپارن اور اہل چمپارن سے خاص لگائو تھا اس لئے مجھ پر خصوصی عنایت رہتی تھی ، چنانچہ ۲۰۰۹؁ء کی بات ہے حضرت قاری صاحب نے مجھے مادر علمی میں درس و تدریس کی خدمت انجام دینے کے لئے فون کیا جب میں آگیا تو حضرت نے حضرت مولانا ڈاکٹر شیر افگن صاحب ندوی سے کہا کہ ان کے گھنٹے لگا دیجئے شروع شروع میں میرے عربی سوم تک گھنٹے لگا دئیے گئے اور میں پوری محنت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے لگا اور قاری صاحب کی مرضی کے مطابق مدرسے کی دیگر خدمات انجام دینے لگا ، جس سے حضرت کو مجھ سے خصوصی لگائو ہو گیا ،میں ان کے متبنیٰ بیٹے کی طرح ہو گیا ، ہر کام کے لئے مجھے بلاتے، میں خوش اسلوبی کے ساتھ ان کے حکم کو بجا لاتا، سفر و حضر میں ساتھ رہتا تھا ، کئی اسفار میں نے حضرت کے ساتھ کئے ۔الٰہ آباد ، پرتابگڑھ ، پٹنہ ، مغربی و مشرقی چمپارن کے متعدد اسفار حضرت کی مصاحبت میں ہوئے، حضرت ایک بیٹے کی طرح میرا پورا خیال رکھتے تھے ۲۰۱۲؁ ء میں حضرت نے مجھ پر ایک ایسا احسان کر دیا جس کو میں کبھی بھول نہیں سکتا ہوں اور نہ ہی اس کا حق ادا کر سکتا ہوں یعنی میری تقرری کےابھی تین سال ہوئے تھےکہ حضرت نے کہا اپنے بیوی بچوں کو لکھنؤ بلا لو تمہارے بچے یہیں رہیں گے اس کے بعد احمد حسین اپارٹمنٹ میں ایک فلیٹ کرایے پہ دلوادیا جس کا ماہانہ کرایہ۰۰ ۶۲ ؍ سوروپیے تھا حضرت تقریبًا چھ ماہ تک کرایہ اپنی جیب خاص سے دیتے رہے بعد میںمیں نے ان پیسوں کو واپس کرنا چاہا تو حضرت نے سختی سے منع کر دیا ، حضرت کے کمالات اور خوبیوں کو چند صفحات میں تحریر کرنا مشکل ہے ۔
حضرت قاری صاحبؒ دور اندیش اور صاحب بصیرت تھے ان کو معلوم ہو جاتا تھا کہ فلاں طالب علم کی مالی حالت بہتر نہیں ہے اس کا بھر پور تعاون کرتے تھے اور اس کا خاص خیال رکھتے تھے ،اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں جن سے حضرت کے عہد کے طالبان عرفانیہ ممنون ہیں ،حضرت قاری صاحب کی شخصیت کسی تعارف کا محتاج نہیں آپ کی زندگی کی ساری جد وجہد عرفانیہ کی ترقی کے لئے وقف تھی ، مدرسہ کے لئے ہی جینا اورمدرسے کے لئے ہی مرناآپ کا شعار تھا ، حضرت قاری صاحب نے جو خدمات انجام دیئے ہیں ہندوستان ہی نہیں بیرونی ممالک میں بھی ان کا ڈنکا بج رہا ہے ، مدرسہ کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں آپ نے جو قربانیاں دیں انھیں کا ثمرہ ہے کہ آج یہاں کہ فارغین چہاردانگ عالم میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں اور دنیا کے مختلف خطوں میں علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں مجھے کبھی کبھی آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت قاری صاحب مجھے بلا رہے ہیں اور کسی کام کو کرنے کے لئے اشارہ کر رہے ہیںلیکن اللہ کا شکر و احسان ہے کہ ان کے صاحبزادے جناب قاری امتیازاحمد صاحب نے اس تعلق کو برقرار رکھا اور مزید آگے بڑھایا جس سے حضرت قاری صاحبؒ کی جدائی کا احساس کم ہوگیا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ قاری صاحب کی عنایتیں گر چہ نہ رہیں لیکن ان کے جانشین کی توجہات ہمارے لئے قیمتی سرمایہ کی شکل میں موجود ہے۔ ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو شفقت و محبت کا سمندر اپنی بساط سمیٹ کر رب حقیقی سے جا ملا ، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
یہ وہ تاریخ ہے جس کے آتے ہی دل مغموم ہو جاتا ہے آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں کہ ایک شخصیت کی موت نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا ، پوری دنیا کی آنکھیں نم ہوئیں اور سبھی کے دل روئے ،لا تعداد تعزیتی جلسے اور سیمینار کئے گئے سینکڑوں تعزیتی پیغام اور قلبی تاثرات اخباروں و رسائل کے فرنٹ پیج پر چھپے ،حقیقت یہ ہے کہ اس سانحہ پر معتقدین اور چاہنے والوں کے درمیان صف ماتم بچھ گئی ۔

Related posts

وہ بزرگ رکشے والا

Siyasi Manzar

اتراکھنڈ حکومت کا یکساں سول کوڈ ایک سیاسی چال اور متاکشرا اسکول کے پیروکاروں کیلئے نقصاندہ

Siyasi Manzar

تکریم انسانیت اورہماری ذمہ داریاں

Siyasi Manzar

Leave a Comment