Siyasi Manzar
علاقائی خبریں

بزرگ صحافی رضوان اللہ کی حیات و خدمات پر مبنی کتاب ’ذکرِ رضوان اللہ‘ کا اجرا

اوکھلا پریس کلب کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں مقررین نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا

نئی دہلی (پریس ریلیز) اوکھلا پریس کلب کے زیر اہتمام تسمیہ آڈیٹوریم اوکھلا میں منعقدہ تقریب رونمائی میں بزرگ صحافی رضوان اللہ کی صحافتی و ادبی خدمات پر مبنی کتاب ’ذکرِ رضوان اللہ‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ یہ کتاب ان کی دختر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ فارسی میں استاد ڈاکٹر زہرہ خاتون اور معروف صحافی سہیل انجم نے مشترکہ طور پر ترتیب دی ہے۔
ڈاکٹر سید فاروق کی زیر صدارت منعقدہ تقریب کے مہمان خصوصی ہفت روزہ ’ملی گزٹ‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے رضوان اللہ سے اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ مراسم کو یاد کرتے ہوئے انھیں ایک جرأتمند صحافی قرار دیا۔ ناسازیٔ طبع کی وجہ سے وہ تقریب میں شریک نہیں ہو سکے تاہم انھوں نے اسپتال سے اپنے پیغام میں کہا کہ رضوان اللہ بیباک صحافی اور کھرے انسان تھے۔ وہ مسائل پر ناقدانہ نظر ڈالتے اور جرأتمندی کے ساتھ اپنی بات کہتے تھے۔ یاد رہے کہ رضوان اللہ ملی گزٹ میں ہفت روزہ کالم لکھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر سید فاروق نے ڈاکٹر زہرہ خاتون کو کتاب کی ترتیب پر مبارکباد پیش کی او رکہا کہ اولاد کو اپنے والدین کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ان کے حق میں دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔ مہمان اعزازی پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے رضوان اللہ کی یاد میں کتاب خوانی کی تحریک شروع کرنے پر زور دیا اور اوکھلا پریس کلب سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلے میں پہل کرے۔ ان کے بقول آج کتابیں پڑھنے کا ذوق ختم ہوتا جا رہا ہے، اس کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر زہرہ خاتون نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر محسن عثمانی کی توجہ دہانی پر مرحوم کا فارسی کلام کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ انھوں نے کتاب کی تیاری میں معاونین کا شکریہ ادا کیا۔ معروف ادیب و نقاد حقانی القاسمی نے رضوان اللہ کی ادبی و صحافتی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے خاص طور پر ان کی فارسی شاعری کا ذکر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ان کی حیات و خدمات پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جانے چاہئیں۔ پروفیسر کلیم اصغر، صدر شعبۂ فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اعلان کیا کہ وہ رضوان اللہ کی فارسی شاعری پر فارسی میں مضمون لکھ کر کسی معیاری رسالے میں شائع کروائیں گے۔ پروفیسر سلیم قدوائی نے رضوان اللہ سے اپنے ذاتی مراسم کو یاد کرتے ہوئے ان کی صحافتی و ادبی خدمات کو اجاگر کرنے پر زور دیا۔ معروف داستان گو محمود فاروقی نے جو کہ رشتے میں رضوان اللہ کے پوتے ہوتے ہیں، کہا کہ رضوان دادا ان لوگوں کے بزرگ دوست تھے۔ ان کی خودنوشت ’اوراق ہستی‘ پر شمس الرحمن فاروقی صاحب پیش لفظ لکھناچاہتے تھے لیکن اسی دوران وہ کرونا سے متاثر ہوئے اور پھر جاں بر نہ ہو سکے۔ یو این آئی اردو کے سابق ایڈیٹر عبد السلام عاصم نے کلکتہ کی صحافت کے حوالے سے رضوان اللہ سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے شخصی اوصاف بیان کیے۔ پروگرام کے کنوینر اور اوکھلا پریس کلب کے نائب صدر سہیل انجم نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس میں دو قسم کے مضامین ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو دوسروں نے ان کی صحافت، شاعری اور فن پر لکھے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو ان کے اعزا و اقربا نے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر تحریر کیے ہیں۔ کتاب کا یہ دوسرا حصہ حاصل کتاب ہے۔ انھوں نے مرحوم کی صحافتی و ادبی حیثیت پر بھی گفتگو کی۔اوکھلا پریس کلب کے صدر ایم اطہر الدین منے بھارتی دفتری مصروفیت کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اوکھلا پریس کلب کے سینئر جنرل سکریٹری ڈاکٹر مظفر حسین غزالی نے پروگرام کا تعارف پیش کیا اور اوکھلا پریس کلب کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ اس تقریب میں رضوان اللہ کے اعزا و اقربا کے علاوہ بڑی تعداد صحافیوں اور ادیبوں نے شرکت کی۔ جن میں انقلاب کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر یامین انصاری، سینئر صحافی جاوید اختر، ڈاکٹر سید احمد خاں، امریکی سفارت خانے میں سابق اردو ایڈیٹر عبدالحئی فلاحی، اشرف بستوی، امتنان احمد، محمد عارف، ڈاکٹر سلمان فیصل، ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر مامون عبد العزیز، ڈاکٹر امتیاز احمد، ڈاکٹر نوشاد منظر، پرویز اختر، ڈاکٹر قرۃ العین، ڈاکٹر زاہد احسن، ڈاکٹر محمد یاسر، ابو طلحہ فاروقی، قاضی محمد طارق، ثمرہ صدیقی اور اسجد ضیا صدیقی قابل ذکر ہیں۔

Related posts

مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے!

Siyasi Manzar

ڈاکٹر شبلی ملک کا انتقال،آبائی گاؤں اونرہوا میں تدفین آج

Siyasi Manzar

مسلم کمیٹی امروہہ کے زیر اہتمام جلسہ شب نور کا انعقاد

Siyasi Manzar

Leave a Comment