Siyasi Manzar
مضامین

بحرِ اقبالیات کا شناور: پروفیسر رفیع الدین ہاشمی

پروفیسر مشتاق احمد
پرنسپل، سی۔ایم کالج، دربھنگہ، بہار(بھارت)
پروفیسر رفیع الدین ہاشمی (9؍ فروری1940ء ۔25؍ جنوری2024ء )کا شمار ان عاشقانِ اقبال اور ماہرِ اقبالیات میں ہوتا ہے جن کی بدولت اقبالیاتی ادب کو تاریخِ ادب اردو میںنہ صرف معیار ووقار عطا ہوا بلکہ عالمی ادب میں علامہ اقبال کے افکارونظریات کو استحکام حاصل ہوا ہے۔ پروفیسر ہاشمی سے میرے مراسم کی مدت چار دہائیوں پر محیط ہے اور اس کی وجہ بھی صرف اور صرف ان کا عشقِ اقبال ہے۔واضح ہو کہ میں نے 1992ء میں اپنا تحقیقی مقالہ برائے امتحانیہ پی۔ایچ ڈی لکھنا شروع کیا تھا اور اس کے لئے ملک اور بیرونِ ملک کے نامورانِ اقبال کے نام ذاتی مکتوب ارسال کرنے کے ساتھ ساتھ مؤقر اردو اخبار ورسائل میں یہ اشتہار بھی جاری کیا کہ راقم الحروف ’’اقبالیات کی وضاحتی کتابیات‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ رہا ہے لہذا اقبال کی شخصیت اور ان کے افکار ونظریات کے متعلق خواہ کسی بھی زبان میں کتاب شائع ہوئی ہو تو اس کی اطلاع فراہم کریں ۔ بالخصوص صاحبِ کتاب سے گذارش کی تھی کہ وہ کتاب کی دستیابی میں تعاون کریں۔میری گذارش پر جن ماہرینِ اقبالیات نے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ان میں پروفیسر رفیع الدین ہاشمی بھی شامل تھے۔ غرض کہ 1992ء سے جب تک ہندو پاک کے درمیان ڈاک کی سہولت فراہم تھی اس وقت تک پروفیسر ہاشمی میرے لئے مواد فراہم کرتے رہے اور نئی مطبوعات کی اطلاع بھی دیتے رہے ۔ ان کے توسط سے ہی اقبال اکادمی ، لاہور ، پاکستان سے شائع ہونے والے مجلّہ ’’اقبالیات‘‘ کے رئیس ادارت محمد سہیل عمر اور احمد جاوید سے بھی رابطہ قائم ہوا ۔بالخصوص خادم علی جاوید، لائبریرین اقبال اکادمی، اقبالیات کے شماروں کے ساتھ ساتھ اپنی مطبوعات سے بھی نوازتے رہے ۔ڈاکٹر جاوید اقبال بھی پاکستان میں شائع ہونے والی کتابوں اور مضامین ومقالات کی اطلاع فراہم کرتے رہے ۔میرا تحقیقی مقالہ’’اقبال کی وضاحتی کتابیات‘‘ جب کتابی صورت میں 2007ء میں شائع ہوا تو انہوں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ اس کتاب کی پچاس کاپیاں وہاں منگوائیں اور جہاں کہیں مجھ سے کوتاہیاں ہوئی تھیں اس کی نشاندہی بھی کی۔ان ہی دنوں رسالہ ’’آج کل‘‘ میں میرا ایک مقالہ ’’اقبالیاتی ادب کا جائزہ‘‘ بھی شائع ہوا جس میں میں نے پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کا نہ صرف ذکرِ خیر کیا تھا بلکہ ان کے تئیں اظہارِ تشکر بھی پیش کیا تھا ۔حالیہ برسوں میں جب ہندو پاک کے تعلقات کشیدہ ہونے لگے اور ڈاک کا نظام معطل ہوگیا تو پھر ان سے خط وکتابت کا سلسلہ مفقود ہوگیا اور کتابوں کی لین دین بھی اثر انداز ہوگئی۔ واضح ہو کہ میری ذاتی لائبریری میں علامہ اقبال کی شخصیت اور افکار ونظریات سے متعلق پانچ سو سے زائد کتابیں ہیں ان میں درجنوں نایاب کتابیں پروفیسر ہاشمی کی عطیات ہیں۔ ہندوستان میں شائع ہونے والی ان کی پسندیدہ مطلوبہ کتابیں میں انہیں بھیجتا اور وہ اپنی پسندیدہ کتابیں بالخصوص اقبالیاتی ادب سے متعلق کتابیں مجھے بھیجتے اور ان کتابوں پر میری رائے بھی طلب کرتے۔سال2001ء میں جب میں نے اپنا رسالہ ’’جہانِ اردو‘‘ شروع کیا تو اس کے لئے بھی مضمون بھیجتے اور اپنے رفقاء سے بھی بھجواتے تھے۔ ’’جہانِ اردو‘‘ کا شمارہ اکتوبر 2004ء تامارچ 2005ء اقبال نمبر جب شائع ہوا تو انہو ںنے اقبال اکادمی ، لاہور کے مجلّہ ’’اقبالیات‘‘ کے شمارہ جولائی تا ستمبر2005ء میں ’’جہانِ اردو‘‘ کا تعارف اور تبصرہ بھی نبیلہ شیخ کے قلم سے شائع کروایا۔
غرض کہ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کو صرف علامہ اقبال سے ہی عشق نہیں تھا بلکہ اقبال کے چاہنے والوں سے بھی وہ جنون کی حد تک رشتہ قائم کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کی پیدائش 9؍ فروری 1940ء ضلع چکوال، پنجاب میں ہوئی تھی ۔ انہوں نے اورینٹل کالج لاہور سے1963ء میںبطور پرائیوٹ امیدوار بی۔اے اور 1966ء میں ایم۔اے پاس کیا تھا ۔ وہ 1969میں محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے اور پاکستان میں مختلف کالجوں میں درس وتدریس کے فرائض انجام دئیے۔ 1982ء میں وہ اپنے مادرِ علمی اورینٹل کالج ، لاہور میں تعینات ہوئے اور اپنی سبکدوشی تک اسی کالج میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیتے رہے ۔ پروفیسر ہاشمی کو طالب علمی کے زمانے سے ہی علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کے افکار ونظریات میںدلچسپی تھی اور جب پیشۂ درس وتدریس سے وابستہ ہوئے تو انہوںنے اقبالیاتی ادب کوہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ جامعہ پنجاب سے ’’اقبالیات کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر 1981ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔وہ اپنی ملازمت سے سبکدوشی سے پہلے شعبہ اردو اورینٹل کالج کے صدر شعبہ بھی مقرر ہوئے اور وہاں سے ایک تحقیقی مجلّہ ’’بازیافت‘‘ بھی شائع کیا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے ۔
اقبالیاتی ادب سے تعلق رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیںکہ پروفیسررفیع الدین ہاشمی کی درجنوں تصانیف اقبال کے تصورِ زیست کی آئینہ ہیںاور بالخصوص اقبالیات کی وضاحتی کتابیات کو عام کرنے میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے ۔ ان کی مطبوعہ کتابوں میں ’’کتابیاتِ اقبال، تصانیف اقبال کا تحقیقی وتوضیحی مطالعہ، 1985کا اقبالیاتی ادب : ایک جائزہ، 1986کا اقبالیاتی ادب، اقبالیات کے سو سال، تحقیق اقبالیات کے ماخذ ، اقبالیات تفہیم وتجزیہ، اقبال مسائل ومباحث ، اقبال کی طویل نظمیں : فکری وفنّی مطالعہ، خطوطِ اقبال ‘‘اور’’اصنافِ ادب‘‘ قابلِ ذکر ہیں ۔ اگرچہ ان کی تحقیق وتنقید کا محور ومرکز اقبالیات رہا لیکن انہوںنے دیگر موضوعات پر بھی کتابیں لکھیں بالخصوص ان کے سفر نامے اردو سفر ناموں کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان کے سفر ناموں میں ’’پوشیدہ تیری خاک میں (سفر نامہ اندلس)، سورج کو ذرا دیکھ(سفر نامہ جاپان)، اردو کے علمی وادبی حلقے میں قبولیت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ یوں تو پروفیسر رفیع الدین ہاشمی مزاجاًگوشہ نشیں تھے اور خاموشی سے علمی وادبی کام کرنے میں یقین رکھتے تھے لیکن دنیائے ادب نے ان کے علمی کارناموں کو نہ صرف سر آنکھوں پر رکھا بلکہ حکومت پاکستان نے انہیں تمغۂ امتیاز(2015ء ) ، صدارتی اقبال ایوارڈ اور بابائے اردو ایوارڈ سے بھی نوازا۔مجھے یاد آرہا ہے کہ ان کے ایک شاگرد عزیز ڈاکٹر خالدندیم نے ان کی علمی وادبی خدمات پر مشتمل مضامین کو کتابی صورت میں ’’ارمغانِ رفیع الدین ہاشمی‘‘ شائع کیا تھا جس میں اردو، فارسی ، ترکی ، انگریزی ، فرانسیسی اور جرمن زبانوںمیں بھی پروفیسر ہاشمی کی شخصیت اور فکر وفن پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ ، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر کے ڈائرکٹر پروفیسر بشیر احمد نحوی جو ایک نامور اقبال شناس بلکہ حافظِ اقبال ہیں کہ انہیں علامہ اقبال کا مکمل اردو اور فارسی کلام ازبر ہے ، انہوں نے بھی رفیع الدین ہاشمی کی اقبال شناسی کا اعتراف کیا ہے اور اقبال انسٹی ٹیوٹ میں رفیع الدین ہاشمی کے فکر وفن پر تحقیقی مقالے لکھوائے ہیں ۔
واضح ہو کہ اقبال شناسی کا باقاعدہ آغاز مولوی احمددین کی کتاب ’’اقبال‘‘(1924ء ) سے ہوا تھا۔ اگرچہ مولوی احمددین کی اس کاوش کو علامہ اقبال نے نا پسند کیا تھا اس لئے اس کی تمام کاپیاں جلا دی گئی تھیں لیکن بعدمیں ترمیم واضافے کے ساتھ1926ء میں شائع ہوئی۔علامہ کی حیات میں مشہور ادبی جریدہ ’’نیرنگ خیال‘‘ کا اقبال نمبر شائع ہوا تھا اور 9؍ جنوری 1938ء کو پہلی بار یومِ اقبال منایا گیا تھا جس میں مولانا اسلم جیراجپوری، خواجہ غلام سیدین، ڈاکٹر تاثیر، پروفیسرعابد علی اور اس وقت کے کئی مشاہیر نے اس میں شرکت کی تھی اور بعدمیں سمینار کے ان مقالوں کو ’’اسپیکٹس آف اقبال‘‘ کے نام سے کتابی صورت میںشائع کیا گیا تھا۔
غرض کہ اقبالیاتی ادب کا آغاز علامہ اقبال کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان میں اقبال کی شاعری اور ان کی ذہنی وفکری ارتقاء پر خاص توجہ دی گئی اور ہندوستان میں بھی اقبال کی شخصیت اور فکر وفن کو موضوع بنایا جانے لگااور آہستہ آہستہ پوری دنیا میں اقبالیات ایک بیکراں سمندر کا روپ اختیار کر گیا ۔ بحرِ اقبالیات میں غوطہ زن ہو کر فکرِ اقبال کے نایاب گوہر کی دستیابی میں جن اقبال شناسوں نے اپنی زندگی وقف کردی ان میں پروفیسر رفیع الدین ہاشمی یکتا نظر آتے ہیں ۔ وہ بحرِ اقبال کے ایسے شناور ہیں جنہوں نے اقبالیاتی ادب کو عروج بخشنے میں اپنی زندگی وقف کردی اور اقبال سے محبت کرنے والوں سے بھی اس قدر محبت کی مثال قائم کی کہ شاید رفیع الدین ہاشمی اس معاملے میں بھی ہمیشہ مثالی شخصیت کے حامل رہیں گے۔
بلا شبہ رفیع الدین ہاشمی ایک اقبالیاتی شخصیت کے مالک تھے اور اپنی صحت مند فکر ونظر ، تنقیدی بصیرت وبصارت اورسرمایۂ اخلاقیات کے پیکر تھے۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کا اس مختصر تاثراتی مضمون میں احاطہ ممکن نہیں کہ ان کی نصف صدی کی علمی وادبی خدمات بالخصوص اقبال شناسی قاموسی ادب کا درجہ رکھتی ہے ۔اقبالیاتی تنقید اور اقبالیاتی تحقیق کو انہو ںنے جو معیار بخشا ہے وہ اقبال شناسوں کے لئے مشعلِ راہ ہے ۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جس وقت اقبالیاتی ادب پر جمود طاری تھا اس وقت انہوں نے ان نا مساعد حالات میں بھی اقبالیاتی ادب کو حرزِ جاں بنائے رکھا اور پوری دنیا میں اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر شائع ہونے والے مقالات ومضامین کی فہرست سازی اور مطبوعہ کتابوں کی وضاحتی کتابیات کی اشاعت کو اپنا فریضۂ اولین سمجھا جس کی بدولت آج علامہ اقبالؔ کی شخصیت، شاعری اور فکروفلسفہ پر ہزاروں کتابوں تک بہ آسانی رسائی ہو جاتی ہے کہ انہوںنے اقبالیاتی ادب کو ایک اسکول آف تھاٹس کا مقام عطا کیا ۔ اقبال کی شخصیت اور فکر پر ان کے جو مضامین ومقالات ہیں ان کے مطالعے سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا مطالعہ کتنا عمیق تھااور وہ مصدرِ اقبالیات سے کس قدر آگاہ تھے۔ انہوںنے اپنے ایک مقالہ ’’دورِ حاضر میں فکراقبال کی معنویت‘‘ میں معنویت فکرِاقبال کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’آج ان کی وفات کو آٹھ عشرے بیت چکے ہیں مگر ان کی شاعری اب بھی بہ دستور تروتازہ اور با معنی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ان کی شاعری اور ان کے خطوط انگریزی خطبات کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ علامہ اقبال جیسی بصیرت اور ان جیسا ویژن بیسویں صدی کے کسی اور شاعر کے یہاں نظر نہیں آتا۔ علامہ اقبال نے صرف عصر حاضر کی خرابیوں کے بیان اور ان کی نشاندہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے عصر حاضرکو انسانیت کے لئے ملک الموت قرار دیتے ہوئے اس کے چنگل سے بچنے اور رہائی پانے کا ایک مختصر، جامع مگر کافی وشافی نسخہ تجویز کیا ہے ‘‘۔(اقبال کی عصری معنویت۔مرتب : ڈاکٹر مشتاق احمد ، سال 2010،ص:248-49)
افسوس صد افسوس کہ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں کہ 25جنوری 2024کو وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے ۔ ان کا جسدِ خاکی تو اب کبھی نگاہوں میں آنے والا نہیں ہے لیکن جب تک علامہ اقبال کے افکار ونظریات ہماری فکر ونظر کا حصہ بنتے رہیں گے اس وقت تک پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کے اقبالیاتی عشق کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہے گا کہ مرحوم نے روحِ اقبال کو اپنے اندر حلول کر لیا تھا۔پروفیسر ہاشمی کے سانحہ ارتحال کی خبر راقم الحروف کو جیسے ہی ملی ،یادو ں کا ایک طویل سلسلہ پرت در پرت کھلتا چلا گیا ۔ ان کی محبتیں اوران کے بے لوث خلوص نے اشکبار ی پر مجبور کردیا۔ میں نے اپنی زندگی میں اقبال سے محبت کرنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا۔ اقبال کے ایک سچے عاشق پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی یہ بات بار بار یاد آرہی ہے کہ ہم بحرِ اقبالیات کے ساحل پہ کھڑے ہیں اور پروفیسر رفیع الدین ہاشمی بحرِ اقبالیات کے شناور ہیں۔اللہ ان کی مغفر ت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔ اب جب میں اپنے اس تاثراتی مضمون کو یہیں تمام کررہا ہوں تو غالبؔ کا یہ شعر با ر بار ذہن پر دستک دے رہا ہے کہ ؎ مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تونے وہ گنجہائے گراں مایہ کیا کئےبلا شبہ رفیع الدین ہاشمی کے انتقال سے نہ صرف پاکستان میں اقبال شناسی کا ایک روشن چراغ گل ہوگیا ہے بلکہ تمام اقبال شناسوں کے لئے ان کا سانحۂ ارتحال ایک صدمۂ عظیم ہے اور بالخصوص میرے لئے صدمۂ جانکاہ کہ انہوں نے میرے اندرکی اقبال شناسی کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں ہوائے تند کا کام کیاتھا۔   ٭٭

Related posts

قضیہ فلسطین ، سیاسی نعروں اور حقیقی مددگاروں کے تناظرمیں

Siyasi Manzar

کیا تلنگانہ میں بی آر ایس اور کانگریس میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا؟

Siyasi Manzar

موبائل فون ہمارے لیے ہے یا ہم موبائل فون کیلئے؟

Siyasi Manzar

Leave a Comment