Siyasi Manzar
مضامین

انجانے میں اپنی صحت سے کھلواڑکرتا انسان

سیدہ رخسار کاظمی
پونچھ
ایک صحت مند قوم ہی حقیقت میں ایک دولت مند قوم کہلاتی ہے۔ قوم کی خوشحالی اور قوم کی ترقی قوم کے لوگوں کی صحت سے متعین ہوتی ہے اور صحت کا تعلق اس سے ہے جو ہم کھاتے ہیں یا پیتے ہیں۔ ہندوستان ایک متنوع ریاست ہے، یہاں کثیر طبقات و ثقافت، مختلف طرزِ عمل، مختلف مذاہب اور زبانیں رائج ہیں، گو کہ ہر ریاست اپنی ثقافت کے لیے مشہور ہے۔ یہاں پر طرح طرح کے پکوان کھانے کو ملتے ہیں جنہیں لے کر بیرون ہند تمام ممالک سے لوگوں کا خواب ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کی ہر ریاست کے پکوان کا ذائقہ آزمائیں۔ لیکن ہندوستان کے ہر کونے میں ایک چیز سب سے زیادہ مشہور ہے اور وہ ہے”اسٹریٹ فوڈ“(چوک چوراہے پر کھانا) جو کہ پورے ملک میں مشہور ہے۔ اسکے زبردست ذائقے کی وجہ سے اسے ہر عمر کے افراد کھانا پسند کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر طلباء ہی کھاتے ہیں اور وہ کھانے عام طور پر ایک معمولی پیکنگ کے ساتھ دئیے جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کھانا اخباروں کے ٹکڑوں سے لپیٹ کر لیا جاتا ہے، لیکن بہت چند لوگوں کو معلوم ہے کہ اخبار میں کھانا لپیٹ کر کھانا کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جنہیں معلوم ہے وہ بھی نظر انداز کرتے ہیں۔ اخبار پر جو حروف لکھے ہوئے ہوتے ہیں وہ سیاہی سے لکھے جاتے ہیں۔ اس میں استعمال ہونے والی سیاہی ممکنہ طور پر نقصان دہ مواد پر مشتمل ہوتی ہے جس میں نقصان دہ رنگ، روغن، بارڈرز، نشہ آور اشیاء اور تحفظات شامل ہیں، اس کے علاوہ سیسہ جیسے کیمیکلز کا بھی اس میں بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ جوانسانوں کے لیے زہریلا ہے اورکسی بھی عمریا صحت کی حالت کے لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس میں دیگر زہریلے مادے بھی شامل رہتے ہیں جو کہ اکثر کھانے کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں۔ یہ کیمیکل کھانے میں گھس سکتے ہیں اور کھانے سے صحت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں پرنٹنگ، ہینڈلنگ اور تقسیم کے دوران دھول، گندگی اور جراثیم بھی ہوتے ہیں۔
فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹنڈرڈ آتھوڑیٹی آف انڈیا(فسائی)نے 2008 میں کھانے کو اخبار یا اسی طرح کے مواد میں لپیٹنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ تازہ ترین خبر جو کے 2023 کی ہی ہے اسکے مطابق ہندوستاں کے خوراک اور اختیار اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO)،کملا وردھن راؤ نے اہلِ بھارت سے بہت مضبوطی سے موصول کیا ہے کہ وہ کھانے کو پیک کرنے، پیش کرنے اور اشیائی مال کو رکھنے کے لئے اخبارات کا استعمال کرنا بند کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اخبارات میں کھانا کھانا نقصان دہ ہوتا ہے۔اس میں کھانا رکھ کر دینے سے اتنی بیماریوں کا سامنا ہو سکتا ہے اور کینسر بھی اسمیں شمار ہے جو جان لیوا بیماری ہے۔اسکے باوجود بھی ہم احتیاط نہیں برتتے۔زیادہ تر گھروں میں اخباروں یا کتابوں سے لئے گئے کاغذات میں کھانا لپیٹا جاتا ہے۔اگر میں اپنے گھر کی بات کروں تو میں جموں وکشمیر کے ضلع پونچھ میں رہتی ہوں، میں ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہوں۔ میری والدہ جب بھی کوئی تلا ہوا خانہ پکاتی تھیں تو وہ اخبار میں رکھ کر دیتی تھی تاکہ تیل اخبار یہ کاغذ کے اندر جذب ہو جائے اور کھانا تندرست بن جائے لیکن اُنھیں نہیں معلوم تھا کہ یہ نقصان دہ ہے۔ جب مجھے اخبار کے اور سیاہی کے خطرناک نقصانات کا علم ہوا تو میں نے اُنھیں آگاہ کرویا۔ لیکن ایسے کئی گاؤں ہیں جہاں لوگوں کو اخبار سے کھانا ڈھکنے کے خطرناک نقصانات نہیں معلوم ہوتے اور وہ اس کا استعمال کرتے ہیں۔میں نے اپنی ایک سہیلی ”صاحبہ خواجہ“ سے اس متعلق پوچھا جو کے پونچھ ضلع کے گاؤں سیڑی خواجہ کی رہنے والی ہیں، انہوں نے کہا کہ اُن کے گاؤں میں لوگ گھاس کی کٹائی کرتے وقت اخبار کے کاغذات یا پرانی پھٹی کتابوں سے لئے گئے صفحات میں روٹیاں لے کر جاتے ہیں اور آج بھی یہی کر رہے ہیں۔ صاحبہ نے یہ بھی کہا کے کئیں لوگ پڑھے لکھے نہیں اُنھیں اسکے نقصانات کی خبر نہیں اور جنہیں معلوم ہے وہ بھی نظرانداز کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں اس پر غور و فکر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
اسکے علاوہ میرے گاؤں کے ایک شخص نے کہا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنے گاؤں کی ہی اکیڈمی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔وہ اسکول لنچ کے لیے کھانا استعمال کی ہوئی کتاب کے صفحات میں لے کر جاتے تھے جب اُنھیں معلوم ہوا کہ یہ اتنا نقصان دہ ہے تو اُنھیں بہت خوف آیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کے بہت سے اسکول کے طلباء کھانا کتابوں کے کاغذات میں لے کر جاتے ہیں جو کہ ظاہر ہے بیماریاں بڑھنے کا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اس چیز کے اور اس پیدا ہونے والے اثرات کے زمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ جو اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ ہم دکانوں سے جب جنک فوڈ گھر میں پیک کروا کر لاتے ہیں تو اخبار میں پیک کروا کر لاتے ہیں۔ اس میں ایک طرف جہاں بڑی غلطی دکان دار کی ہے وہیں دوسری جانب اسے لینے والے کی بھی ہے۔اسٹریٹ فوڈ کا ہر کھانا اخبار کے لفافے میں پیک کر کے دیا جاتا ہے۔جو انجانے میں انسانی صحت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ایسے میں حکومت اور انتظامہ کو چاہئے کہ وہ اس پر پابندی لگائے۔اخبار کے لفافے کو بند کیا جانا چاہیے اور اس پر سخت کاروائی بھی کرنی چائیے۔ لیکن اس میں سب سے بڑا رول خود عوام کا ہے۔ اسے خود سے آگے بڑھ کر اس کے خلاف بیدار ہونا چاہئے۔یہ کسی ایک کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ایک مشترکہ مہم ہے۔(چرخہ فیچرس)

Related posts

جموں و کشمیر میں دفعہ370 کی منسوخی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی

Siyasi Manzar

دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ ،کچھ باتیں ، کچھ یادیں*  Darul Uloom Ahmadia Salafia

Siyasi Manzar

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پدرانہ معاشرے کا رویہ کب بدلے گا؟

Siyasi Manzar

Leave a Comment