Siyasi Manzar
مضامین

کیا تلنگانہ میں بی آر ایس اور کانگریس میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا؟

سید سرفراز احمد،بھینسہ
تلنگانہ میں انتخابی تشہیری مرحلہ اپنے آخری دور میں داخل ہوچکا ہے ہر سیاسی پارٹی ریاست میں اپنی انتخابی مہم پوری شدت کے ساتھ چلارہی ہے رائے دہندوں کو پر کشش بنانے کیلئے امیدواران اپنے حریف پر الزام تراشی کرتے ہوئے تن من دھن سب کچھ نچھاور کرنے میں مصروف ہے وعدوں اور دعوؤں کی برسات ہورہی ہے اقلیتوں پر ہمدردی کے پھول نچھاور کیئے جارہے ہیں لیکن یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے بلکہ جب بھی جمہوریت کا یہ انتخابی تہوار آتا ہے تو سیاسی قائدین کی ہمدردی کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا اگر چہ یہ ہمدردی مستقل ہوتی تو کچھ بات ہوتی لیکن یہ ہمدردی صرف عارضی ہوتی ہے جسکی وجہ سے امیدواروں کو عوام کا اعتماد حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ویسے پہلے کی بہ نسبت آج عوام میں سیاسی دلچسپی اور شعور جو اجاگر ہوا ہے وہ ایک جمہوری ملک کیلئے انتہائی ضروری ہوتا ہے یہ اچھی بات ہیکہ عوام اگر کسی بھی پارٹی یا امیدوار کو اپنا ووٹ دے رہی ہے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ شعور کی پوری کیفیت کے ساتھ ووٹ کا استعمال کررہی ہے۔
تلنگانہ جنوبی ہند کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی کا اسمبلی انتخابات میں ابھی تک کوئی خاصا مظاہرہ نہیں رہا یہ اسی بات کی علامت ہیکہ یہاں کی عوام فرقہ پرستی کی سیاست کو پنپنے نہیں دیتی ابھی تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات کے جو سروے رپورٹ آرہے ہیں اسمیں بھی بی جے پی کا کوئی خاص مظاہرہ نظر نہیں آرہا ہے اور نہ انھیں عوام کی حمایت حاصل ہورہی ہے شائد بی جے پی اسی لیئے تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات کیلئے اپنے قدم پیچھے لے چکی ہے یا پھر بات کچھ اور بھی ہوسکتی لیکن دلچسپ پہلو یہ ہیکہ تلنگانہ میں اصل مقابلہ دو سیکولر جماعتیں بی آر ایس اور کانگریس  کے مابین ہورہا ہے حالانکہ پچھلے چند مہینوں میں بھی کانگریس کا کوئی تذکرہ نہیں تھا لیکن جیسے ہی کانگریس نے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں شاندار واپسی کی اور بعد ازاں سی ڈیبلو جے کا اجلاس حیدرآباد میں منعقد کیا گیا اور چھ گیارنٹی اسکیمات کا اعلان کیا گیا ریاست تلنگانہ میں ایک خاموش لہر کا آغاز ہوتاگیا اور آج یہ صورتحال ہیکہ کل تک بی آر ایس کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا تھا آج وہی بی آر ایس کیلئے ایک چیلنج بن گیا ہے بات اگر کرناٹک کی کی جائے تو کرناٹک میں بی جے پی حکومت میں تھی اور مد مقابل کوئی بھی علاقائی پارٹی اتنی مضبوط نہیں تھی کہ جسکو ووٹ دیکر جتایاجاسکے عوام کے سامنے صرف ایک ہی راستہ اور ایک ہی سیکولر جماعت صرف کانگریس ہی تھی چونکہ کرناٹک کی عوام فرقہ پرستی سے بھی بدظن ہوچکی تھی ترقی نام کی کوئی چیز نہیں تھی تب ہی اکثریت نے کانگریس کے حق میں اپنا فیصلہ کیا اور آج اقتدار سونپ دیا۔
اسکے برعکس تلنگانہ میں بی آر ایس نے دس سال حکومت کی جسکی خامیاں اور خوبیاں دونوں ایک ساتھ شانہ بہ شانہ چل رہی تھی اور اب کانگریس جو متحدہ آندھرا پردیش میں اپنی حکمرانی کی تھی جسکی اپنی بھی خامیاں اور خوبیاں رہی ہیں آج وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کیلئے تلنگانہ میں زور لگارہی ہے ابھی موجودہ صورتحال میں دو سیکولر جماعتوں کی وجہ سے عوام کی رائے بھی منقسم ہوچکی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں میں کانٹے کا مقابلہ ہونے جارہا ہے بی آر ایس کی فلاحی اسکیمات جو پوری ریاست میں اور ملک میں اپنا دبدبہ بنارکھی ہے وہیں اسکی چند غلطیوں کی وجہ سے آج عوامی رائے منقسم ہوچکی ہے بی آر ایس کی فلاحی اسکیمات کے مقابلہ کانگریس نے بڑی ہی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپناطاقتور منشور جاری کیا اور چھ گیارنٹی اسکیمات کے ذریعہ رائے دہندوں کو پرکشش بناتے ہوئے اپنے اعتماد میں لینے کی کوشش کررہی ہے اسکے علاوہ کانگریس کے اقلیتی ڈکلیریشن نے بھی اقلیتوں کو اپنی جانب راغب کرنے کا کام کررہی ہے یہ بڑی اچھی بات ہیکہ آج تلنگانہ میں ترقی عوامی مفادات اور فلاحی اسکیمات کے ایجنڈے پر سیکولر جماعتیں انتخاب لڑرہی ہیں جس سے یہ صاف نظر آرہا ہیکہ اس انتخابات میں فرقہ پرستی کیلئے تلنگانہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیا واقع تلنگانہ میں بی آر ایس اور کانگریس میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا؟اگر ہوگا تو اکثریت کون حاصل کرے گی؟یا پھر کیا تلنگانہ میں معلق حکومت تشکیل دینے کی ضرورت پڑے گی؟ اسمیں کوئی شک نہیں ہیکہ تلنگانہ میں بی آر ایس اور کانگریس میں کانٹے کی ٹکر ہوگی لیکن اہم سوال یہ ہیکہ عوام کی رائے منقسم نہ ہو اگر عوام کی اکثریت منقسم ہوگی تو بی جے پی نا چاہتے ہوئے بھی اپنی نشستوں میں اضافہ کرلے گی لہذا عوام کو چاہیئے کہ وہ اپنے حلقہ اسمبلی میں سیکولر جماعتوں میں سب سے مضبوط سیکولر کون ہے جو فرقہ پرستی کو شکست دے سکتا ہو جسکو اپنے حلقہ میں عوام کی اکثریت حاصل ہوسکتی ہے جو عوام کی بلا مذہب و ملت خدمت کرسکتا ہو جو اکثریتی و اقلیتی طبقات کا ووٹ حاصل کرسکتا ہواسکے حق میں متحدہ رائے دہی کا استعمال کریں جس سے فرقہ پرستی کی جڑبھی کٹ جائے  گی اور عوامی فیصلہ بھی کارآمد ثابت ہوگا جس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ جتنی مضبوط حکومت ہوگی اتنی ہی مضبوط اپوزیشن بھی ہوگی اگر ایسا ہوگا تو عوامی مفادات کے تکمیل ہونے کے صد فیصد نتائج برآمد ہوسکتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہیکہ اس کیلئے رائے دہی کا تناسب مرکزی مقام رکھتا ہے اگر ہم پچھلے دو ماہ سے سیاسی بحث و مباحثہ میں حصہ لے رہے ہوں اور اگر رائے دہی میں حصہ نہ لیتے ہوں تو اسکا خمیازہ آئندہ پانچ سال تک بھگتنا پڑ سکتا ہے بلکہ ہونا یہ چاہیئے کہ پوری زمہ داری اور شعوری کیفیت کے ساتھ ہر گھر سے صد فیصد رائے دہی میں حصہ لینا چاہیۓ تب ہی ہم جمہوریت کے شراکت دار بن سکتے ہیں اور اپنی پسند کے امیدوار کو جتا سکتے ہیں۔

Related posts

ایک  مثالی شخصیت، ڈاکٹر احمد اشفاق کریم 

Siyasi Manzar

وہ بزرگ رکشے والا

Siyasi Manzar

کچھ تو غور وفکر کر ائے ابن آدم !!

Siyasi Manzar

Leave a Comment