Siyasi Manzar
مضامین

احساس مرتا ہے تو غیرت بھی مر جاتی ہے

احساس، افراد اور قوموں کے ضمیر یعنی قلب باطن کو زندو رکھتاہے اور یہی احساس حق گوئی اور بے باکی پر آمادہ کرتا ہے ۔
علامہ اقبال نے کہا کہ ۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا ۔
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ۔
احساس زیاں ہو یا احساس ظلم ، احساس عزت و آبرو ہو یا دین دشمنوں کی ریشہ دوانیاں یا احساس شکست جب یہ بدرجہ اتم فرد اورقوموں میں موجود ہوتا ہے تو وہ پھر نفع اور نقصان سے ماورا ہوکر میدان کار زار میں کود پڑتے ہیں ۔ دراصل یہ احساس ہی زندگی ہے ۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے ۔
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں ۔
احساس کی مردنی غلامی اور بے غیرتی کے دروازے کو کھول دیتی ہے اور پھر قوم پانی پت کا میدان بن جاتی ہے جس کو جو چاہتاہے اور جب چاہتا ہے روندتا رہتا ہے۔ شکست خوردہ اور بے غیرت قوم کو فاتح قومیں سب سے پہلے اس کی عورتوں کی آبروریزی کرتی ہے پھر مال و اسباب لوٹ کر غلام بناتی ہیں ۔ جب غیرت مر جاتی ہے تو انسان بزدل ہو جاتا ہے اور وہ ادنا سے ادنیٰ دشمن کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتا ہے ۔ موت سے خوفزدہ ہوتا ہے اور مال و متاع لٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے ۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اک وقت ایسا آئے گا کہ دنیا کی دیگر قومیں تم کو دستر خوان پر رکھے کھانوں کی طرح چن لیں گی ، صحابہ نے پوچھا کیا اسوقت ہماری تعداد کم ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم سمندر کی جھاگ کے برابر ہوگے مگر تم کو وہن لگ جائے گا ،صحابہ نے پوچھا یہ وہن کیا ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم دنیا سے محبت کرو گے اور موت سے ڈرو گے ۔یہ دونوں کیفیتیں بے حس اور بے غیرت فرد اور قوم میں پائ جاتی ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ &شیطان تمہیں بھوک اور موت سے ڈراتا ہے اور فحاشی اور عریانی کی طرف بلاتا ہےمجموعی طور پر بے حسی اور بے غیرتی عالم اسلام پر پچھلے کئی صدیوں سے طاری ہے ۔ آج کا شیطان عالمی طاغوت ہے۔ یہ یہود ونصاریٰ اور اہل ہنود کا اتحاد خبیثہ ہے جو شرق تا غرب عالم اسلام کی عزت و آبرو سے کھیل رہا ہے اور مسلمانوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹ رہا ہے ۔جب ہم مسلمانوں کے قرون اولیٰ کے دور کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ مسلمان اپنی عزت و وقار ، آزادی ، حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کے بارے میں اتنے حساس اور غیرت مند تھے کے کافر و مشرک مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرتے تھے ۔ مدینہ کے ابتدائی دور میں جب اک یہودی رات کے اندھیرے میں اک مسلمان خاتون کو چھیڑنے کی جسارت کی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا سر قلم کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر فاروق رضی کا کوئی محاسبہ بھی نہیں کیا ۔جب روم کے بازار میں اک عیسائی نے اک مسلمان خاتون کو تھپڑ مارا تو روم پر حملہ ہو گیا ۔ جب داہر کے جیل سے اک مظلوم بہن کا خط حجاج بن یوسف کو موصول ہوا تو محمد بن قاسم کا لشکر چڑھ دوڑا اور دیبل تباہ ہوا اور سندھ بابل اسلام بن گیا ۔ لیکن جب مسلمان عیش و عشرت میں مبتلا ہوئے اور دنیا کے طالب ہوئے تو چنگیز خان کے لشکر اور بعد میں ہلاکو نے مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ مگر آج قوم کی بیٹی حافظ قرآن اور سائنسی علوم میں درجنوں بین الاقوامی انعامات حاصل کرنے والی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو بے غیرت فوجی سربراہ مشرف نے امریکہ کے ہاتھوں بیچ دیا اور پوری مسلم دنیا با العموم اور پاکستانی فوج و قوم با الخصوص بے حس اور بے غیرت بن کر اس مظلوم بیٹی کی آہ و بکا پر خاموشی کا زہر پی کر بیٹھی ہوئی ہے ۔
بے حسی کا زہر پی کر لوگ کب کے سو چکے ۔
پتھروں کے اس نگر میں آدمی مت ڈھونڈیئے ۔
علامہ اقبال نے بانگِ درا میں عبد القادر روہیلہ کی بربریت کا ذکر جس نظم میں کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ روہیلہ نے مغل بادشاہ کی آنکھیں نکال کر اس کے حرم کی خواتین کو رقص کرنے کو کہا مگر وہ جب انکار کیں تو اس نے اپنا خنجر تخت پر رکھ کر سونے کا بہانا کیا مگر کسی بھی عورت نے اس کو مارنے کی کوشش نہیں کی اس نظم کا آخری شعر یہ ہے کہ ۔
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر ۔
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے ۔
اسی طرح کا واقع بھی ہلاکو سے منسوب ہے کہ بغداد کو پامال کرنے کے بعد اس نے بھی موقع دیا مگر جب خواتین نے یہ اس کوکچھ نہیں کیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے سب کو قتل کروا دیا کہ ان سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ بھی بے غیرت ہوگا ۔پوری عرب دنیا آج اسرائیل کی بربریت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے ۔ مسجد اقصی کے صحن میں بیٹیوں کی ردائیں اسرائیلی درندے تار تار کرتے ہیں مگر یہ بے غیرت اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں ۔قربان جائیے حماس اور غزہ کے غیور مسلمانوں پر کہ وہ ہزاروں جانیں قربان کر کے اسرائیل کو شکست سے دو چار کر کے پوری مسلم دنیا کا قرض ادا کر رہے ہیں ۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے ۔
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے ۔
کہ مترادف عالم اسلام کے حکمرانوں پر جتنی بھی لعنت بھیجی جائے کم ہے۔ پوپ اربن کے اعلان کے بعد آج ہزار سالوں سے صلیبی جنگوں کا سلسلہ جاری حب چکا ہے ۔اورنگ زیب عالمگیر کے بعد مغل بادشاہوں کی عیاشی نے مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کا خاتمہ کردیا اور انگریزوں کی حکمرانی قائم ہوئی ۔ اک طویل جدو جہد اور قربانی کے بعد پاکستان بنا مگر مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت ہندوستان میں رہی جومسلسل شدت پسند ہندتوا کے علم برداروں کے ظلم کا شکار ہے ۔ اب تک بڑے چھوٹے مسلم کش فسادات میں لاکھوں مسلمانوں کا بےدردی سے قتلِ عام کیا گیا ان کی بستیاں اجاڑی گئیں ان کے املاک تباہ و برباد کیئے گئے ہیں عزت و آبرو پامال ہو رہی ہیں مسلمان نام سے نفرت کی ایسی ہوا چل رہی ہے کہ مسلمانوں سے منسوب ہر علامت کو مٹایا جا رہا ہے ۔ بابری مسجد عدلیہ اور مودی سرکار کی ملی بھگت سے جب مسمار کی گئی تو اڈوانی نے کہا کہ ہم نے سومنات کا بدلہ لے لیا ۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کوتوڑ کر بنگلہ دیش بنا تو اندرا گاندھی نے تقریر میں کہا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا اور ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ۔ یہ ہندو قوم پرستی کا احساس تھا ۔مگر ہائے رے بے حسی کہ نا ہم کو 1947 کے فسادات میں لال قلعہ کے برجوں سے برہنہ اچھالی گئیں بیٹیاں اور بہنیں یاد ہیں ، ناپٹنہ کے اندھے کنوئیں میں اپنی آبرو بچانے کے لئے کود &گئیںاحساس مرتا ہے تو غیرت بھی مر جاتی ہے۔اور نہ ہی مشرقی پنجاب میں ہزاروں رضیہ جو رنجیتا کور بنا دی گئیں وہ یاد ہیں میرٹھ ، گجرات ، بھیونڈی مالے گاؤں کلکتہ کی اجڑی بستیاں اور جلے ہوئے مکانات اور نہ ہی چیختی چلاتی بیٹیاں اور معصوم بچے یاد ہیں ۔ یاد ہے تو کون بریلوی ، کون دیو بندی، کون شیعہ سنی یاد ہے ۔نہ جانے کتنی ذاتوں مسلکوں فرقوں گروہوں میں ۔
یہ اپنی وضع میں بے حیا بے زار ہے آقا ۔
بھلا کر نس قرآنی یہودی و نصرانی ۔
شیاطین زمانہ کا یہ پیرو کار ہے آقا ۔
مسلماں آج بھی دنیا میں بے پندار ہے آقا ۔
ذلیل وخوار ہے مست مئے اغیار ہے آقا ۔
پاکستان جس کو مملکت خداداد پاکستان بنایا تھا آج اس کی شناخت اک بھکاری کی ہے۔ 76 سالوں سے کشمیری لاکھوں جانوں کی قربانی اس لیئے دے رہے تھے کہ کشمیر بنے گا پاکستان مگر آج ان کا بھی سودا ہوگیا ۔ جو ہندو انتہا پسندی کا شکار ہیں ۔ 1971کی شکست کا بدلہ کیا لیں گے کہ لاہور شاہی قلعہ میں راجا رنجیت سنگھ کا بڑا پوٹریٹ ہیرو آف پنجاب کے نام سے آویزاں ہے ۔جب انہوں نے اک غیرت مند جانباز ایمل کانسی کو ڈالروں کے بدلے امریکہ کے حوالے کیا تھا تو اک امریکی وکیل نے کہا کہ پاکستانیوں کو اتنے ڈالرز دینے کی کیا ضرورت تھی یہ چند پیسوں میں اپنی ماں بہن بیٹیوں کو بیچ دیتے ہیں ۔
تم نے ڈالر کی کھنکتی ہوئی جھنکاروں میں ۔
اپنی غیرت کو بیچ آئے ہو بازاروں میں ۔
طوائفیں اور رقاصائیں درباروں کی زینت بنی بیٹھی ہیں تو خاک غیرت آئے گی ۔
احساس مرتا ہے تو غیرت بھی مر جاتی ہے ۔
یہ وہ موت ہے کہ جس کی خبر نہیں ہوتی ۔
برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں کل ملا کر 75 کروڑ مسلمان آباد ہیں ، بنگلہ دیش تو 1971 کے بعد بھارت کی اک طفیلی ریاست ہے، ہندوستان کے 25 کروڑ مسلمان گزشتہ 76 سالوں سے ہندتوا کے جارحیت کا شکار ہیں اور اب اپنے اسلامی تشخص کو بچانےکے لئے ناتواں سی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ NRC اور یکساں سول کوڈ کی تلوار لٹکی ہوئی ہے بابری مسجد کے بعد بنارس،ایودھیا کی مساجد نشانے پر ہیں ۔ گائے رکھشا کے نام پر اجتماعی تشدد اور ہلاکتیں عام ہیں ۔ کشمیر کے مسلمان اب اپنی خصوصی شناخت سے محروم کر دیئے گئے ہیں اور فلسطین کی طرح ان کی ابادی کو اقلیت میں بدلنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اور مسلمانان ہندآپس میں مسلکی چپقلش کا شکار ہیں ۔ ساؤتھ اور شمالی ہندوستان کے مسلمان اک دوسرے کے مسائل سے لا تعلق ہیں ۔پاکستان جو عالم اسلام کے مسلمانوں کی پشت پناہی کے لیئے بنا تھا ایٹمی قوت ہونے کے باوجود امریکہ اور I.M.F کا غلام ہے،بھکاری بنا ہوا ہے دنیا کے مسلمانوں کے مسائل سے بالکل لا تعلق ہو چکا ہے ۔ اسلامی تنظیم میں شامل 57 ممالک عالمی جارحیت اور اسرائیلی درندگی کے سامنے بے بس ہیں اور در پردہ اسرائیل کے حامی و بہی خواہ ہیں ۔تہذیبی شناخت مغربی تہذیب کے یلغارکی مزاحمت کرنے کے بجائے اس کو اپناتے جا رہے ہیں ۔ جس جزیرت ا لا عرب سے بت پرستی کو نکال دیا گیا تھا اب دبئی میںمندر کے افتتاح کے بعد بت داخل ہو چکا ہے حرمین کا تقدس پامال ہونے جا رہا ہے ۔اپنی تہذیب کی لاش پہ رونے والا بھی کوئی نہیں ۔سب کے ہونٹوں پر ہے یہ صدا اب یہ میت اٹھائے گا کون۔
مختصر یہ کہ پوری اسلامی دنیا طاغوتی طاقتوں کے سامنے بے بس ۔مگر زندگی کا پیغام تو یہ ہے ۔
اے دل زندہ کہیں تو نہ مر جائے ۔
یہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے ۔
جوش ملیح ابادی نے کیا ہی غیرت بھرا پیغام دیا ہے ۔
زندہ رہنا ہے تو میر کارواں بن کر رہو ۔
اس زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کر رہو ۔
دور حق ہو تو نسیم بوستاں بن کر رہو۔
عہد باطل ہو تو تیغ بے اماں بن کر رہو ۔
دوستوں کے پاس جاؤ نور پھیلاتے ہوئے ۔
دشمنوں کی صف سے گزرو آگ برساتے ہوئے ۔
درو محکومی میں راحت کفر، عشرت ہے حرام ۔
مہوشوں کی چاہ، ساقی کی محبت ہے حرام ۔
علم ناجائز ہے دستار فضیلت ہے حرام ۔
انتہا یہ ہے غلاموں کی عبادت ہے حرام ۔
کوئے ذلت میں ٹھہرنا کیا گزرنا بھی حرام ۔
صرف جینا ہی نہیں اس طرح مرنا بھی حرام ۔

(قلم کارکے نظریات ان کے اپنے ذاتی ہیں ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

Related posts

عہد حاضر میں مقصد تعلیم محض حصول ڈگری ہے

Siyasi Manzar

ہمارا سیاسی تنزّل اسباب و اِ نسِداد

Siyasi Manzar

اسلام دین رحمت ہے، اس کا نظام عدل و رحمت ،اخوت و محبت، بھائی چارہ اور انصاف پر مبنی ہے:عبدالحکیم مدنی

Siyasi Manzar

Leave a Comment