Siyasi Manzar
مضامین

صرف عورت ہی ذمہ دار کیوں؟

پوجا گوسوامی
رولیانہ، اتراکھنڈ
معاشرے میں خواتین کو ہمیشہ بندھنوں میں باندھ کررکھا گیا ہے جس سے کہ وہ کسی قسم کے تشدد ہونے پر بھی انصاف کے لیے لڑنے سے ڈرتی ہے کیونکہ اگر وہ کچھ کہتی ہے تو معاشرہ خود اسے غلط کہہ کر خاموش کر دیتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی لڑکی پر کسی قسم کا تشدد ہوتا ہے تو وہ اس کے خلاف آواز تک نہیں اٹھا پاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے کسی پر ظاہر کرنے سے بھی ڈرتی ہے۔ شہر ہو یا گاؤں، ہر جگہ خواتین خود کو صد فیصد محفوظ نہیں سمجھتی ہے۔ جہاں شہروں میں خواتین کے خلاف تشدد کی مختلف شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں، وہیں دیہی علاقوں میں خواتین کے خلاف زیادہ تر تشدد سماجی عقائد کے نام پر ہوتا ہے۔ کبھی اسے جسمانی اور کبھی ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔ لیکن نوعمر لڑکیوں کے خلاف تشدد سب سے زیادہ تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ جنہیں ا سکول یا کالج آتے ہوئے لڑکوں اور مردوں کے گندے تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس قسم کا عمل جہاں لڑکیوں کو ذہنی اذیت دیتا ہے وہیں دوسری طرف معاشرے کے اخلاقی گراوٹ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ شہروں میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بہت سے مواقع ملتے ہیں لیکن دیہی علاقوں میں نوعمر لڑکیوں کے لیے یہ اب بھی نسبتاً مشکل ہے۔ ایسا ہی ایک دیہی علاقہ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع کے تحت رولیانہ گاؤں ہے۔ جہاں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے کئی طرح کی رکاوٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان میں سب سے بڑی رکاوٹ لڑکوں اور مردوں کی طرف سے سخت اور گندے تبصرے کر کے انہیں ذہنی طور پر ہراساں کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا تشدد ہے جو نوعمر لڑکیوں کو ذہنی طور پر توڑ دیتا ہے۔
 اس سلسلے میں گاؤں کی ایک نوعمر لڑکی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دسویں پاس کرنے کے بعد لڑکیاں مزید تعلیم کے لیے اپنا داخلہ گورنمنٹ انٹر کالج میگڑی اسٹیٹ میں کراتی ہیں جو کہ راولیانہ سے تقریباً 7 کلومیٹر دور ہے۔ یہ اس گاؤں سے قریب ترین انٹر کالج ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ انٹر کالج ریاست جوڑا اور پنگلو جیسے دیگر دیہات سے بھی قریب ہے جس کی وجہ سے ان تمام دیہاتوں کی لڑکیاں یہاں پڑھنے آتی ہیں۔وہ بتاتی ہے کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والی 90 فیصد لڑکیاں معاشی طور پر پسماندہ خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ روزانہ 7 کلومیٹر پیدل آنا جانا کرتی ہیں۔ یہ تعلیم کے تئیں ان کی لگن اور محنت کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن لڑکیوں کے تئیں ذہنی طور پر پسماندہ معاشرے کی سوچ اور تبصرے ان کے حوصلے کو توڑ دیتے ہیں۔ ایک اور نوعمر لڑکی کا کہنا ہے کہ ہم لڑکیاں اپنے اوپر ہونے والے اس تشدد کا اظہار کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ نہ تو ہم اپنے استاد کو اس بارے میں بتا پاتے ہیں اور نہ ہی گھر میں اس کی شکایت کر سکتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ اس سے ہمارے خاندان کی بے عزتی ہو گی اور ممکن ہے کہ ہماری پڑھائی بند ہو جائے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر کچھ لڑکیاں اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کی تھیں تو ان کا ساتھ دینے کے بجائے ان کے اپنے گھر والوں نے الزام ان لڑکیوں پر ڈال دیا۔ ایسے واقعے کے بعد کئی خاندانوں نے لڑکی کو انٹر کالج جانے سے روک دیا۔ وہ سوال کرتی ہے کہ اس میں لڑکی کا کیا قصور ہے؟ گھر والے اس کا ساتھ دینے کے بجائے اسے تعلیم سے کیوں محروم کر دیتے ہیں؟ایک اور لڑکی بتاتی ہے کہ اس کا خواب تھا کہ وہ پڑھے، آگے بڑھے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ 10ویں کے بعد اس نے گورنمنٹ انٹر کالج میگڑی اسٹیٹ میں بڑے جوش و خروش سے داخلہ لیا۔ لیکن جب وہ کالج آنے لگی تو لڑکے اور لوگ ہر روز فحش تبصرے کرنے لگے۔ جب اس نے کالج میں اس کی شکایت کی تو اس کا ساتھ دینے کی بجائے اس پر ہی الزام لگایا جانے لگا۔ آتے جاتے احتیاط برتنے کی تلقین دی جانے لگی۔ جب اس نے گھر میں اس کی شکایت کی تو اسے امید تھی کہ گھر والے اس کا ساتھ دیں گے لیکن یہاں بھی اسے اس سب کے لیے قصوروار سمجھا گیا اور گھر والوں کی عزت کی خاطر خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی۔ لڑکی بتاتی ہے کہ وہ ان تمام واقعات سے مکمل طور پر ٹوٹ گئی اور ذہنی طور پر پریشان ہونے لگی تھی۔ جس سے اس کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے۔ وہ کہتی ہے کہ اگر اس کے اساتذہ اور اہل خانہ نے اس کا ساتھ دیا ہوتا اور تبصرے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہوتی تو آج اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔ وہ سوال کرتی ہے کہ صرف لڑکیاں ہی کیوں خاموش رہے؟ اسے خاندان اور معاشرے کی عزت کا بوجھ کیوں اٹھانا پڑتا ہے؟ اگر کوئی لڑکا نازیبا تبصرہ کرتا ہے تو اس سے اس کی اور اس کے خاندان کی اخلاقی گراوٹ کا پتا چلتا ہے تو اس میں لڑکی کا کیا قصور؟ اس سے اس کے خاندان کی عزت کیسے ختم ہوگی؟
ایک اور نوعمر 19 سالہ روپا کہتی ہیں کہ کالج ہی نہیں سسرال میں بھی لڑکیوں کو گھر کی عزت بچانے کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔ اسے اپنے سسرال میں خاموشی سے جسمانی اور ذہنی تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ خاندان میں اس کے خلاف شکایت کرتی ہے، تو اس کے والدین اسے مشورہ دیتے ہیں کہ وہ خاموشی سے تشدد کو برداشت کر لے۔ اس طرح لڑکیاں ہر جگہ خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔ اس حوالے سے سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ دیہات میں خواتین پر تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسے ہر سطح پر ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ جو معاشرے میں شعور کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت کالج جاتے ہوئے لڑکیوں کے خلاف جس طرح طعنے اور تبصرے کیے جاتے ہیں کسی بھی مہذب معاشرے میں اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ لڑکیوں کو خود اس کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔ انہیں آگے آنا ہوگا اور اس قسم کے تشدد کے خلاف لکھنا اور بولنا ہوگا۔نیلم کا کہنا ہے کہ آج انتظامیہ کی سطح پر اس قسم کے تشدد کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے، تاکہ معاشرے میں ایک مضبوط پیغام جائے اور لڑکیاں بغیر کسی خوف کے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ لیکن اس میں سب سے اہم کردار خاندان کا ہے۔ جن کے تعاون کے بغیر نوعمر لڑکیوں کے لیے خوف سے پاک ماحول پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ گھر والے بغیر کسی خوف کے لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کریں اور کمنٹس کرنے یا چھیڑنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کو ہر چیز کا ذمہ دار اور جوابدہ ٹھہرانا بند کیا جائے۔ (چرخہ فیچرس)

Related posts

وہ بزرگ رکشے والا

Siyasi Manzar

جہیز کوئی رواج نہیں،ایک بدنما داغ ہے

Siyasi Manzar

ماہ رمضان اور ہماری تقوی شعاری

Siyasi Manzar

Leave a Comment