اختیارات کے بعد بھی آیت اللہ رئیسی سادہ زندگی بسرکرنے کے قائل تھے۔ سفیر ایرج الٰہی
نئی دہلی ،ایران کلچرہاؤس نئی دہلی میں صدر ایران آیت اللہ ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان ودیگر کی شہادت کے موقع پر ایک تعزیتی جلسہ اورقرآنی خوانی کا انعقاد کیا گیا جس کا آغاز قاری محمود الحسن اصالت پوری کی تلاوت سے ہوا۔جبکہ پروگرام کے درمیان قاری فضل الرحمن کے علاوہ قاری علی رضا نے بھی تلاوت کی۔اس موقع پر ہندوستان میں ایران کے سفیر ڈاکٹر ایرج الٰہی نے ابتدائی کلمات پیش کرتے ہوئے آیت اللہ رئیسی کی سیاسی وسماجی نیز روحانی شخصیت کے تعلق سے سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے قرآن کریم کی تلاوت کرکے اس کا ترجمہ کیا کہ جو خدا کی راہ میں اپنے گھر سے نکلتا ہے اور سفر میں اس کی موت ہوجاتی ہے تو اس کا اجر اللہ کی جانب سے طے ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہدائے خدمت کے تعلق سے تذکرہ کرنا میرے لئے بہت ہی سخت لمحہ ہے ۔ آیت اللہ رئیسی کے تعلق سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آیت اللہ رئیسی صدر مملکت ہونے کے باوجود عام اور سادہ فکر کے مالک تھے، عابد، صالح باعمل شخصیت تھے اور سفر میں بھی واجبات کا خیال رکھتے تھے ساتھ ہی مستجاب کے بھی پابند تھے اور یہ واقعی قابل تعریف عمل ہے جس کا ذکر کرنا لازمی ہے ۔ آپ سادہ لوح زندگی کی قائل تھے حالانکہ آپ کے پاس ایسے اختیارات تھے کہ آپ چاہتے تو بہت شاہانہ زندگی بسر کرسکتے تھے لیکن اس کے بعد بھی آپ نے اس زندگی کو تسلیم نہیں کیا ۔ بطور صدر مملکت جب آپ نے کہا کہ میں کچھ بنیادی کام کرنا چاہتاہوں ۔ انہوں نے دوران حکومت کچھ بنیادی اقدام کئے جن میں پہلا کام حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کو آسان کیا اور سرکاری افسران کو دیہات تک کے لوگوں کی معلومات رکھنے کی ہدایت دی ۔ اس سے حکومت اور عوام کے درمیان روابط میں مضبوطی آئی۔ دوسری خدمت یہ ہے کہ آپ نے حکومت کو بہتر بنانے کے لئے بہت سے بنیادی کام کئے ۔ غیر قانونی طریقہ سے ملک کی جو چیزیں باہر جاتی تھیں ان پر پابندی لگائی۔ آیت اللہ رئیسی نے اقتصادی معاملات کو بہتر بنانے میں اہم رول اداکیا۔ پانچ ہزار سے زیادہ بند پڑے کارخانوں کو کھلوا کر پروڈکشن میں اضافہ کے ساتھ بے روزگاری کو کم کرنے کی راہ میں کام کیا اور یہ سب تب ہورہا تھا کہ جب دنیا کی جانب سے ایران پر پابندیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ سعودی اور ایران کے درمیان ایک اہم قرار داد ان کی محنت کے سبب ممکن ہوپائی۔ مزاحمتی تحریک کو بھی جاری رکھا گیا۔ صیہونی کارروائی کا بھاری جواب دیا انہیں کی کوشش کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں ان کے سچے خادم اور محب وطن کی تعزیت پیش کرتے ہیں۔وہ ہندوستان سے ایک خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور مشرق وسطی کے ممالک کے درمیان روابط قائم کرنے میں وہ خاص دلچسپی رکھتے تھے اور ہم لوگ ان کے ہندوستانی دورے کے تیاریوں میں تھے جس میں وہ خود چاہتے تھے کہ سفر ایسا ہو کہ ہندوایران رابطوں میں ایک نیاباب قائم ہوسکے ۔ چا بہار پربھی پچھلے ہی دنوں ایک قرار داد پر دستخط کئے گئے تھے اندو ایران ریلیشن نے ایک بڑا حامی کھودیا لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ ابھی بھی آیت اللہ خامنہ ای جیسی حامی اندو ایران ریلیشن ابھی ہمارے سروں پر موجود ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے دیگر شہداء میں وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان کے تعلق سے بہت سی اہم باتیں بیان کی جس میں ان کی عاجزی اور انکساری کا خصوصی طورپر ذکر کیا ۔ اس موقع پر فتح پوری کی شاہی مسجد کے امام وخطیب مولانا ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جس طرح ان کے حالات پتا چلے اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ واقعی ایک ملک ملن سار شخص تھے اور ہر مشکل کام کو آرام سے پورا کرتے تھے۔ فلسطین کے غزہ کے تعلق سے قابل تعریف ہے ایران کی پالیسی جبکہ تمام مسلم ممالک نے نہ صرف مایوس ہی کیا بلکہ اسرائیل کی مدد کی اور اگر یمن نے جو رکاوٹ پیدا بھی کی تو اس میں بھی عربوں نے یمن کے خلاف عمل کیا۔ پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ابراہیم رئیسی کی شہادت ایک الگ ہی اہمیت کی حامل ہے ۔ ان کی موت سے نہ صرف ایران کا نقصان ہوا ہے بلکہ رہبر معظم کو بھی بڑا نقصان ہوا ہے کیونکہ وہ ان کے بہت ہی زیادہ پیارے تھے اور مجھے خود بھی ان سے اور وزیر خارجہ مرحوم سے ملنے کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ ان کے علاوہ پروفیسر عزیز الدین حسین ہمدانی ، مولانا شیخ ممتاز علی، مولانا سید محسن تقوی، ڈاکٹر عزیز مہدی،ڈاکٹر تھومس ،اور ڈاکٹر تسلیم رحمانی وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اظہار تعزیت کیا ۔ اس تعزیتی جلسہ کے اختتام پر کلچرل کاؤنسلر ڈاکٹر فرید الدین فرید عصر نے تمام شرکاء شکریہ اداکیا۔
شرکاء جلسہ میں مولانا محمد احمدجماعت اسلامی ہند، مولانا قمر حسنین ،مفتی افروز عالم قاسمی، مفتی اطہر شمسی، مولانا مفتی ذکوان ندوی، مولانا جاوید قاسمی ،مولانا فاروق مجتبیٰ ، جماعت اسلامی ،پروفیسر عراق رضا زیدی، مولانا ظفر الحسن ، مولانا سید تقی حیدر نقوی، ڈاکٹر سید محمد اقبال، ماسٹر زاہد حسین، ڈاکٹر افروز الحق ،محمد فرقان ٹرینر حج کمیٹی غازی آباد ،مولانا محمد احرار جوہر قاسمی، مولانا عارف حسین اعظمی ، مولانا محمد رضا ، ڈاکٹر سید احمدخاں، انجمن دستہ عباسیہ کے صدر الحاج سید آصف علی زیدی، عرفان آل محمد کے چیرمین سید جاوید عباس زیدی مرزا رجب علی ، مرزا فرحت علی کے علاوہ دہلی وبیرون دہلی سے آئے ہندومسلم عیسائی و دیگر متعدد سماجی اور مذہبی تنظیموں نے شرکت کرکے اس مشکل وقت میں ایرانی قوم سے یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کیا۔