Siyasi Manzar
مضامین

مین کیمف :پرایک طائرانہ نظر ”Mein Kampf”

زین ہاشمی ندوی
8468983493
مین کیمف ”Mein Kampf” جس کا جرمن میں مطلب ہے ”میری جدوجہد” یہ ایڈولف ہٹلر کی خودنوشت سوانح عمری ہے ہٹلر نے یہ کتاب 1920 کی دہائی کے اوائل میں جیل میں لکھی تھی۔ آسان الفاظ میں کہاں جائے تو، کتاب میں ہٹلر کی زندگی، اس کی قوم پرستی اور یہودیوں سے مخالفت، اور نازی جرمنی کے تصورات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔
جس میں ہٹلر جمہوریت، اشتراکیت اور یہودیت سے نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ وہ آریائی بالادستی کو فروغ دیتا ہے، اور اپنے جارحانہ اہداف کا تعین بھی کرتا ہے۔ بعض ناقدین کی رائے کے مطابق اس کتاب نے نازی نظریات کے عروج اور دوسری جنگ عظیم میں ہولوکاسٹ کے واقعات میں اہم کردار ادا کیا۔
کتاب کے چند اہم نکات:
قوم پرستی: ہٹلر ایک انتہائی قوم پرست تھا۔ وہ جرمن عوام کی بالادستی پر یقین رکھتا تھا، جنہیں وہ ”آریائی نسل” کے نام سے پکارتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ دوسری نسلوں سے برتر ہیں۔
توسیع پسندی: ہٹلر نے اس کتاب میں جرمن سرزمین کی توسیع کے لیے اپنے منصوبوں کا خاکہ پیش کیا۔ اس کا مقصد تھا کہ ان تمام زمینوں پر دوبارہ قبضہ کیا جائے جو زمینیں پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی سے غیر منصفانہ طور پر لے لی گئی تھیں۔
آمریت: اس نے ایک مطلق العنان حکومت کی وکالت کی جہاں اسے بطور رہنما، مکمل طاقت حاصل ہو۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک مضبوط، مرکزی ریاست کی ضرورت پر یقین رکھتا تھا، وہ اپنے بلند بانگ دعوے سے بھی ثابت کرنا چاہتا تھا کہ ایک وہی ہے جس کے پاس تمام مسائل کا حل موجود ہے
جمہوریت کا رد: ہٹلر نے جمہوریت کو کمزور اور غیر موثر قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس نے آمریت کو حکومت کی زیادہ موثر شکل کے طور پر پسند کرتا تھا، بالآخر وہ اس راہ پر چلا۔
راقم آثم کے مطابق علامہ اقبال ان اشعار کے حوالے سے ہٹلر کے اس نظریے سے تائید بھی کرتے ہیں ۔
اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کِیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے!
صحافت کا رد:
ہٹلر صحافت کو پروپیگنڈا کی مشین کہا کرتا تھا اس کی رائے تھی صحافت کا استعمال صرف چھوٹ کو فروغ دینے کے لئے کیا جاتا ہے، حکومت میں آنے بعد اس نے صحافت کا استعمال اسی انداز میں کیا، اور اتنے بڑے پیمانے پر چھوٹ بولے کہ لوگوں کو وہ جھوٹ بھی سچ ہی لگنے لگے۔
یہود دشمنی (Anti-Semitism):
یہودیوں کے بارے میں ایڈولف ہٹلر کی رائے:
جیسا کہ اس کی کتاب ”مین کیمپف” اور اس کے پورے سیاسی کیرئیر میں ظاہر کی گئی ہے، انتہائی منفی اور یہودی مخالف تھی۔ وہ یہودیوں کے بارے میں بہت ہی متعصبانہ عقائد رکھتا تھا، ہٹلر نے نہ صرف جرمنی بلکہ دنیا بھر کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کے لیے یہودیوں کو ہی زمہدار ٹھہرایا، اس نے انہیں ملک کے تمام مسائل کے لیے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا۔ اس کا خیال تھا کہ ان کو دیگر لوگوں سے الگ تھلگ رکھا جائے نیز دوسرے نمبر کا شہری بنایا جائے۔
ہٹلر یہودیوں سے کن وجوہات کی بنا پر نفرت کرتا تھا؟
سازشی نظریات: ہٹلر نے یہودیوں کے بارے میں سازشی نظریات کو فروغ دیا، اس کا کہنا تھا کہ کہ وہ دنیا کو کنٹرول کرنے اور غیر یہودی معاشروں کو کمزور کرنے کی خفیہ سازشیں کرتے ہیں اور دنیا پر حکومت کرنا ان کا مقصد ہے، یہودیت کوئی مذہب نہیں بلکہ بدمعاشوں کی ایک ٹولی ہے، اس کا کہنا تھا کہ وہ جہاں جاتے ہیں تجارت کے ذریعے اور اپنے سودی نظام کے ذریعے، معاشرے میں بد امنی پھیلاتے ہیں اور جسم فروشی کو فروغ بھی دیتے ہیں۔
نسلی کمتری: ہٹلر نام نہاد آریائی نسل کی نسلی برتری پر یقین رکھتا تھا (جسے وہ جرمن لوگ سمجھتا تھا) اور یہودیوں کو نسلی طور پر کمتر سمجھتا تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ ان پر ہر طرح کا ظلم و ستم جائز ہے۔
غیر انسانی: اس نے یہودیوں کو جانور کے طور پر متعارف کریا، انہیں غیر انسانی کے طور پر پیش کیا اور ان باتوں کی وضاحت کے لئے اس نے نہایت توہین آمیز زبان کا استعمال کیا۔
ظلم و ستم کا مطالبہ: ہٹلر نے جرمن معاشرے سے یہودیوں کے نکالنے کی وکالت کی، جو نیورمبرگ قوانین اور دیگر امتیازی پالیسیوں کا باعث بنے۔ یہ پالیسیاں بالآخر ہولوکاسٹ کا سبب بنی، جس وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے قول کے مطابق تقریبا 60 لاکھ یہودیوں کی منظم نسل کشی عمل میں آئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہودیوں کے بارے میں ہٹلر کے خیالات نہ صرف نفرت انگیز تھے، بلکہ ہولوکاسٹ کے دوران لاکھوں یہودیوں کے ظلم و ستم اور اجتماعی قتل کی وجہ بھی۔
ہٹلر کے نظریات کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جاتی ہے کیونکہ یہ اخلاقی طور پر قابل مذمت اور ناقابلِ قبول ہیں
جرمنی میں نازی پارٹی کے برسراقتدار آنے پر ”مین کیمپف” نے اس کے اقدامات اور پالیسیوں کے بلیو پرنٹ کے طور پر کام کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کو بڑے پیمانے پر اس کے جارحانہ اور نسل پرستانہ نظریات کی وجہ سے ایک نفرت آمیز کتاب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کتاب نے نازی نظریے اور ان واقعات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا جو دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کا باعث بنے، جہاں لاکھوں یہودیوں کو منظم طریقے سے قتل کیا گیا۔۔
ہولوکاسٹ حقیقت یا فسانہ؟
بعض محققین کی رائے ہے کہ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کو بہت حد افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔ ہزاروں نظمیں، ڈرامے اور ناول، سوانح خودنوشت سوانح یاداشتیں وغیرہ لکھوائے گئے پھر اس حادثہ کو ’’ہولو کاسٹ ” کا نام دیا گیا۔ ہولو کاسٹ کے مارے گئے یہودیوں کو اس قدر ” مقدس درجہ ” عطا کیا گیا کہ ان کے خلاف لب کشائی کرنے والا نفرت پھیلانے والا سمجھا گیا اور مجرم شمار گیا ہولو کاسٹ کی نہ صرف انکار کرنا جرم ٹھہرا، بلکہ یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ ” مقتولین ” کی ساٹھ لاکھ تعداد میں چند ایک کی کمی کرنا بھی قابل سزا جرم بنادیا گیا۔ متعدد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولو کاسٹ میں یہودیوں کی جانب سے بیان کر وہ تعداد کو صرف مبالغہ کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کر دیے گئے۔ ہولو کاسٹ کے خلاف زبان کھولنے والے دانشوروں کے صرف ملکی ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر وارنٹ جاری کیے گئے۔ حالانکہ تحقیق کا دروازہ کبھی کسی ملک میں بند نہیں ہوتا، لیکن ہولوکاسٹ پر تحقیق کرنا اور آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پائے ہیں۔ بہت سے ممالک میں ہولوکاسٹ پر زبان بندی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی گئی، صرف یورپ کے تقریباًتین درجن ممالک میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہار رائے جرم ہے، ہولوکاسٹ کے دور میں یہودیوں پر جو حالات واقعات پیٹ آئے پڑھ کر ہر انسان کا دل غمگیں جائے گا لیکن یہ یہودی قوم جنھوں نے یہ مصائب و آلام برداشت کیے اور اب فلسطینیوں پر مظالم ڈھارہے ہیں۔

(یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

Related posts

ماحول دوست سبز زراعت کے لیے اختراعی نینو کیمیاوی کھادیں Mansukh Mandaviya

Siyasi Manzar

کیا تلنگانہ میں بی آر ایس اور کانگریس میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا؟

Siyasi Manzar

"خود آگہی سے اتحاد تک”

Siyasi Manzar

Leave a Comment