Siyasi Manzar
علاقائی خبریں

راہ ِ سنت ہی مقبولیت ومحبوبیت کے راستے ہیں

مسجد ناصر العلوم اسٹیشن روڈ صاحب گنج بڑگاؤں گونڈہ یوپی کے امام وخطیب مولانا مقیت احمد قاسمی کا خطبہ جمعہ

مورخہ ۱۱/ اکتوبر ۲۰۲۴ بروز جمعہ مسجد ناصر العلوم اسٹیشن روڈ صاحب گنج بڑگاؤں گونڈہ یوپی میں جمعہ سے قبل سنت کی اہمیت وعظمت پر خطاب کرتے ہوئے کہا امت محمدیہ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اپنے پیغمبر کی نہ صرف تعلیمات کی حفاظت کی بلکہ پوری زندگی کی ایک ایک لمحات و کیفیات حتی ٰ کہ آپؐ کی اداؤں کو بھی محفوظ کیا، جبکہ دوسری امتوں نے سب کچھ فراموش کر دیا، کتابی تحریف اس قدر کی کہ اصل نام تک باقی نہیں رکھا، اور اُنہیں یہ خوش فہمی ہمیشہ سے رہی کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں،اور اللہ کے بیٹے ہیں، ” وقالت الیھود والنصاریٰ نحن ابناء اللہ واحباءہ، ” یہود اور نصاریٰ نے کہا ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں،
حالانکہ قرآن عظیم الشان نے واضح کردیا کہ اللہ کا محبوب بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اتباعِ رسول ﷺ یعنی حضورﷺ کی ایک ایک سنتوں پر مکمل عمل ہو، آیت کریمہ ” قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنوبکم واللہ غفورٌ رحیم ” ترجمہ: اے محبوب نبی! فرمادیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اللہ بہت بخشنے اور رحم فرمانے والا ہے،
راہِ سنت ہی مقبولیت و محبوبیت کے راستے ہیں، اسی نسخہ پے عمل کرکے اللہ کی رضا اور جنت کی نعمتیں نصیب ہونگی۔۔۔
نقشِ قدم نبی ﷺ کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔سنت کے راستے
کوئی کتنا ہی دعویٰ کرے اپنی قدر ِمنزلت کا، کسی کی عظمت وفضل کا کتنا ہی چرچا ہو، کسی کے تقویٰ وپرہیز گاری کا کتنا ہی شور ہو، اگر اس کی زندگی سنت کے مطابق نہیں ہے تو وہ اللہ کا مقبول و محبوب نہیں ہے، بلکہ کذّاب ومکار ہے بقول حکیم اختر ؒ ۔۔۔
گر ” ہوا ” میں کوئی اڑتا ہو رات دن
ترک سنت جو کرے اسے شیطان گن
دوران خطاب مولانا نے کہا : اہمیت ِسنت سمجھنے کے لئے یہ بات کافی ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ” کل امتی یدخلون الجنتہ الا من ابی، قالوا یا رسول اللہ ومن یابی؟ قال : من اطاعنی دخل الجنة، ومن عصانی فقد ابی ” ترجمہ: حضورﷺ نے فرمایا: میری کل امت جنت میں جائے گی سوائے جو انکار کرے گا، پوچھا گیا یا رسول اللہ کون منکر ہوگا؟ تو آپؐ نے فرمایا : جو میری پیروی کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جومیری نافرمانی کرے گا وہ جنت میں جانے کا انکار کرے گا ”
یعنی اتباع رسول ﷺ ہی دخولِ جنت کی ضمانت ہے،
صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ تین حضرات (صحابہ ؓ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپؐ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اس کو کم سمجھا اور کہا :کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں ، ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا ، دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا، تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان صحابہ سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟
سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ، میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے (نفلی) رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں (یعنی کبھی نہیں رکھتا) ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں ۔ میری سنت سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔(یعنی میری امت میں سے نہیں)
چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین یہ نکتہ سمجھ گئے تھے، ان کو یقینی طور پر پتہ چل گیا تھا کہ آپؐ کی اتباع کے بغیر اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہو سکتا، اسی وجہ سے انہوں نے اتباع رسول ﷺ کو اپنا شعار بنا لیا تھا، ہر صحابی اتباع کے جذبے سےسر شار تھا، ایمان کی تازگی کے لئے چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں۔
حضرت حذیفہ بن یمان ایک بار ایران کے بادشاہ کسریٰ کے شاہی دستر خوان پر بیٹھے تھے،کہ کھانے کے دوران ہاتھ سے نوالہ گر گیا وہ اسکو اٹھاکر کھانے لگے، تو ایک صاحب نے کہا یہ موقعہ گرے ہوئے لقمے کے کھانے کا نہیں یہ بادشاہ کسریٰ کا دسترخوان ہے،
انہوں نے جو جواب دیا وہ اگر سونے کے پانی سے لکھا جائے تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہوگا،
فرمایا : "أ أترک سنة حبیبی لھٰؤلاء الحمکاء ، "کیا میں ان بے وقوفوں کی وجہ سے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت چھوڑ دوں ، آپ نے دسترخوان کی سنت ادا کرتے ہوئے اس لقمہ کو اٹھا کر کھا لیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، ایک درزی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، میں بھی آپ کے ساتھ موجود تھا، اس نے روٹی اور شوربہ پیش کیا، جس میں خشک گوشت کی بوٹیاں اور کدو کے ٹکڑے تھے ، میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کدو یعنی لوکی تلاش کر کے تناول فرما رہے ہیں، اس کے بعد میں بھی کدو کو پسند کرنے لگا ۔
حضرت امّ درداء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں :کہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ جب بھی بات فرماتے تو مسکراتے، میں نے عرض کی، آپ اپنی اس عادت کو ترک فرما دیجئے، ورنہ آپ کو لوگ احمق کہنے لگیں گے، حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : کہ میں نے جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات کرتے ہوئے دیکھا تو آپ مسکراتے ہوئے بات کرتے تھے،لہذا اپنے محبوب کی اس سنت کو نہیں چھوڑ سکتا۔
حضرت ابنِ عمر  حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر اس قدر عمل کرتے تھے کہ سفر میں بلاضرورت آپ لیٹ جاتے اور بغیر ضرورت کے قضاء حاجت کے لیے بیٹھ جاتے، پوچھنے پر یہی جواب دیتے، کہ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، آپ اکثر یہ آیت تلاوت فرماتے تھے: "لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة ” ترجمہ : تمہارے لئے حضورﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے،
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓکے متعلق آتا ہے کہ آپؓ ایک مرتبہ مسجد کی طرف آرہےتھے کہ آپؓ کے کانوں میں آنحضورؐ کی آواز پڑی کہ بیٹھ جاؤ۔ آپ وہیں بیٹھ گئے اور گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف آنے لگے۔ ایک دیکھنے والے نے آپؓ سے کہا کہ آنحضورؐنے تو مسجد میں کھڑے لوگوں کو کہا تھا کہ بیٹھ جاؤ۔ آپؓ کو تو نہیں کہا تھا، اس پر حضرت عبد الله بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اگر وہاں پہنچتے پہنچتے میری جان نکل جائے تو میں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا کہ خدا کے رسولؐ کی طرف سے ایک آواز میرے کانوں میں پڑی اور میں نے اس پر عمل نہیں کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا : میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ وہ کام ہے جسے حضور نبی اکرم ﷺ نے ادا فرمایا ہے پس ہم نہیں چاہتے کہ اسے ترک کر دیں۔
مولانا نے کہا : صحابہ کے ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ صحیح اور سچے عاشق تو صحابہؓ تھے، آج ہم تو صرف عشق رسول صلی الله عليه وسلم کےدعویدار ہیں، حبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محض نعرہ لگانے والے ہیں، بقول امام شافعیؒ ۔۔۔۔۔

تَعْصِي الإِله وَأنْتَ تُظْهِرُ حُبَّهُ
ھٰذا محالٌ في القياس بديعُ

لوْ كانَ حُبُّكَ صَادِقاً لأَطَعْتَهُ
انَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيعُ

ترجمہ: تو خدا کی نافرمانی کر رہا ہے اور محبت کا اظہار بھی کر رہا ہے، یہ بہت انوکھی بات ہے، اگر تمہیں سچی محبت ہوگی تو تم مطیع و فرمانبردار ہوگے، کیونکہ مُحب محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔
اس لئے میرے دینی بھائیو ! ہم عاشق رسول اس وقت کہلائیں گے جب ہم مکمل سنت پر عمل پیرا ہونگے، اور آقا ﷺ سے جو چیز جس قدر، جس انداز میں، جس کیفیت سے، ثابت ہو اتنے ہی پر اکتفا، کرنا اپنے لئے ضروری سمجھیں گے، خرافات و بدعات رسوم ورواج سے مکمل پرہیز کریں گے، لیکن اگرہم حکمِ الہٰی سے بغاوت، راہِ سنت سے بغاوت، اسلامی شریعت سے بغاوت، فطرت سے بغاوت کریں گے، طرح طرح کی تکلفات میں پڑیں گے، اسراف وفضول خرچی کے عادی ہونگے،غیروں کی نقالی میں اپنی کامیابی سمجھیں گے،فیشن پرستی اور بے حیائی کو ترقی کا زینہ سمجھیں گے، تو ہمیں اللہ عزوجل کی خوشنودی نہیں مل سکے گی بلکہ باری تعالیٰ کا غضب ہم پر نازل ہوگا، اگر ہم قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گذار کر اس دنیا سے جائیں گے تو جنت میں ہمارا ٹھکانہ ہوگا۔۔۔۔
نبیؐ کے طریقے سے قدم جو بھی ہٹائے گا
کبھی رستہ نہ پائے گا کبھی منزل نہ پائے گا
اللہ عزوجل ہمیں مکمل قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے، اور ہمارے دلوں میں حضور ﷺ کی کامل محبت پیدا فرمائے آمین۔

Related posts

معھد عبداللہ بن مسعودلتحفیظ القرآن میں سالانہ تعلیمی مظاہرہ ودستاربندی کاانعقاد

Siyasi Manzar

ڈاکٹر شبلی ملک کا انتقال،آبائی گاؤں اونرہوا میں تدفین آج

Siyasi Manzar

بی جے پی اقلیتی محاذ نے پی ایم کی کال پر مذہبی مقامات پر صفائی مہم کا آغاز کیا

Siyasi Manzar