Siyasi Manzar
مضامین

قدیم یونان کی ہندوستانی اسٹریٹجک فکر، اور حکمرانی پر اثرات

پروفیسر و اسلیوس سیروس

حالیہ برسوں میں، ہندوستان کی قدیم فوجی حکمت عملی اور فن حکمرانی کو دوبارہ دریافت یا ان کی از سر نو تحقیق کرنے کی کئی کوششیں کی گئی ہیں۔ یہ کام صرف مختلف ذرائع اور شواہد کی محتاط تحقیق کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ اس بات کی بھی تحقیق ضروری ہے کہ برصغیر ہندوستان میں ابھرنے والے سیاسی اور عسکری قیادت کے ماڈلز کس طرح بیرونی عوامل سے متاثر ہوئے۔
سکندر اعظم کی ہندوستان کی مہم یونانی اثر و رسوخ کا مرکز بنیں جس کے نتیجے میں یونانی بستیوں کا قیام ہوا اور تجارت کو ایک نئی تحریک و سمت ملی۔ یہ کام ہندوستانی اور یونانی تہذیبوں کے امتزاج کا بھی سبب بنا، جس کی ایک اہم مثال گندھارا اسکول آف آرٹ ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ سکندر کی فوجی مہمات اور 326 قبل مسیح میں دریائے جہلم کے قریب راجہ پورس کے خلاف جنگ، جو سکندر کی پیش قدمی کا خاتمہ بنی، نے موریہ سلطنت کے قیام اور چانکیہ (کوٹلیہ) کی شہرہ آفاق تصنیف ارتھ شاستر کے لیے اہم اسباق فراہم کیے۔
غور طلب ہے کہ 305 قبل مسیح میں سکندر کے جرنیل اور سلیوسی سلطنت کے بانی، سلیوکس اول نیکٹر کو چندر گپت موریہ نے شکست دی۔ اس معاہدے میں سلیوکس کی بیٹی ہیلینا کی چندر گپت سے شادی شامل تھی۔ یونانی روایات میں ہیلینا ایک منفرد مقام رکھتی ہیں، کیونکہ وہ ٹروجن جنگ کی مشہور شخصیت ہیلن آف ٹرائے کے برعکس، دو عظیم تہذیبوں کے درمیان پرامن تعلقات کی علامت بنیں۔
یونانیوں نے ہندوستانی درباروں میں سفیر اور نمائندے کے طور پر خدمات انجام دیں اور انہوں نے موریہ سلطنت کے کام کاج پر کئی علمی کام کئے ۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ میگسٹینیز، جو سلیوکس کا سفیر تھا، نے چندر گپت کے دربار میں موجودگی کے دوران انڈیکا نامی کتاب لکھی، جو موریہ سلطنت کے نظام کا اہم حوالہ فراہم کرتی ہے۔ انڈو-یونانی (یوانا) بادشاہت نے قابل حکمران اور جرنیل پیدا کیے، جیسے میلندَر اول سوتر( میلینڈا) اور ڈیمیٹریوس سوم اینی کیٹوس۔اسلامی حکومت کے قیام کے ساتھ یونانی علوم و افکار برصغیر میں داخل ہوئے۔ اخلاقی ادب سے متعلق مشہور تصنیف اخلاقِ ناصری، جو تیرہویں صدی کے ایرانی فلسفی نصیرالدین طوسی کا شاہکار ہے، ارسطو اور افلاطون کی تعلیمات پر مبنی تھی۔ یہ کتاب اخلاقیات، خاندانی نظم و نسق، اور سیاسی حکمرانی کے اصول بیان کرتی ہے۔
مغلوں کے اخلاقی تعلیمات کے اولین ذرائع میں سے ایک اخلاق ہمایونی ہے، جس میں 1504 میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد بابر کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اخلاق ہمایونی میں اچھی حکومت کے بارے میں بہت سی اہم باتیں شامل ہیں جو دور دراز علاقوں اور پیچیدہ نظام حکومت کے انتظام کے تناظر میں ابتدائی مغل حکمرانوں کی طرز قیادت پر گہرا اور دیرپا اثر مرتب کرتی ہے۔
اکبر کے دور میں یونانی تعلیمات
مغل حکمرانوں میں شہنشاہ اکبر کے زمانے میں پہلی بار نصیرالدین طوسی کی تصنیف اخلاق ناصری کو مغل سیاسی حکمت عملی کی حقیقی اساس کے طور پر اہمیت دی گئی اور اپنایا گیا۔ اکبر، جوکہ غالباً مغل خاندان کا سب سے ذہین حکمراں تھا، اخلاق ناصری سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ ناخواندہ ہونے کی وجہ سے اس کتاب کو اپنے درباریوں سے باقاعدہ پڑھ کر سنتا۔ اس نے بلکہ اکبر کے امن و انصاف کے فلسفے صلح کل کو بھی متاثر کیا۔
غالباً، مغل پادشاہ اکبر نے طوسی کے مقالے میں سیاسی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا ایک موثر اور جامع لیکن آسان خاکہ دیکھا تھا۔ اکبر نے اسے مغل حکومت کے عہدیداروں اور فوجی کمانڈروں کے پڑھنا لازمی قرار دیا۔
یہاں تک کوئی یہ قیاس کر سکتا ہے کہ طوسی کے عہد کے فلسفیانہ اصولوں نے ہی فتح پور سیکری کو مغل سلطنت کے نئے دارالحکومت کے طور پر تعمیر کرنے کے اکبر کے عظیم منصوبے کو بنیاد فراہم کی۔
اسی طرح اکبر کے وزیر اعظم ابوالفضل کی مشہور تصنیف آئین اکبری جو کہ اکبر کے دور حکومت کے واقعات پر مبنی ہے، یونانی تعلیمات سے بھری ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابوالفضل یونانی طبیب جالینوس (گیلن) کے نظریہ اخلاط کی طرف بھی متوجہ ہوا تاکہ چار اہم پیشہ ور گروہوں جنگجو، کاریگر،اور تاجر، کسان اور مزدور پر مشتمل سماجی تنظیم کا نمونہ بیان کیا جا سکے۔ ان چار گروہوں کو چار عناصر یعنی آگ، ہوا، پانی اور زمین کی نمائندگی کرنے کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔
اسی طرح مغل سیاسی ادب کے دیگر اہم نمونے جو طوسی کی اخلاق ناصری اور یونانی فکر کے اثرات کی عکاسی کرتے ہیں ان میں موعظہ جہانگیری (جہانگیر کو نصیحت) اور اخلاق جہانگیری شامل ہیں۔ یہ دونوں کتابیںں سترہویں صدی کے اوائل میں لکھی گئیں۔
اخلاقی ادب کی عالمگیر مقبولیت
اخلاقی ادب پر مبنی تصانیف نہ صرف برصغیر میں بلکہ اسلام کے دیگر خطوں میں بھی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل تھیں۔ استنبول میں ابوالفضل کے ہم عصر، کنال زادے علی چلیبی نے اخلاق علی لکھی جو عثمانی سیاسی گفتگو کا ایک بڑا ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔ اخلاق کی صنف اور اس کی شکلیں بیسویں صدی کے پہلے نصف تک سیاست کے بارے میں لکھنے کے مروجہ طریقوں میں سے ایک رہی، جس کا ثبوت اردو تحریروں کے اس مجموعہ سے ملتا ہے جس میں طوسی، دوانی اور یونانیوں سے متعلق موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ دوانی کی اخلاق جلالی کی کاپیاں اور اردو ترجمے 19ویں صدی میں لکھنؤ، کانپور اور دیگر شہروں سے چھپے اور 1939 میں لاہور سے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا۔
اخلاقی ادب سے متعلق کتابوں نے اسلام کے دائرے سے باہر بھی اپنے اثرات کو برقرار رکھا۔ ہندوؤں، جنہوں نے انتظامی تربیت کے لئے مدراس میں تعلیم حاصل کی انہوں نے نہ صرف عربی اور فارسی میں موجود اخلاقی کتابوں اور نصیحتی لٹریچر کا مطالعہ کیا بلکہ یونانی کلاسیک کی روح کو بھی اپنایا ۔
ہینری جارج کینی، جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک ملازم تھا اور بعد میں ہیلی بیری میں واقع ایسٹ انڈیا کمپنی کالج میں فارسی اور عربی پڑھائے پر معمور ہوا، اس نے 1867 میں اخلاق محسنی کا انگریزی ترجمہ شائع کیا، جو پندرہویں صدی کے ایرانی فارسی ادیب حسین واعظ کاشفی کے اخلاقی عقائد و نظریات کا نچوڑ تھا۔ کاشفی نے فارسی میں کلیلہ و دمنہ اورپنچتنتر پر مبنی کہانیوں اور افسانوں کا ایک مجموعہ بھی تیار کیا۔ کینی کا اخلاق محسنی کا یہ ترجمہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے کالج کے تعلیمی نصاب کا حصہ تھا۔

Related posts

زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ نے کاشتکاروں کی آمدنی میں اضافہ کیا

Siyasi Manzar

وہ بزرگ رکشے والا

Siyasi Manzar

پل ہے یا موت کا کنواں؟

Siyasi Manzar