Siyasi Manzar
مضامین

بنتی نہیں ہے بات مسلماں کہے بغیر!

 پروفیسر مشتاق احمد


آپ معزز قارئین کے حافظے میں ہمارا وہ کالم محفوظ ہوگا جو میں نے پارلیامانی انتخابات کی تاریخ کے اعلامیہ کے فوراً بعد لکھا تھا اور اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا کہ حالیہ پارلیامانی انتخابات بھی ملک کے بنیادی مسائل بالخصوص بیروزگاری ، مفلسی ، ترقیاتی نشانے، عدمِ تغذیہ اور طبی سہولیات جیسے مسائل پر نہیں ہوں گے بلکہ ذاتی نشانے اور مذہبی جنون کی بدولت ہی انتخابی تشہیر کو اشتعال انگیزی دی جائے گی اور اب جیسے جیسے پارلیامانی انتخابات کی تشہیر شباب پر جا رہی ہے ویسے ویسے مذہبی جنون پروان چڑھ رہا ہے ۔بالخصوص مسلمانوں کے ارد گرد انتخابی تشہیر کا دائرہ محدود ہوتا جا رہاہے ۔واضح ہو کہ آغاز میں جس طرح علامتی طورپر انتخابی تشہیر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہاتھا کہ پہلے مرحلے میں جہاں کہیں بھی پولنگ ہونی تھی ان حلقوں میں حکمراں جماعت کی طرف سے مسلم لیگ کے حوالے سے کانگریس کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ جمہوریت میں ایک سیاسی جماعت کا دوسری سیاسی جماعت کے خلاف بیان بازی جمہوریت کی صحت کے لئے اس وقت تک مضر نہیں ہے جب تک کہ اس سیاسی بیان کا مقصد آئینی تقاضوں کی دھجیاں اڑانا نہ ہو۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اب یہ مقابلہ شروع ہو چکا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت شخصی نشانوں کے ذریعہ آئینی ضابطہ شکنی میں آگے ہے۔ اس لئے اب کسی ایک خاص جماعت پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ ہمارے جمہوری تقاضوں کی پاسداری نہیں کر رہی ہے۔لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ ملک میں گذشتہ ایک دہائی سے حکمراں جماعت نے جس طرح مذہبی شدت پسندیت کو انتخابی تشہیر میں آلہ کے طورپر استعمال کیا ہے وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لئے مضر ضرور ہے ۔اس ملک میں مسلمان دوسرے شہریوں کی طرح ہی با عزت زندگی جینا چاہتا ہے اور اپنے آئینی حقوق کے مطابق ملک کے وسائل کا حصہ دار کا خواہش مند ہے لیکن جس طرح مسلمانوں کو علامتی طورپر نشانہ بنایا جا رہاہے اور تعداد ازدواج و تعداد اطفال کے حوالے سے اکثریت طبقے کے ذہن میں تعصبات وتحفظات پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہ ملک کی سا لمیت کے لئے مضر ہے۔ واضح ہو کہ اب انتخابی تشہیر کے جلسوں میں مبینہ طورپر کانگریس پر یہ الزام عائد کیا جا رہاہے کہ وہ ملک کے وسائل کو ایسے لوگوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے کہ ماضی میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی تعداد ازدواج اور تعداد اطفال کو لے کر مسلمانوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ہمارے وزیر اعظم نریند ر مودی اکثر یہ وکالت کرتے ہیں کہ وہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے اصول پر حکومت کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر مسلمانوں کو انتخابی تشہیر میں کیوں نشانہ بنایا جا رہاہے۔اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک اس ملک کا اقلیت مسلم طبقہ ترقی یافتہ نہیں ہوگا اس وقت تک یہ ملک ترقی یافتہ نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ جب تک ملک کے مسلمانوں کی پسماندگی دور نہیں ہوگی اس وقت تک ہمارا وطنِ عزیز ہندوستان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔
ہمارے ملک میں انتخابی کمیشن کو انتخابی عمل کو پورا کرانے کے لئے جو آئینی اختیارات حاصل ہیں اگروہ واقعی اس پر عمل کرے تو انتخابی تشہیری جلسوں میں جس طرح کی اشتعال انگیزی دیکھنے کو مل رہی ہے وہ خود بخود کم ہو جائے گی۔ لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ انتخابی کمیشن کے ذریعہ حالیہ انتخابی مہم میں انتخابی اصول وضابطے کے معاملے میں بھی تعصباتی رویہ اپنایا جا رہاہے۔ جیسا کہ ادھو ٹھاکرے نے انتخابی کمیشن پر الزام لگایا ہے کہ وہ حکمراں جماعت کے ذریعہ انتخابی ضابطہ شکنی پر خاموش رہتی ہے اور اپوزیشن کی سرزنش کرتی ہے ۔ ادھو ٹھاکرے نے تو انتخابی کمیشن کو چیلنج کیا ہے کہ پہلے وہ وزیر اعظم نریندرمودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف کاروائی کرے اس کے بعد ہی وہ اپنی پارٹی کے انتخابی گیت سے مذہبی الفاظ کو نکالنے پر غور کر سکتے ہیں۔
واضح ہو کہ ادھو ٹھاکرے نے اپنی پارٹی شیو سینا کے لئے جو انتخابی تشہیری گیت تیار کیا ہے اس میں ہندو مذہب اور ماں بھوانی کے لفظ کا استعمال کیا ہے جس پرالیکشن کمیشن نے ادھو ٹھاکرے کو نوٹس کیاہے۔ لیکن ادھو ٹھاکرے نے الیکشن کمیشن کو جواب دیاہے کہ ہمارے وزیر اعظم مبینہ طورپر رام مندر کے موضوع پر بات کرتے ہیں اور دیگر لیڈران بھی انتخابی ریلی میں مزید مذہبی دیوی دیوتائوں کا نام لے کر اکثریت طبقے کو مخاطب کرتے ہیں یہ سراسر انتخابی ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے لیکن حکمراں جماعت کو الیکشن کمیشن کچھ بھی کہنے کو تیار نہیں ہے ۔ظاہر ہے کہ ادھو ٹھاکرے نے بڑی صاف گوئی سے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنا مدعا رکھا ہے کیوں کہ انتخابی تشہیری جلسوں میں جس طرح مذہبی جنون پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہاہے وہ بلا شبہ انتخابی کمیشن کی نظر میں ہے لیکن اس کے خلاف اب تک کمیشن نے کوئی عملی اقدام نہیںاٹھایاہے لیکن دیگر سیاسی جماعتوں پر نکیل کسنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ الیکشن کمیشن کا یہ تعصبانہ رویہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر آئینی بھی ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اس لئے ملک کے عوام کے ذہن میں کسی طرح کا شک وشبہ پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام ثابت ہو رہاہے ۔ ادھو ٹھاکرے کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی انتخابی کمیشن کے تئیں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ حکمراں جماعت کے ذریعہ انتخابی ضابطہ شکنی کو سنجیدگی سے نہیںلے رہاہے۔اگرچہ اب جب پورے ملک میں وزیر اعظم کے ذریعہ راجستھان کے بانس واڑا انتخابی جلسے میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیاہے اس پر جب قومی اور بین الاقوامی سطح پر الیکشن کمیشن کی مذمت ہونے لگی ہے تو اس نے نوٹس کیا ہے لیکن جگ ظاہر ہے کہ اس نوٹس کا حشر کیا ہونے والا ہے۔
بہر کیف! اب دوسرے مرحلے کی پولنگ ختم ہو چکی ہے اور انتخابی تشہیری جلسوں میں ہر سیاسی جماعت اپنے طورپر ووٹروں کو اپنی بات پہنچا رہے ہیں لیکن یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ اس انتخاب میں بھی کسی نہ کسی طورپر ملک کی مسلم اقلیت کے حوالے سے انتخابی تشہیری جلسوں میں نفرت انگیز اور اشتعال انگیز باتیں کی جا رہی ہیں لیکن ایک جمہوری ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ تعصبانہ رویہ جمہوری فضا کے لئے مفید نہیں کہا جا سکتا ۔ دراصل ہمارے ملک میں گذشتہ چار دہائیوں سے جس طرح کی سیاست پروان چڑ رہی ہے اس میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اب ہماری سیاست میں’’ بنتی نہیں ہے بات مسلماں کہے بغیر‘‘یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدام اٹھانے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں ایک خاص طبقے کے خلاف فضا مکدر کرنا ملک کی سا لمیت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شیو سینا لیڈر ادھو ٹھاکرے کے جواب میں انتخابی کمیشن کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے اور جس سیاسی جماعت کے ذریعہ ملک کی ایک بڑی مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے خلاف کیا کاروائی ہوتی ہے۔کیوں کہ ابھی پانچ مرحلے کی پولنگ باقی ہے اور اگر انتخابی کمیشن کے ذریعہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاجاتا ہے تو ممکن ہے کہ ملک میں نفرت انگیز چنگاری شعلہ کا روپ اختیار کرے گی اور وہ ہماری جمہوریت کے لئے خسارۂ عظیم ثابت ہوگی ۔

موبائل:9431414586

rm.meezan@gmail.com :ای میل

٭٭

Related posts

پریزائڈنگ افسر کی ڈائری

Siyasi Manzar

موبائل فون ہمارے لیے ہے یا ہم موبائل فون کیلئے؟

Siyasi Manzar

آپ مایوس نہ ہوں، آپ نے کوشش تو پوری کی…

Siyasi Manzar