تحریر(مفتی) عبد التواب اناوی
خادم الاھتمام والافتاء جامعہ اسلامیہ بانگرمؤ ضلع اناؤ یوپی
اللّٰہ عزوجل نے قرآن کریم میں تمام احکام وراثت بالتفصیل بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا
*تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ؕ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ* سورہ نساء آیت 13
ترجمہ : یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ ہیں، جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ رہے گا اور یہ اس کے لئے بہت ہی بڑی کامیابی ہے۔
*وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا ، وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ* سورۃ النساء آیت 14
ترجمہ : اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کرده حدوں سے آگے نکلے گا(یعنی اللّٰہ کے مقرر کردہ اصول میراث پر عمل نہیں کرے گا) اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اور وہاں اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔
اس لئے تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اموال پر غور کریں علماء اور مفتیان کرام سے دریافت کریں کہ ان کے پاس جو کچھ بھی ہے اس میں کسی اور کا حق تو نہیں شامل ہے ، اگر اس کے اموال میں دوسروں کا حق شامل ہے تو علی الفور مفتیان کرام سے مسائل پوچھ کر دوسروں کا جتنا حق اس کے مال میں شامل ہے اسے فوراً ادا کرنے کی کوشش کرے، ساتھ ہی اس کا حق میراث اگر کسی کے پاس ہے تو فوراً اس حق کی وصولیابی کا مطالبہ کرے ورنہ بہر دو صورت شریعت کی نظر میں ناقابلِ معافی گناہ کا مرتکب قرار پائے گا ، ڈر ہے کہ کہیں اس عظیم گناہ کے سبب جہنم کا دائمی قیام نہ مقدر ہوجائے،
*دور حاضر کی صورتحال میں مسلمانوں کی اکثریت مذکورہ دونوں ہلاکت خیز گناہوں میں ملوث ہے*
موجودہ دور میں مسلمانوں کی اکثریت باپ کی کل جاداد کی تقسیم میں بھائیوں کی تعداد کے مطابق حصص متعین کرتے ہیں اور بہنوں و دیگر مستحق وارثین کا سرے سے غائب کر کے انہیں کھلم کھلا محروم کردیتے ہیں، اور شرعی ضابطہ یہی ہے کہ کھلم کھلا گناہ کبیرہ کرنے والا فُساق و فُجار کے زمرے میں داخل ہوجاتا ہے اور فُساق و فُجار کے لئے اپنے فسق و فجور سے توبہ کئے بغیر مرجانے پر جہنم میں داخل ہونا واجب ہے ، اور حق میراث ادا کئے بغیر ہزار بار توبہ کرنے سے بھی معاف نہیں ہوتا، وہ دنیا میں ادا نہ کیا گیا تو قیامت کے دن لازماً ادا کرنا پڑے گا ، اور وہاں اس مال کے عوض اپنی مقبول نیکیاں دینی ہونگی اور نیکیاں ختم ہو جانے پر صاحب حق کے گناہ غاصب کے پلڑے میں ڈال دئے جائیں گے جس کے سبب غاصب کو جہنم میں اور صاحب حق کو جنت میں بھیج دیا جائے گا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذرا سے دنیاوی مال کے عوض حق میراث کے غاصبین اپنی جنت فروخت کر رہے ہیں ،
دوسری طرف ہندوستانی خواتین خاندانی اور معاشرتی دباؤ کی بنیاد پر اپنے حق میراث کا اپنے بھائیوں وغیرہ سے مطالبہ نہیں کرتیں، یا بادل ناخواستہ کہہ دیتی ہیں آپ لوگ آپس میں ساری جائداد تقسیم کر لو ہم نے یعنی ہم سب بہنوں نے اپنا حق معاف کر دیا ، یا آپ سب کو ہدیہ کردیا، جس کے سبب وہ بھی دو عظیم گناہوں میں مبتلا ہو کر فُساق و فُجار کے زمرے میں داخل ہوجاتی ہیں، اول اللّٰہ کے بخشے ہوئے مال کو نہ لیکر اس کے نظام سے بغاوت ، دورسرے بھائیوں کے حرام کھانے پر رضامند ہونے سے ، مذکورہ دونوں گناہ بھی چونکہ کبیرہ ہیں اور کبائر کا کھلم کھلا کرنا فسق و فجور کہلاتا ہے، اور فسق و فجور جہنم کے داخلے کو واجب کرتا ہے، اور شریعت اسلام کی بغاوت جہنم کے دائمی قیام کو لازم کرتی ہے ، اس لئے لئے تمام مسلمان بہنوں پر شرعاً لازم ہے کہ وہ فوراً اپنے بھائیوں وغیرہ سے اپنے والدین وغیرہ کے ترکے کا اپنے جائز حق کے حصول کا مطالبہ کریں تاکہ خود بھی جہنم کی آگ سے محفوظ ہوں اور اپنے دیگر وارثین کو بھی جہنم سے بچانے میں معین ہوں،
قال تعالیٰ فی القرآن الکریم : *لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا* سورۃ النساء ، آیت 7
ترجمہ : جو کچھ بھی والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر مریں خواہ وہ چھوڑا ہوا مال و متاع کم ہو یا زیادہ اس میں مردو اور عورتوں میں سے ہر ایک کے حصص اللّٰہ نے متعین کئے ہیں۔
وفی الحدیث الشریف
*” عن سعيد بن زيد (رضی اللہ عنہ) قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين "*
مشکوۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، : قدیمی)
ترجمہ : حضرت سعید بن زید (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، جس شخص نے (دنیا میں) کسی بھی شخص کی ایک بالشت بھی زمین ظلماً ہڑپ (چھین ) لی تو قیامت کے دن اللّٰہ عزوجل ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین کا طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دیں گے۔
*ن أنس (رضی اللہ عنہ) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ،، من قطع میراث وارثہ، قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ*
مشکوۃ المصابیح ، رواہ ابن ماجہ ، باب الوصایا ، الفصل الثالث ، 1/ 266
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،، جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا (یعنی اس کو اس کا حصئہ میراث نہیں دیگا) ، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لیگا، (یعنی اسے جنت سے محروم کر دیگا)۔
واضح رہے کہ شریعت کی طرف سے وراثت ایک لازمی حق ہے، جو وارث کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی ملکیت میں شامل ہو جاتا ہے، کیوں کہ مرنے والے کے مال و جائیداد میں اس کے شرعی وارثین کے حصص خود اللّٰہ عزوجل نے متعین کئے ہیں، اسی وجہ سے ہر وارث اپنے حق میراث کو وصول کرنا یا وصول کرنے کی جدو جہد کرنا لازم اور فرض ہے ، جس ترک بہت بڑے گناہ کا باعث ہے، کیوں کہ کسی وارث کو اپنا حصئہ میراث وصول نہ کرنا ایک فریضئہ خدا کو ترک کرنا ہے اور دوسرے اس حق واجب کی وصولی کا مطالبہ نہ کر کے دیگر وارثین کے حرام کھانے میں تعاون کرنے کا گناہ شامل ہے نیز دیگر وارثین کے حرام کھانے پر رضامند ہونے کا گناہ بھی ہوگا، اس لئے لازم اور ضروری ہے کہ میت کے تمام شرعی وارثین میت کے چھوڑے ہوئے تمام مال و متاع میں سے حقوق میت ، قرض اور وصیت کی ادائگی کے بعد بچا ہوا سارا مال و متاع اپنے اپنے شرعی حصص کے مطابق فوراً تقسیم کر کے اپنے اپنے حصے کے اموال پر قبضئہ تصرف حاصل کریں۔
*تقسیم سے قبل ترکئہ میت میں کسی بھی وارث کے لئے تصرف جائز نہیں ہے*
میت کی تدفین کے بعد سب سے پہلا کام اس کی جاداد سے اس کے قرض (اگر ہو) اور تہائی مال میں سے وصیت (اگر کی ہو) ادا کر کے سارے مال و متاع کو تمام زندہ شرعی وارثین میں ان کے حصص کے مطابق کیا جائے، اور تمام وارثین کو ان کے اپنے حصوں پر قبضہ دلا کر انہیں تصرف کا حق دیا جائے ،
*ایک اہم وضاحت*
اور یاد رہے کوئی بھی مشترک مال تقسیم سے قبل کسی بھی شریک کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، اس لئے بھی وارثین کو چاہئے کہ تقسیم میراث کے عمل میں ہرگز تاخیر نہ کریں، البتہ اگر وارثین میں کوئی وارث نابالغ نہ ہو تو تمام وارثین کی رضامندی سے میت کے ترکہ سے خیرات و مہمانداری وغیرہ کی گنجائش ہے لیکن اگر وارثین میں کوئ نابالغ بھی ہو تو ترکہ تقسیم کئے بغیر کسی کو کوئی تصرف کا حق نہیں ہے
لہذا میراث میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دوسرے شریک وارث کے حق میں دست بردار ہوجانا بھی شرعاً ناجائز اور غیر معتبر ہے۔
جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے کہ حق میراث ملکیت جبری ہے یہ قبضہ سے قبل معاف کرنے سے معافی اور ہدیہ کرنے سے ہدیہ غیر معتبر رہتا ہے یہ قبضہ سے قبل کسی طرح بھی ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا،
"الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط”.
تکملۃ رد المحتار: (505/7، ط: سعید)
صاحب الاشباہ والنظائر ، لکھتے ہیں کہ اگر کوئی وارث قبضے سے قبل کہے کہ میں اپنا حق میراث چھوڑتا ہوں تو تو اس حق باطل نہیں ہوگا، اس لئے کہ یہ ایسی ملکیت ہے جو قبضہ سے پہلے باطل کرنے سے باطل نہیں ہوتی۔
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك”.
الأشباہ و النظائر: (ما یقبل الاسقاط من الحقوق، ص: 309، ط: قدیمی)
ہاں! ترکہ تقسیم ہوجائے اور وہ وارث اپنے حصے پر قبضہ کرلے، اس کے بعد وہ اپنا حصہ کسی دوسرے وارث کو دینا چاہے، تو ایسا کرنا اس کے لئے شرعاً جائز اور معتبر ہوگا، لیکن خاندانی یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کسی وارث کا اپنے حق کو معاف کرنا، جیسا کہ ہندوستان کے اکثر علاقوں میں معاشرتی اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کو قبل القبضہ یا بعدالقبضہ معاف، یا ہدیہ کر دیتی ہیں، ان کے لئے ہرگز ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ بہنوں کے معاف یا ہدیہ کردینے کے باوجود ان کا حصہ ان کی ملیکت سے باہر نہیں ہوگا بلکہ انہیں کی ملکیت میں برقرار رہے گا، اور بھائیوں کا ان کے حصص پر قبضے کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ بھائی زندگی بھر مال حرام کھاتے رہیں گے جس کے سبب ان کی عبادتیں اور دعائیں متأثر ہونگی، نیز قیامت میں اس مال کے عوض اپنی نیکیاں کھوکر ابدی جہنم کے مستحق ہون گے اور بہنیں بھی شریعت سے بغاوت، شریعت کے مقابلے ہندوانہ معاشرت کو ترجیح دینے اور بھائیوں کو دھوکہ میں رکھنے کے گناہ میں مبتلا ہو کر جہنم کی مستحق قرار پائیں گی، اللّٰہ عزوجل اپنے فضل سے امت اس عظیم فریضئہ اسلام کے احکام سے باخبر اور ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب