Siyasi Manzar
مضامین

شیطان کا خط قوم مسلم کے نام !

(موجِ انقلاب)
آصف جمیل امجدی(گونڈوی) 
 اے قوم مسلم ! میرے خط کا مضمون دیکھ کر آپ کو پتہ ہو گیا ہوگا کہ یہ خط کس کا ہے۔ آپ قطعی پریشان نہ ہوں ہم آپ کو بہکانے پھسلانے کے لیے یہ خط نہیں لکھ رہے ہیں ۔ میں کون ہوں؟ کیا شان تھی میری، میرا مسکن کیا تھا؟ کیسا تھا؟ میں کیوں دھتکارا گیا یہ سب کچھ آپ کو پتہ ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ آخر اس مقدس مہینہ رمضان کریم میں میں کہاں ہوں، میری کیفیت کیا ہے، میرے گلے میں کیسا طوق پڑا ہوا ہے۔ بروز حشر میری کیا حالت ہوگی اس سے ساری قومِ مسلم  واقف ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! لیکن میں آپ لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے یہ خط لکھا ہوں کہ کبھی کبھی ہم بھی اچھا کام کر جاتے ہیں جیسے کہ یہی میرا نصیحت آمیز خط لے لیجئے ۔ رمضان شریف اللہ عزوجل کے نزدیک اس قدر با عظمت و متبرک ہے کہ خدا نے اس ماہ میں پورا قرآن ہی نازل فرمادیا۔ گویا اپنے بندوں کو معصیت سے بچانے کے لیے ان کو راہ نجات کا انسائیکلو پیڈیا عطا فرمادیا ہے۔ اور اس ماہ میں اپنی رحمت و برکت، مغفرت و بخشش کا بیش بہا خزانہ ہی کھول دیا۔ لوگ خود گناہ کر کے اس نحوست کا موردِ الزام جسے ٹھہراتے تھے رب تعالیٰ نے اسے بھی از سرنو اس ماہ میں ختم فرمادیا یعنی مجھے (شیاطین کو) مع اہل و عیال قید و بند میں ڈال دیا تا کہ تم صراطِ مستقیم سے بھٹک نہ سکو تم سے گناہ سرزد نہ ہو، تم خالص اپنے رب کی رضا جوئی میں مست و مگن رہو۔ تصور گناہ بھی تمہارے قریب پھٹکنے نہ پاۓ۔
 اے قوم مسلم! تم معصیت کے بعد مجھے یا پھر اپنے نفس کی شامت گردانتے تھے۔ تمہارے رب نے تم پر اتنا فضل فرمایا کہ روزے کو فرض قرار دے دیا۔ تا کہ تم متقی اور پر ہیز گار بن جاؤ۔ روزہ رکھنے سے آدمی کو سب سے اہم فائدہ ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ نفس امارہ اس کا اس قدر پر مردہ ہو جاتا ہے کہ اس کا ایک بھی ہتھکنڈا اپنے مالک پر کارگر نہیں ہوتا۔ گو یا رب تعالیٰ اپنے مومن بندے سے تصور گناہ کا زاویہ اور اس کے رموز کا بالکلیہ خاتمہ فرما دیتا ہے۔ اس قید و بند میں رہ کر ہم سبھی شیاطین اتنا غمزدہ نہیں ہیں جتنا کہ میرے بغیر تمہارا شیطانی کام مجھے غمزدہ کر رکھا ہے۔ اس ماہ کی عظمت و برکت خود تمہاری بداعمالیوں کی بدولت روٹھی ہے۔ تمہاری بداعمالیوں پر کبھی کبھی ہم شیاطین آپس میں خوب ٹھٹھا بازی کرتے ہیں اور کبھی کبھی افسوس کے مارے ٹینشن میں ایک دوسرے کو نوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ آخر قوم مسلم کو ہو کیا گیا ہے، ہم سے بڑے شیطان تو یہ خود بنے بیٹھے ہیں ایک ماہ کیا اگر ایک سال ہم لوگ یوں ہی نظر بند رہیں تو ہم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ باوجود اس کے بھی تم اپنی نازیبا حرکتوں اور بداعمالیوں نیز گھناؤنے کرتوتوں سے جہنم کا ایندھن بن جاؤ گے۔ دیکھتا ہوں کہ تندرست و توانا صحت مند ہونے کے باوجود بھی مسلمان روزہ نہیں رکھتا، نماز کی پابندی نہیں کرتا۔
اے قوم مسلم ! میں اگر چہ شیطان ہوں لیکن آج آپ لوگوں کے نام اس خط کو لکھنے کی غایت یہ ہے کہ یہ مہینہ جس قدر رحمت و برکت سے لبریز ہے اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیت میں ڈوبے رہنے والے مسلمانوں کے لیے قہر و غضب بھی ہے۔
اے لوگو! یادرکھنا اس ماہ کا حساب و کتاب بڑا سخت ہوگا، اس وقت نہ مجھے مورد الزام ٹھہرا پاؤ گے اور نہ ہی اپنے نفس کو۔ کیوں کہ اس کا شافی حل تمہارے رب نے تمہیں پہلے ہی عطا فرما دیا یعنی مجھے(شیطان) قید کر کے اور روزے سے نفس کو مقید کر کے۔ تو اس وقت جب تم سے تمہارا رب رمضان المبارک کے متعلق سوال کرے گا کبھی اپنی بیش قیمت رحمتوں کو یاد دلا کر تو کبھی مغفرت و بخشش کی مقدس ساعتوں کو یاد دلاکر اور جہنم سے بالکلیہ آزاد ہو جانے کے لیے ہم نے تمہیں پورے کے پورے دس دن عطا فرما ( یہاں تک کہ پورا رمضان اس قدر عظمتوں والا ہے کہ بنی آدم اگر فرمان خداوندی کا پختہ عامل ہو جائے تو وہ خالص اسی ماہ میں اپنے گناہوں کو بخشوا سکتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر سکتا ہے ) تو اس وقت رب کی بارگاہ میں تم سے کوئی جواب نہ بن پڑے گا۔ میں بھی تمہاری طرح اپنے رب کا فرمان نہ مانا تھا ہمیشہ اپنے نفس کے بہکاوے میں مست و مگن رہتا تھا جیسا کہ اس وقت آپ لوگ ہیں۔ میرے رب نے میرے ساتھ کیا معاملہ کیا وہ تم سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اتنا سب کچھ جانتے ہو  اور دیکھتے ہو کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کے ساتھ کیسا غضب ناک معاملہ فرماتا ہے۔ پھر بھی تم لوگ اس پاکیزہ ماہ میں گناہوں میں ملوث ہو۔  میری بات   سمجھ میں آگئی ہو تو خدارا ابھی وقت ہے اپنے اعمال کو درست کرلو، گناہوں سے باز آجاؤ تا کہ تمہارا رب تم سے راضی ہو جائے۔ رب اتنارحیم وکریم ہے کہ مجھے قید میں ڈال کر تم پر مہربانی فرما رہا ہے۔ زورے کی فرضیت سے نفس امارہ کو مقید کر کے تم پر مہربانی فرما رہا۔ اب تو معصیت کو چھوڑ دو، روزہ رکھ کر نمازوں کی پابندی کر کے رمضان کا احترام کرلو۔ اس میں دنیا اور آخرت کی ساری سعادتیں اور بہاریں مضمر ہیں۔ رب راضی ہو گیا تو دو جہاں کا ذرہ ذرہ آپ سے راضی ہو جائے گا۔ اپنے رسول کے قول و فعل کی تو قیر کیا کرو، ان کی تعظیم سے سر منہ نہ پھیرنا، کیوں کہ بارگاہ خداوند تعالیٰ سے میرے دھتکارے جانے کا ایک سبب یہ بھی رہا کہ پیغمبر خدا (حضرت) آدم (علیہ السلام ) کی میں نے تعظیم نہ کی تھی۔

(نوٹ: مضمون میں ظاہر کئے گئے خیالات مضمون نگارکے ذاتی ہیں، ادارے کا اس سے اتفاق ضروری نہیں ہے)

Related posts

موبائل فون ہمارے لیے ہے یا ہم موبائل فون کیلئے؟

Siyasi Manzar

یوپی کے مدارس پر خطرے کی تلوار

Siyasi Manzar

مین کیمف :پرایک طائرانہ نظر ”Mein Kampf”

Siyasi Manzar

Leave a Comment