Siyasi Manzar
مضامین

علاقائی پارٹیوں کو مضبوط رکھیں

ڈاکٹر ایم اعجاز علی
یونائیٹیڈ مسلم مورچہ

پورے ملک میں مسلمانوں کے درمیان اگر اس سوال کو رکھ دیا جائے کہ 2024کے انتخاب میں کیا ہوگا؟ مودی سرکار رہے گی یا چلی جائے گی؟ تو جواب یہی ملتا ہے کہ اگر ’’انڈیا‘‘ کے پارٹنرس آپس میں متحد ہوکر لڑیں گے تو پھر مودی سرکار کا صفایا ہوجائے گا، ورنہ اس سرکار کو ہرانا مشکل ہے۔
اب اس جواب میں سب سے پہلے ’’اگر‘‘ لفظ آتا ہے جو ایک بہت بڑی شرط کے برابر ہے۔ حالانکہ ’انڈیا‘ الائنس بننے سے سب سے زیادہ خوشی مسلمانوںکو ہورہی ہے کہ اس بار تو مودی سرکار کو لے ہی بیٹھیں گے۔ یہ ظاہر ہے کیوں کہ ان کے دور میںہر بات پر مسلم-ہندو بہت ہوا ہے، جو اب بھی جاری ہے اور اس حرکت سے عام مسلمانوں کو بہت ہی ذہنی وجسمانی اذیت جھیلنی پڑی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کو لے کر ہمارے برادر وطن ہندو بھائی بھی اب ان سے ناراض لگنے لگے ہیں۔ لیکن رام مندر، کشمیر پر ایکشن، کاشی -متھرا، سناتن دھرم کا مسالہ جب بھی ان کے سامنے رکھا جاتا ہے تو پھر ان کا رخ کدھر مڑ جائے گا یہ ہرکوئی جانتا ہے۔ بھوک، بھئے اور بھرشٹاچار کو بھول کر اس بڑی آبادی کو اس بات پر بڑی راحت ملتی ہے کہ مودی کم سے کم مسلمانوں کو ان کی اوقات تو دکھارہا ہے اور پھر ان مسالوں پر چند مسلم نمائندوں کی طرف سے جو ردعمل دیکھا جاتا ہے وہ تو مودی سرکار کو لوٹا کر لانے میں گھی کا کام کیا ہے اور آگے بھی کرے گا۔ وجہ یہی ہے کہ اس وقت بھاجپا بہت گرم ہے۔ تقریباً دس سالوں کی دور حکومت میں اس سرکار کے مکھیا نے خود کو ایک ایسے ’’اینگری ینگ مین‘‘ (Angry young man) کی حیثیت سے پیش کیا ہے جو اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر لیک سے ہٹ کر فیصلہ لینے میں ڈرتا نہیں دکھائی دیتا ہے۔ اب اس ’’ینگ اینگری مین‘‘ کو یکایک تو سیاسی منظر نامے سے بالکل صفایا کردینا بھی اتنا آسان نہیں ہے۔ سماجی منظر نامے میں ان کا گراف بھی گرا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ 2014 میں ہوا تھا۔ (کانگریس گھٹ کر 206 سے 45پر آگئی تھی)۔ زیادہ چانس تو یہی ہے کہ لوٹ کر مودی سرکار ہی آئے گی لیکن اس کی سیٹیں کم ہوں گی اور سرکار بنانے میں علاقائی پارٹیوں کی بوجھ بڑھے گی۔
ملک وسماج کے لیے بہتر تو فی الوقت یہی ہے کہ مرکز میں کسی بھی قومی سیاسی پارٹی (کانگریس وبھاجپا) کو اکثریت نہ ملے تاکہ سرکار بنانے میں انہیں علاقائی پارٹیوں کی ضرورت پڑے اور ان کا دبدبہ بھی رہے۔ ایسا ہم اس لیے لکھ رہے ہیں کیوں کہ قومی سیاسی پارٹیوں کا مرکز میں مضبوط بن کر آنے پر ان کی لیڈرشپ میں فرعونیت آجاتی ہے۔ جیسا چاہتے ہیں ویسا فیصلہ لینے لگتے ہیں اور ایسا کرنے میں وہ عوام کے جذبات کی قدر بھول جاتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مرکز میں مضبوط بن کر آنے پر قومی سیاسی پارٹیاں بہت گرم ہوجاتی ہیں اور یوں سمجھئے کہ بے لگام ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان پارٹیوں کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کی مضبوط حکومت بنے، مجبور نہیں۔ ہماری حکمت یہ ہونی چاہئے کہ جس بھی قومی سیاسی پارٹی کی حکومت بنے وہ مجبور حکومت بنے۔ بننا تو انہیں دونوں میں سے کسی ایک کو ہے لیکن مجبور بننے پر ان کی گرمی کم رہتی ہے۔ علاقائی پارٹیاں انہیں ٹھنڈا کرنے کا کام کرتی ہیں جو مسلمانوں سے اکیلے نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ سب ووٹ کا کھیل ہے، ورنہ کون سیکولر ہے اور کون کامنل، یہ سب کہنے کی بات ہے۔ مسلمانوںکا ووٹ ہی اب تک کامنل اور سیکولر بنانے کا ٹھیکہ لیے بیٹھا ہے جو غلط فہمی ہے۔ سچ پوچھئے تو سیکولر کا پریکٹیکل معنی ایک عام مسلمانوںکے لیے وہی پارٹی ہے جو اسے صرف جانی ومالی تحفظ کی گارنٹی دیتی ہے۔ کیوںکہ جب ملک میں تنائو، دنگے فساد، ماب لنچنگ یا دیگر تشدد کا ماحول بنتا ہے اسی وقت وہ سرکار کی طرف دیکھتا ہے، ورنہ باقی سبھی دنیاوی معاملات میںیہ قوم آتم نربھر ہے۔ چنائو تو اس کے لیے محض ایک تہوار کے جیسا ہے جو زیادہ تر پانچ سالوںکے بعد ہی آتا رہا ہے اور اس سے نپٹنے میں قوم کا بڑا حصہ اپنی روزی روٹی، تعلیم جیسی بنیادی مسائل کے حل میںلگ جاتا ہے۔ اسے پھر چار سالوں تک مڑکر سرکار کی طرف دیکھنے کا موقع کہاں ملتا ہے۔ بشرطیکہ تحفظ بنارہے۔ لہذا مسلمانوںکو چاہئے کہ جہاںتک ممکن ہوسکے علاقائی پارٹیوں کو نہ صرف زندہ رکھیں، بلکہ اپنی ریاستوں میں اسے مضبوط اور سیکولر بناکر رکھیں (جیسے شیوسینا ادھم گروپ) کو مہاراشٹر میں کامنل سے سیکولر بناکر رکھا)۔ حدیث شریف ہے کہ مومنوں کو شرسے خیر نکالنے یا شرکو ہمیشہ خیر میں تبدیل کرنے کی حکمت لگانی ہوگی، کیوںکہ شر ہر زمانے میں پایا جاتارہا ہے اور رہے گا، خیر میں بدلنے یا اس سے خیر نکالنے میں ہی کامیابی ہے۔ شر کو مزید شر میں ڈھکیلنے رہنے سے نقصان ہی نقصان ہے۔

Related posts

پل ہے یا موت کا کنواں؟

Siyasi Manzar

ماہ رمضان اور ہماری تقوی شعاری

Siyasi Manzar

بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

Siyasi Manzar

Leave a Comment