Siyasi Manzar
مضامین

بین مذاہب شادیاں معاشرہ کیلئے لمحہ فکر یہ

محمد ہاشم القاسمی
(خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال) 
میرج رجسٹریشن آفس میں بین مذہبی شادیوں کے رجسٹریشن کی اس تلخ حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں کافی تعداد میں مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کی ہیں، یقیناً مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرنا مسلم معاشرہ کیلئے لمحہ فکر یہ ہے. کچھ دنوں پہلے سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو کافی وائرل ہوا ہے۔ جس میں سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون بھرے مجمع میں مسلم لڑکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ہندو لڑکوں سے شادی کرنے کے درجنوں غیر معقول فوائد بتاتی ہیں۔ ایک اور وائرل پوسٹ میں باضابطہ طور پر اقلیت دشمن طاقتیں، سنگھ کا پروردہ ہندو نوجوانوں کو باضابطہ کیمپ لگا کر یہ ٹریننگ دے رہے ہیں کہ مسلم لڑکیوں کو اپنے جال میں کیسے پھنسایا جائے اور پھر انہیں ارتداد کا شکار بنا کر اس سے شادیاں کیسے رچائی جائیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سنگھ پریوار کی مختلف تنظیموں بشمول بجرنگ دل، وشوہندو پریشد وغیرہ کے نمائندے پابندی سے میرج رجسٹرار دفاتر کے چکر لگاتے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کوئی ہندو لڑکی مسلم لڑکے سے شادی تو نہیں کر رہی ہے۔ اس کے برعکس مسلم تنظیموں کے نمائندے میرج رجسٹرار کے دفتر اگر اتفاق سے پہنچ جاتے ہیں اور وہاں انہیں کسی مسلم لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرانے کی اطلاعات بھی ملتی ہیں تو وہ لڑکیوں کے والدین یا ان کے قریبی رشتہ داروں تک پہنچ کر اس کے نقصانات پر بات کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اس طرح کے واقعات کے پوسٹ سوشل میڈیا پر پھیلاکر خاموش ہوجاتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے. فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ فرماتے ہیں کہ "اس وقت جن مسائل نے ملت کے رہنماؤں کو تشویش میں ڈال رکھا ہے، ان میں سر فہرست بعض مسلمان لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ نکاح کا مسئلہ ہے، یہ رشتہ اگرچہ شرعی اعتبار سے معتبر نہیں ہے، لیکن قانون کی نظر میں اس کا اعتبار ہے، یوں تو اس طرح کے واقعات ہمیشہ سے پیش آتے رہے ہیں کہ مسلمان مردوں کا غیر مسلم عورتوں سے اور مسلمان عورتوں کا غیر مسلم مردوں سے نکاح، فلمی دنیا اور سیاست کی دنیا میں اس طرح کے واقعات زیادہ پیش آیا کرتے رہے ہیں، لیکن اب اس میں دو ایسی باتیں شامل ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے بجا طور پر زیادہ تشویش پائی جاتی ہے، ایک یہ کہ پہلے اس طرح کے واقعات اتفاقی طور پر پیش آیا کرتے تھے اور زیادہ تر شخصی پیار و محبت کا نتیجہ ہوتے تھے لیکن اب فرقہ پرست عناصر کی طرف سے منصوبہ بندی کے ساتھ اس کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کا اعلان واظہار بھی کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ رسوا کیا جائے.
 دوسرا سبب یہ ہے کہ بہت سے مسلمان رہنما بھی اس کے عواقب پر غور کئے بغیر بہت بڑھا چڑھا کر مبالغہ کے ساتھ ایسے واقعات کے اعداد و شمار اپنی تقریروں اور تحریروں میں نقل کر رہے ہیں، حالاں کہ اِس بڑی تعداد میں ایسے واقعات کا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں ہے”. یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اب تک جتنی مسلم لڑکیاں مرتد ہوکر غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کی ہیں ان میں کی اکثر و بیشتر لڑکیاں انتہائی اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور ملٹی نیشنلک کمپنیوں اور بڑے اداروں میں ملازمتیں کرنے والی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے ارتداد اور پھر غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرنے کیلئے ذمہ دار کون ہیں؟ کیا اس کیلئے ان کے اپنے والدین سرپرست اور رشتہ دار ذمہ دار ہیں یا علماء کرام یا پھر مسلم نوجوان ذمہ دار ہیں جو جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں یا اس کی امید رکھتے ہیں؟ ابھی حال ہی میں اتر پردیش کے شہر رائے بریلی سے تعلق رکھنے والی منتشا نامی مسلم لڑکی نے سناتن دھرم اپنا کر مانسی بن گئی۔ یہ مسلم لڑکی نہ صرف ہندو مذہب اپنا لی بلکہ اپنے ہندو بوائے فرینڈ سے مندر میں شادی بھی کرلی اور باضابطہ سناتن دھرم اپنا لیا۔ اس لڑکی کا کہنا ہے کہ اس کو سناتن دھرم سے تعلق رکھنے والے ہندو لڑکے سے محبت ہوگئی۔ لڑکے سے عشق کے دوران لڑکی کو سناتن دھرم سے بھی لگاؤ ہوگیا۔ اس نابلد لڑکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی سے اسلام کو پسند نہیں کرتی تھی۔ یہ کسی پر پوشیدہ نہیں بلکہ روزانہ سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بس اسٹاپس، شاپنگ مال، اور تفریحی مقامات پر برقعہ پوش مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ کھلے عام سیر و تفریح کر رہی ہیں، کیا ان برقعہ پوش لڑکیوں کے والدین کو پتہ نہیں کہ اُن کی لڑکیاں کالج کے نام پر یا اسپیشل کلاس کے نام پر کہاں جا رہی ہیں؟ اور کس کے ساتھ گاڑیوں پر گھوم رہی ہیں؟ کیا ماں باپ کا فرض نہیں بنتا کہ اپنی بچیوں پر سخت سے سخت نظر رکھیں؟ فریڈم کے نام پر کچھ ماں باپ اپنی بچیوں کو کھلی ڈھیل دے رہے ہیں۔ آج کے اس پرفتن دور میں تو دشمن چاہتا ہی کہ ان معصوم برقعہ پوش لڑکیوں کو پھانسا جائے اور ان کو اسلام سے دور کر دیا جائے۔ اس لئے وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں پر سخت نظر رکھیں۔ خاص کر لڑکیوں پر کڑی نظر رکھی جائیں ۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اس تباہی میں دوسروں کی سازش سے زیادہ اپنی کوتاہی کا کلیدی کردار ہے کیونکہ اگر ہم اپنی لڑکیوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرتے تو نہ ہی وہ خود سے غلط راستہ اختیار کرتیں اور نہ ہی دشمنوں کے لئے ہماری لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسانا آسان ہوتا۔ زیر بحث معاملے میں سکے کے دوسرے رخ کا جائزہ لینا اور صحیح نتیجے تک پہنچنا بھی ہمارے لئے از بس ضروری ہے، مسلم لڑکیوں کے ارتداد اور غیر مسلموں کے ساتھ شادیوں کیلئے سب سے پہلے ماں باپ ذمہ دار ہیں چونکہ اگر والدین اپنی لڑکیوں کی اسلامی انداز میں تربیت کرتے، والدین اپنی اولاد کی پہلی اور اہم درسگاہ ہوتی ہیں، انہیں علم دین سکھاتے، ایمان کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت دلوں میں بٹھاتے، شرم و حیا کا انہیں پیکر بناتے، بے شرمی بے حیائی کے بھیانک نتائج سے انہیں واقف کراتے اور سب سے بڑھ کر صحیح وقت پر ان کی شادیاں کرواتے تو شاید انہیں آج یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے، معاشرہ میں بدنامی نہیں اٹھانی پڑتی۔ جبکہ اس خطرناک رجحان کیلئے اصلاح معاشرہ کی مہم چلانے والے علماء کرام اور مذہبی تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شادی میں فضول خرچی سے باز رکھنے کی مہم کو تیز کرنے کی کوشش کریں چونکہ اب شادی میں فضول خرچی اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ اب عام لوگوں کی شادیاں پرانے نوابوں اور راجاؤں کی شادیوں میں ہونے والے تزک و احتشام کو بھی مات دے رہی ہیں، دولت مند طبقوں نے اس کو اپنی مالی فراوانی کے مظاہرہ کا ذریعہ بنا لیا ہے، درمیانی طبقہ اس کی وجہ سے بعض اوقات در و دیوار تک بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کمزور طبقہ اگر دین سے بے بہرہ ہو تو چاہتا ہے کہ کسی طرح اپنے جگر گوشہ کے بوجھ سے نجات پایا جائے، خواہ وہ کسی مسلمان کے گھر میں جائے یا غیر مسلم کے! اس لئے جب تک معاشرہ کے دولت مند لوگ سادگی کو اختیار نہ کریں گے، اس صورت حال میں کسی تبدیلی کا امکان بظاہر نظر نہیں آتا ، اس کے لئے ضروری ہے کہ جیسے قدرتی آفات و حادثات کے مواقع پر امداد اور بچاؤ کی مہم شروع کی جاتی ہے، اسی طرح نکاح میں سادگی پیدا کرنے کے لیے علماء کرام، سماجی وسیاسی رہنما، صحافی اور اہل علم و دانش، مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کے کارکنان منظم ہو کر ایک مہم چلائیں اور گھر گھر دستک دے کر انھیں سادہ طریقہ پر تقریب نکاح انجام دینے کی دعوت دیں. حالانکہ اس طرح کی شادیاں کرنے اور مرتد ہونے والی اکثر لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہوچکی ہیں۔ ان لوگوں نے خود اپنی تباہی و بربادی کی المناک کہانیاں سنائی ہیں ۔ جذبات میں بہہ کر یا گمراہی کا شکار ہوکر غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرنے والی کئی لڑکیاں سڑکوں پر آگئی ہیں اور اعتراف کیا کہ ان کا شوہر انہیں اپنے دوستوں کے بھی حوالے کر دیتا ہے ۔ایسی کہانیوں کی تحقیقات بھی ضروری ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بے شمار مسلم لڑکیاں فی الوقت غیر مسلم بوائے فرینڈ یا عاشقوں سے شادیاں کر رہی ہیں۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان سیرت کی بجائے صورت اور مال کو ترجیح دیتے ہوئے مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے وہ لڑکیاں اور ان کے والدین ہیں۔ کہتے ہیں کہ جو معاشرہ اپنے دین سے دور ہوجاتا ہے اس میں غیرت باقی نہیں رہتی۔ بہنوں کو ارتداد کے بدترین گناہ سے بچانا ہوگا اور یہ کام صرف دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ مسئلہ کسی ایک گھر تک محدود ہے بلکہ اس طرح کے واقعات سے اجتماعی مسئلہ کے طور پر نمٹنا ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ رشتۂ نکاح میں دونوں فریق کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہونی چاہئے، یہ ہم آہنگی رشتوں کو پائیدار بناتی ہے، جو لوگ وقتی طور پر کسی پر دل پھینک دیتے ہیں اور اس بنیاد پر ازدواجی رشتہ سے بندھتے ہیں، عموماً ان کے درمیان تعلق میں استحکام باقی نہیں رہتا، ہم آہنگی کے لیے ایک ضروری شرط فکر و عقیدہ کی موافقت بھی ہے، سوچئے کہ اگر ایک شخص اللہ کو ایک مانتا ہو اور اللہ کے سوا کسی کے سامنے اپنی پیشانی رکھنے کو سب سے بڑا جرم اور گناہ تصور کرتا ہو، اس کی اس شخص کے ساتھ چوبیس گھنٹے کی زندگی میں کیسے موافقت ہوسکتی ہے، جو سینکڑوں مخلوقات کا پجاری ہو، جب دونوں کے مذہبی تہوار آئیں گے تو اگر وہ اپنے نظریہ میں سنجیدہ اورسچا ہو تو کیا ان کے درمیان نزاع پیدا نہیں ہوگی ؟ جب اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کی مذہبی وابستگی کا مسئلہ آئے گا تو کیا آپس میں کھینچ تان کی نوبت نہیں آئے گی؟ یقیناً آئے گی، اسی لئے اسلام میں جو چیزیں نکاح میں رکاوٹ مانی گئی ہیں ، جن کو فقہ کی اصطلاح میں’’ موانع نکاح‘‘ کہا جاتا ہے، ان میں ایک اختلاف دین بھی ہے. لہذا ضروری ہے کہ علماء کرام اپنے وعظ و تقاریر میں، مساجد کے آئمہ و خطیب صاحبان اپنے جمعہ کے خطاب کے موقع پر لوگوں کو تلقین کریں کہ وہ اپنی بچیوں پر نظر رکھیں اور ایمان کے دشمن کے ارادوں سے آگاہ کریں۔ امت مسلمہ کے غیور مسلمان اس پر توجہ دیں اور اُمت کے ارباب حل و عقد پوری سنجیدگی کے ساتھ اس ناگفتہ بہ صورت حال پر غور کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کی غفلت کل کے سیلاب کا پیش خیمہ بن جائے اور پھر اس پر بند باندھنا ممکن نہ رہے ! ***

Related posts

دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ ،کچھ باتیں ، کچھ یادیں*  Darul Uloom Ahmadia Salafia

Siyasi Manzar

بحرِ اقبالیات کا شناور: پروفیسر رفیع الدین ہاشمی

Siyasi Manzar

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پدرانہ معاشرے کا رویہ کب بدلے گا؟

Siyasi Manzar

Leave a Comment