Siyasi Manzar
مضامین

اتراکھنڈ کے دیہی نوجوانوں کو نشے کی لت سے بچانا ہوگا

شروتی جوشی
بیسانی، اتراکھنڈ
منشیات اور نشہ آور اشیاء کی تجارت پوری دنیا میں ایک بڑی غیر اخلاقی اور غیر قانونی تجارت ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال اس کی کھربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ ملک یا دنیا کا کوئی علاقہ یا گلی ایسا نہیں جہاں اس نے لوگوں کو اپنی گرفت میں نہ لیا ہو۔ بوڑھوں سے لے کر چھوٹے بچوں تک ہر کوئی کسی نہ کسی طرح نشے کی لت کا شکار نظر آتا ہے۔ نوجوان نسل اس برائی کی دلدل میں سب سے زیادہ پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ منشیات کا یہ کاروبار اب ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں بھی اپنے بازو پھیلا چکا ہے اور نئی نسل کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ شہری علاقوں میں جہاں اسے مہنگے فروخت کی جاتی ہے وہیں اس طرح کی نشہ آور اشیاء دیہی سطح تک بھی پہنچ چکی ہیں۔ یہ نہ صرف نوجوانوں کو برباد کر رہا ہے بلکہ گاؤں کے سماجی تانے بانے کو بھی پارہ پارہ کر رہا ہے۔ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے نوجوان بھی اس برائی سے بچ نہیں پائے ہیں۔ ریاست میں ہر سال کروڑوں روپے کی منشیات پکڑی جاتی ہیں، اس کے باوجود یہ کاروبار عروج پر ہے۔ منشیات کی یہ لت شہروں سے ریاست کے دور دراز کے بیسانی گاؤں تک پھیل چکی ہے۔ تقریباً 800 کی آبادی والا یہ گاؤں ریاست کے باگیشور ضلع کے کپکوٹ بلاک کے تحت آتا ہے۔ گاؤں کی شرح خواندگی بھی ریاست کی اوسط سے بہت کم صرف 25 سے 30 فیصد۔ تعلیم سے یہ دوری نوجوانوں کو نشے کی طرف دھکیل رہی ہے۔
 گاؤں کے نوجوان ہر قسم کے غیر قانونی منشیات میں ملوث ہو رہے ہیں جو کہ کافی تشویشناک ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو چرس، گانجہ، سمیک اور اس طرح کی دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر 15 سے 21 سال کی عمر کے نوجوان اس برائی میں پھنس چکے ہیں۔ ان نوجوانوں کو دیکھ کر اب 10-12 سال کے چھوٹے بچے بھی اس کا استعمال کرنے لگے ہیں جو کسی بھی معاشرے کے مستقبل کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔ یہ نہ صرف ایک معاشرتی برائی ہے جو مستقبل کو تباہ کر رہی ہے بلکہ معاشرے میں ہر قسم کی برائیوں کا سبب بن رہی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں میں منشیات کا یہ لت اتنا بڑھ گیا ہے کہ والدین چاہ کر بھی اپنے بچوں کو اس سے بچا نہیں پا رہے۔تاہم گاؤں کے کچھ نوجوان اب بھی ایسے ہیں جو اس برائی سے دور ہیں۔ اس حوالے سے 18 سالہ نوجوان کوشل کے مطابق بیسانی گاؤں کے کئی نوجوان طرح طرح کی نشہ آور اشیاء کا استعمال کر نہ صرف اپنا مستقبل بلکہ صحت بھی خراب کر رہے ہیں۔ انتظامیہ کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کوشل کا کہنا ہے کہ دسویں اور گیارہویں جماعت میں پڑھنے والے بہت سے بچے ایسے ہیں جو اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلتے تو ہیں لیکن اسکول جانے کے بجائے نشے کے عادی افراد کے پاس بیٹھ کر نشہ کرتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرانہیں یہ خریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں؟وہ ایک اہم اشارہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بچے نشہ کی خاطر گھر میں ہی چوریاں کر رہے ہیں اور گھر والوں کو اس کی خبر ہی نہ ہو؟ اگر ایسا ہے تو ہمارا گاؤں ایک بڑی خرابی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کی طرف سبھی کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ وقت رہتے اگر اس پر دھیان نہیں دیا گیا تو اس کے اچھے نتائج نہیں ہونگے۔
اس سلسلے میں گاؤں کے ایک 60 سالہ بزرگ موہن چندر کا کہنا ہے کہ گاؤں کے لوگ پہلے بھی شراب نوشی کرتے تھے، لیکن اس کا استعمال صرف تہواروں اور تقریبات میں ہوتا تھا۔ دوسرے دنوں میں گاؤں کے لوگ اس برائی سے دور رہتے تھے۔ لیکن آج یہ نوجوانوں کی رگوں میں اس قدر داخل ہو چکا ہے کہ اب وہ اسے تہواروں میں استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ روزانہ کھانے کے طور پر استعمال کرنے جیسا کرنے لگے ہیں۔ یہ پرانے دنوں کی طرح دیسی شراب نہیں بلکہ زندگی برباد کرنے والی نشہ ہے۔ چرس اور گانجہ جیسی نشہ آور ادویات نوجوانوں کو بے وقت موت کی طرف دھکیل رہی ہیں۔موہن چندر کا کہنا ہے کہ صرف لڑکے ہی نہیں بلکہ اسکول جانے کی عمر کی کچھ لڑکیاں بھی اس جال میں پھنس رہی ہیں۔ پہلے ان سے صرف شوق کے طور پر استعمال کرایا جاتا ہے، پھر انہیں اس کا عادی بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ غلط سمت میں جا رہا ہے۔ ساتھ ہی گاؤں کا سماجی ماحول بھی بگڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بچے منشیات خریدنے کے لیے گھر سے پیسے چرانے جیسے غلط کام کرنے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو اس کا عادی بنا کر ان کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ موہن چندر کا کہنا ہے کہ دور دراز ہونے کی وجہ سے انتظامیہ بھی اس گاؤں کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے جس کی وجہ سے اسے پھیلانے والے اور نوجوانوں کو اس میں پھنسانے والے غلط عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بچے سکول چھوڑ کر نشہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے اور ان کا ذہنی توازن بھی بگڑ رہا ہے۔ نوجوان نوکری یا روزگار حاصل کرنے کے بجائے منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اپنے بچوں کو اس سے بچانے کے لیے بہت سے والدین انھیں اسکول چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں اور انھیں گاؤں سے دور شہر بھیج رہے ہیں۔جہاں وہ ہوٹلوں میں کام کرنے پر مجبورہیں اس کے پیچھے ان کی یہ سوچ ہے کہ اس سے ان کے بچے نشے کی لت سے دور رہنگے۔
اس حوالے سے سماجی کارکن کلا کورنگا کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ کے دیہی علاقوں میں بیڑی اورسگریٹ پینا عام بات ہے۔اس کا یہاں کے ہر گھر میں استعمال ہوتا ہے۔گاؤں میں کوئی بھی ایسے بزرگ نہیں ہیں جو اس کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ بچے اسے اپنے اردگرد اور اپنے گھر کے بزرگوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں جس سے بعد میں وہ دوسرے نشے کا عادی ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ باگیشور ضلع کے تحت کئی گاؤں میں بھنگ کی کاشت کی جاتی ہے۔ جو نوجوانوں کے لیے دستیاب ہونے والا سب سے آسان ذریعہ ہے۔ کلا کے مطابق نوجوانوں کو اس سے بچانے کے لیے ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف انتظامیہ کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے تو دوسری طرف نوجوانوں کو اس برائی کے خلاف بیدار کرنا سب سے بڑی سماجی ذمہ داری ہے تاکہ وہ اس سے دور رہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر اتراکھنڈ کے نوجوانوں کو منشیات سے بچانا ہے تو خاندان کو سب سے بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔وہیں اسکول کی سطح پر بھی کاؤنسلنگ ضروری ہے تاکہ بچوں کو اس غلط عادت کی طرف مڑنے سے پہلے ہی انہیں اس سے روکا جاسکے۔ وقت رہتے اس دیو بھومی کو نشہ جیسی برائی سے پوویتر(پاک)کرنا ضروری ہے۔(چرخہ فیچرس)

Related posts

’چل اڑ جا رے پنچھی……‘

Siyasi Manzar

پریزائڈنگ افسر کی ڈائری

Siyasi Manzar

چھوٹے بچوں میں موبائل فون کا زیادہ استعمال تباہی کا باعث

Siyasi Manzar

Leave a Comment