ایڈوکیٹ شاہد ندیم
(قانونی صلاح کار جمعیۃ علماء ہند)
عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون 1991 /کے خلاف داخل پانچ پٹیشن اور اس قانون کی حمایت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل ایک پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس سنجیو کھنہ نے 12/ دسمبر کو اہم فیصلہ صادر کرتے ہوئے مسلم عبادت گاہوں کے خلاف داخل مقدمات پر اسٹے لگا دیا۔ سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں میں جاری مقدمات پر نا صرف اسٹے لگایا بلکہ نئے مقدمات درج کرنے اور عبادت گاہوں کے سروے پر بھی روک لگا دی۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ حقیقی معنوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ چیف جسٹس نے یہ فیصلہ حکومت ہند کی مخالفت کے باوجود دیا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن نے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی جانب سے کی گئی تاریخی غلطی کو درست کردیا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس تناظر میں اہم ہے کہ فرقہ پرست عناصر یکے بعد دیگرے مسلم عبادت گاہوں کے خلاف مقدمات داخل کررہے تھے اور سروے کا مطالبہ کررہے تھے۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے جب اسٹے دینے کا ا شارہ کیا تو مرکزی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے بجائے اس قانون کے حق میں بولنے کے فریق مخالف(ہندو فریق) کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آئے اور فریق مخالف نے چیف جسٹس آف انڈیا کو فیصلہ صادر کرنے میں دشواریاں پیدا کی جس کے بعد چیف جسٹس نے ناراضگی کے لہجے میں یہ تک کہہ دیا کہ اگر انہیں فیصلہ صادر کرنے نہیں دیا گیا تو وہ اپنے چیمبر میں جاکر فیصلہ صادر کریں گے لیکن وہ وہی فیصلہ صادر کریں گے جو ضروری اور قانونی ہوگا۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی جانب سے دیا جانے والا یہ عبوری فیصلہ کتنے دن تک برقرار رہے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن چیف جسٹس آف انڈیا نے یہ فیصلہ فریق مخالف(ہندو فریق) کی سخت مخالفت کے بعد دیا ہے، چیف جسٹس کے لیئے یہ قطعی آسان نہیں تھا، سبکدوش چیف جسٹس چندر چوڑ کی طرح وہ بھی مقدمہ کی سماعت کے دوران لیکچر دے کر مرکزی حکومت کو جواب داخل کرنے کا حکم دے کر مقدمہ کی سماعت ملتوی کردیتے لیکن انہوں نے ملک میں امن قائم رکھنے اور قانون کی بالادستی کے لیئے فیصلہ صادر کیاجو فریق مخالف کو شدید ناگوار گذرا، مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اشونی کمار نے چیف جسٹس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیئے اقدامات کرنے کا بیان دیا ہے یعنی کے اشونی کمار اور ان کی حمایت کرنے والے دیگر فریق عدالت کا فیصلہ قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔سنبھل واقعہ کے بعد صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے راقم الحروف کو حکم دیا کہ وہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے موثر نفاذ کے تعلق سے سپریم کورٹ میں التواء کا شکار پٹیشن پر جلداز جلد سماعت کیئے جانے کے تعلق سے موجودہ چیف جسٹس کو خط لکھیں اوران سے ملک میں امن قائم رکھنے کا واسطہ دے کر مقدمہ کی جلد سماعت کیئے جانے کی گذارش کریں۔ مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر راقم الحروف نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے رابطہ قائم کرکے اس تعلق سے لائحہ عمل تیار کیئے جانے کی گذار ش کی جس کے بعد سینئر وکلاء راجو رام چندرن، یوسف ہاتم مچھالہ اور ورندہ گروور کے مشورے سے چیف جسٹس آ ف انڈیا کو 26/ نومبر2024 / خط تحریر کیا گیا۔ خط تحریر کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کو مطلع کیا گیاکہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے سماعت کے لیئے پیش کیئے جانے کا حکم دیا ہے اور انہوں نے اس اہم مقدمہ کی سماعت کے لیئے سہ رکنی خصوصی بینچ کا قیام عمل میں لایا ہے۔ سپریم کورٹ رجسٹری کی جانب سے مقدمہ کی سماعت پیش کیئے جانے کی اطلاع ملنے کے بعد وکلاء کی ٹیم نے ریسرچ کرنا شروع کیا اور پورے ملک میں مسلم عبادت گاہوں کے خلاف جاری مقدمات کی تفصیلات جمع کی اور ماضی کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی یکجا کیا۔چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے معاملہ جیسے پیش ہوا چیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا سے دریافت کیا کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن نمبر 782/2022 پر ابتک مرکزی سرکار کی جانب سے حلف نامہ داخل نہیں کیا گیا لہذا چار ہفتوں میں جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن جس میں انہوں نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے نفاذ کی درخواست کی ہے پر مرکزی سرکا رکا موقف واضح کریں کیونکہ مرکزی سرکار کا موقف جانے بغیر اس قانون کی آئینی حیثیت پر حتمی سماعت نہیں ہوسکتی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کو بتایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر نوٹس 9/ ستمبر 2022 کو ہونے کے بعد چار مرتبہ سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے جواب داخل کرنے کے لیئے وقت طلب کیا ہے۔ مقدمہ کی سماعت میں تاخیر مرکزی سرکار کی جانب سے کی جارہی ہے لہذا عدالت نچلی عدالتوں میں جاری تمام مقدمات پر اسٹے دے۔ راجو رام چندرن کی درخواست کی سالیسٹر جنرل نے سخت لفطوں میں مخالفت کی اور کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی آئین ہند کے آرٹیکل 32/ کے تحت داخل پٹیشن پر عدالت اسٹے آرڈر نہیں جاری کرسکتی کیونکہ جمعیۃ علماء ہند نچلی عدالتوں میں فریق نہیں ہے۔چیف جسٹس آف انڈیا نے دونوں جانب سے اس مقدمہ میں مداخلت کرنے والے فریق کو پہلے ہی کہہ دیا تھاکہ ان کی مداخلت کار کی عرضداشت منظور کی جاتی ہے لیکن ان کے دلائل کی سماعت مرکزی سرکار کا حلف نامہ جمعیۃ علماء ہند اور اشونی کمار اپادھیائے کی پٹیشن پر آجانے کے بعد ہی سماعت کی جائے گی۔ فی الحال انہیں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔چیف جسٹس آ ف انڈیانے اپنے حکم نامہ میں اس بات کا ذکر کیاہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر نوٹس جاری ہونے کے باوجود مرکزی حکومت نے جواب داخل نہیں کیا ہے۔لہذ اانہیں چار ہفتوں کی مہلت دی جاتی ہے۔ دوران سماعت جسٹس کے وی وشوناتھن نے ایک اہم تبصرہ کیاکہ نچلی عدالتیں سپریم کورٹ کے ساتھ ریس نہیں لگا سکتی ہیں یعنی جب سپریم کورٹ اس مقدمہ کی سماعت کررہی ہے تو نچلی عدالتیں ایسے مقدمات کی سماعت نہیں کرسکتی ہیں کیونکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون 1991 / کی آئینی حیثیت برقرار رکھنے کا ا پانچ ججوں کی آئینی بینچ کا فیصلہ ہمارے سامنے موجود ہے۔جسٹس وشوناتھن بابر ی مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ کے فیصلے کے تناظر میں تبصرہ کررہے تھے۔جسٹس وشوناتھن نے سالیسٹر جنرل سے مزید کہاکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی شق 3اور 4/ نچلی عدالتوں کو مقدمات کی سماعت کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتی ہیں لہذا وہ عدالت کو اپنے حلف نامہ میں بتائیں کہ نچلی عدالتوں کو مذہبی مقامات کے تعلق سے داخل عرضداشتوں پر سماعت کرنے کی کیسے اجازت دی جائے۔ یونین آف انڈیا پر بہت بڑی ذمہ داری ہے پارلمینٹ کی جانب سے بنائے گئے قوانین کی حفاظت کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی۔سالیسٹر جنرل آف انڈیا گذشتہ چار سالوں سے عدالت کو ٹہلا رہے تھے اوروہ جان بوجھ کر مرکزی سرکار کاموقف بذریعہ حلف نامہ داخل کرنے سے کترا رہے تھے، اب جبکہ سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں میں جاری مقدمات پر اسٹے دے دیا ہے، ناچاہتے ہو ئے بھی سالیسٹر جنرل آف انڈیا کو حلف نامہ داخل کرنا ہوگا ورنہ اسٹے میں توسیع ہوتی رہے گی۔سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ مرکزی حکومت کی گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ہندو فریق کا یہ دعوی ہے کہ 1991 / میں کانگریس حکومت نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیئے یہ قانون بنایا تھا اور جس وقت پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس ہوا اس وقت کانگریس کے پاس بھرپور اکثریت تھی لہذا اپوزیشن اس کی مخالفت نہیں کرسکا۔یہ قانون غیر آئینی ہے جسے ختم کیا جانا چاہئے۔
عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون 1991 /کے خلاف داخل پانچ پٹیشن اور اس قانون کی حمایت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل ایک پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس سنجیو کھنہ نے 12/ دسمبر کو اہم فیصلہ صادر کرتے ہوئے مسلم عبادت گاہوں کے خلاف داخل مقدمات پر اسٹے لگا دیا۔ سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں میں جاری مقدمات پر نا صرف اسٹے لگایا بلکہ نئے مقدمات درج کرنے اور عبادت گاہوں کے سروے پر بھی روک لگا دی۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ حقیقی معنوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ چیف جسٹس نے یہ فیصلہ حکومت ہند کی مخالفت کے باوجود دیا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن نے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی جانب سے کی گئی تاریخی غلطی کو درست کردیا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس تناظر میں اہم ہے کہ فرقہ پرست عناصر یکے بعد دیگرے مسلم عبادت گاہوں کے خلاف مقدمات داخل کررہے تھے اور سروے کا مطالبہ کررہے تھے۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے جب اسٹے دینے کا ا شارہ کیا تو مرکزی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے بجائے اس قانون کے حق میں بولنے کے فریق مخالف(ہندو فریق) کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آئے اور فریق مخالف نے چیف جسٹس آف انڈیا کو فیصلہ صادر کرنے میں دشواریاں پیدا کی جس کے بعد چیف جسٹس نے ناراضگی کے لہجے میں یہ تک کہہ دیا کہ اگر انہیں فیصلہ صادر کرنے نہیں دیا گیا تو وہ اپنے چیمبر میں جاکر فیصلہ صادر کریں گے لیکن وہ وہی فیصلہ صادر کریں گے جو ضروری اور قانونی ہوگا۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی جانب سے دیا جانے والا یہ عبوری فیصلہ کتنے دن تک برقرار رہے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن چیف جسٹس آف انڈیا نے یہ فیصلہ فریق مخالف(ہندو فریق) کی سخت مخالفت کے بعد دیا ہے، چیف جسٹس کے لیئے یہ قطعی آسان نہیں تھا، سبکدوش چیف جسٹس چندر چوڑ کی طرح وہ بھی مقدمہ کی سماعت کے دوران لیکچر دے کر مرکزی حکومت کو جواب داخل کرنے کا حکم دے کر مقدمہ کی سماعت ملتوی کردیتے لیکن انہوں نے ملک میں امن قائم رکھنے اور قانون کی بالادستی کے لیئے فیصلہ صادر کیاجو فریق مخالف کو شدید ناگوار گذرا، مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اشونی کمار نے چیف جسٹس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیئے اقدامات کرنے کا بیان دیا ہے یعنی کے اشونی کمار اور ان کی حمایت کرنے والے دیگر فریق عدالت کا فیصلہ قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔سنبھل واقعہ کے بعد صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے راقم الحروف کو حکم دیا کہ وہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے موثر نفاذ کے تعلق سے سپریم کورٹ میں التواء کا شکار پٹیشن پر جلداز جلد سماعت کیئے جانے کے تعلق سے موجودہ چیف جسٹس کو خط لکھیں اوران سے ملک میں امن قائم رکھنے کا واسطہ دے کر مقدمہ کی جلد سماعت کیئے جانے کی گذارش کریں۔ مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر راقم الحروف نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے رابطہ قائم کرکے اس تعلق سے لائحہ عمل تیار کیئے جانے کی گذار ش کی جس کے بعد سینئر وکلاء راجو رام چندرن، یوسف ہاتم مچھالہ اور ورندہ گروور کے مشورے سے چیف جسٹس آ ف انڈیا کو 26/ نومبر2024 / خط تحریر کیا گیا۔ خط تحریر کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کو مطلع کیا گیاکہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے سماعت کے لیئے پیش کیئے جانے کا حکم دیا ہے اور انہوں نے اس اہم مقدمہ کی سماعت کے لیئے سہ رکنی خصوصی بینچ کا قیام عمل میں لایا ہے۔ سپریم کورٹ رجسٹری کی جانب سے مقدمہ کی سماعت پیش کیئے جانے کی اطلاع ملنے کے بعد وکلاء کی ٹیم نے ریسرچ کرنا شروع کیا اور پورے ملک میں مسلم عبادت گاہوں کے خلاف جاری مقدمات کی تفصیلات جمع کی اور ماضی کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی یکجا کیا۔چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے معاملہ جیسے پیش ہوا چیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا سے دریافت کیا کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن نمبر 782/2022 پر ابتک مرکزی سرکار کی جانب سے حلف نامہ داخل نہیں کیا گیا لہذا چار ہفتوں میں جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن جس میں انہوں نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے نفاذ کی درخواست کی ہے پر مرکزی سرکا رکا موقف واضح کریں کیونکہ مرکزی سرکار کا موقف جانے بغیر اس قانون کی آئینی حیثیت پر حتمی سماعت نہیں ہوسکتی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کو بتایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر نوٹس 9/ ستمبر 2022 کو ہونے کے بعد چار مرتبہ سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے جواب داخل کرنے کے لیئے وقت طلب کیا ہے۔ مقدمہ کی سماعت میں تاخیر مرکزی سرکار کی جانب سے کی جارہی ہے لہذا عدالت نچلی عدالتوں میں جاری تمام مقدمات پر اسٹے دے۔ راجو رام چندرن کی درخواست کی سالیسٹر جنرل نے سخت لفطوں میں مخالفت کی اور کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی آئین ہند کے آرٹیکل 32/ کے تحت داخل پٹیشن پر عدالت اسٹے آرڈر نہیں جاری کرسکتی کیونکہ جمعیۃ علماء ہند نچلی عدالتوں میں فریق نہیں ہے۔چیف جسٹس آف انڈیا نے دونوں جانب سے اس مقدمہ میں مداخلت کرنے والے فریق کو پہلے ہی کہہ دیا تھاکہ ان کی مداخلت کار کی عرضداشت منظور کی جاتی ہے لیکن ان کے دلائل کی سماعت مرکزی سرکار کا حلف نامہ جمعیۃ علماء ہند اور اشونی کمار اپادھیائے کی پٹیشن پر آجانے کے بعد ہی سماعت کی جائے گی۔ فی الحال انہیں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔چیف جسٹس آ ف انڈیانے اپنے حکم نامہ میں اس بات کا ذکر کیاہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر نوٹس جاری ہونے کے باوجود مرکزی حکومت نے جواب داخل نہیں کیا ہے۔لہذ اانہیں چار ہفتوں کی مہلت دی جاتی ہے۔ دوران سماعت جسٹس کے وی وشوناتھن نے ایک اہم تبصرہ کیاکہ نچلی عدالتیں سپریم کورٹ کے ساتھ ریس نہیں لگا سکتی ہیں یعنی جب سپریم کورٹ اس مقدمہ کی سماعت کررہی ہے تو نچلی عدالتیں ایسے مقدمات کی سماعت نہیں کرسکتی ہیں کیونکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون 1991 / کی آئینی حیثیت برقرار رکھنے کا ا پانچ ججوں کی آئینی بینچ کا فیصلہ ہمارے سامنے موجود ہے۔جسٹس وشوناتھن بابر ی مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ کے فیصلے کے تناظر میں تبصرہ کررہے تھے۔جسٹس وشوناتھن نے سالیسٹر جنرل سے مزید کہاکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی شق 3اور 4/ نچلی عدالتوں کو مقدمات کی سماعت کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتی ہیں لہذا وہ عدالت کو اپنے حلف نامہ میں بتائیں کہ نچلی عدالتوں کو مذہبی مقامات کے تعلق سے داخل عرضداشتوں پر سماعت کرنے کی کیسے اجازت دی جائے۔ یونین آف انڈیا پر بہت بڑی ذمہ داری ہے پارلمینٹ کی جانب سے بنائے گئے قوانین کی حفاظت کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی۔سالیسٹر جنرل آف انڈیا گذشتہ چار سالوں سے عدالت کو ٹہلا رہے تھے اوروہ جان بوجھ کر مرکزی سرکار کاموقف بذریعہ حلف نامہ داخل کرنے سے کترا رہے تھے، اب جبکہ سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں میں جاری مقدمات پر اسٹے دے دیا ہے، ناچاہتے ہو ئے بھی سالیسٹر جنرل آف انڈیا کو حلف نامہ داخل کرنا ہوگا ورنہ اسٹے میں توسیع ہوتی رہے گی۔سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ مرکزی حکومت کی گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ہندو فریق کا یہ دعوی ہے کہ 1991 / میں کانگریس حکومت نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیئے یہ قانون بنایا تھا اور جس وقت پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس ہوا اس وقت کانگریس کے پاس بھرپور اکثریت تھی لہذا اپوزیشن اس کی مخالفت نہیں کرسکا۔یہ قانون غیر آئینی ہے جسے ختم کیا جانا چاہئے۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ناصرف مودی سرکاری کو دھچکہ لگاہے بلکہ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی (صدروراٹ ہندو ستان سنگم)کو بھی زبردست دھچکہ لگا ہے جنہوں نے 1856/مسلم عبادت گاہوں پر دعوی کیا ہے جبکہ بشمول اجمیر شریف درگاہ اور دیگر تاریخی اور مذہبی اہمیت کی حامل مساجد پر اٹھارہ مقامات پر مقدمہ قائم کیئے جاچکے ہیں جس میں گیان واپی کاشی وشوناتھن، جامع مسجد منگلور، جامع مسجد شمشی، شری کرشنا جنم بھومی شاہی عید گاہ متھورا، ٹیلے والی مسجد لکھنؤ، بھوج شالہ کمال مولی مسجد مدھیہ پردیش، قوت الالسلام مسجدقطب مینار، جامع مسجد سنبھل، اٹالہ مسجد جونپورو دیگر شامل ہیں۔ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق15،اگست 1947 /کو ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعات 3 اور 4کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھااس کے باوجود جسٹس چند رچوڑ کے ایک زبانی تبصرے ملک کا امن خراب کردیا تھاجس پر سپریم کورٹ نے عبوری روک لگا دی۔ مسلم عبادت گاہوں کے سروے کا معاملہ نہایت حساس ہوچکاتھا، نچلی عدالتوں کی جانب سے سروے کا حکم ہوتے ہی مسلمان سڑکوں پر اتر جاتے ہیں، مسلمانوں کے پر امن احتجاج کوانتظامیہ نقض امن میں خلل قرار دے کر انہیں پولس زیادتیوں کا نشان بنایا جارہا تھا لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے فی الحال اس پر روک لگا دی ہے۔چیف جسٹس کی بروقت مداخلت مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت اور ملک میں امن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کریگا۔حالانکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے خلاف اشونی کمار اپادھیائے نے2020/ میں پٹیشن داخل کی تھی، جس وقت پٹیشن پر پہلی سماعت ہوئی تھی جمعیۃ علماء کے وکلاء بشمول احقر بطور مداخلت کار عدالت میں موجود تھے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیئے جانے کے باوجود نچلی عدالتوں میں مقدمات داخل ہوناشروع ہوچکے تھے۔ 2022 میں سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کے مشورے سے گلزار اعظمی (مرحوم)نے اس قانون کے نفاذ کے لیئے خصوصی پٹیشن داخل کی تھی جس پر 12/ دسمبر کو سماعت عمل میں آئی۔ مسلم تنظیموں، سیاسی اور سماجی شخصیتوں کی جانب سے اشونی کمار اور ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی پٹیشن میں مداخلت کی گئی لیکن کسی بھی تنظیم یا شخصیت نے اس قانون کے موثر نفاذ کے لیئے خصوصی پٹیشن نہیں داخل کی ہے، یہ گلزار اعظمی کی دور اندیشی تھی کے انہوں نے راقم الحروف کو عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے موثر نفاذ کے لیئے خصوصی پٹیشن داخل کرنے کے لیئے لائحہ عمل تیار کیئے جانے کا حکم دیا تھا۔عبادت گاہوں کے قانون کے موثر نفاذ کے لیئے اگر جمعیۃ علماء خصوصی پٹیشن داخل نہیں کرتی تو بہت ممکن تھا یہ مقدمہ سماعت کے لیئے پیش نہیں ہوتا اور سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹے کا حکم نہیں ہوتا کیونکہ اس قانون کی مخالفت میں داخل کی گئی پٹیشن پر سماعت نہ ہونے کا فائدہ ہندو فریق کو مسلسل مل رہا تھاکیونکہ نچلی عدالتیں مقدمات کی سماعت کررہی تھیں۔گلزار اعظمی کے انتقال کے بعد نائب صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید اسجد مدنی سپریم کورٹ میں داخل اس اہم پٹیشن میں عرض گذار بنے ہیں۔عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تعلق سے سپریم کورٹ میں 2020میں مقدمہ قائم ہونے سے لیکر ابتک راقم الحروف نے سینئر وکلاء کے ساتھ مقدمہ کی سماعت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے حصہ لیاہے۔اس مقدمہ کی سنگینی اور حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے تینوں فریق یعنی قانون کی حمایت،مخالفت اور حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیئے ملک کے نامور کلاء نے عدالتی کارروائی میں حصہ لیا۔عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے حق میں سینئر وکلا،راجو رام چندرن، ڈاکٹر ابھیشک منو سنگھوی، دشینت دوے، سلمان خورشید، حذیفہ احمدی، نتیا راما کرشنن، اندرا جئے سنگھ، سنجے ہیگڑے،سی یو سنگھ،یوسف ہاتم مچھالہ، پی وی دنیش، ایم آر شمشاد،شادان فراست، ورندہ گروور پیش ہوئے جبکہ اس قانون کے خلاف سینئر وکلاء مکل روہتگی، سی ویدیا ناتھن، راکیش دیویدی، وکاس سنگھ،وجئے ہنساریہ،منندر سنگھ،سونیا ماتھور،اشوک مہتا،ارونیشور گپتا،جئے سائی دیپک،پنکی آنند، امن سنہا،گرو کرشنا کمار، نچیکتا جوشی،گورو بھاٹیہ و دیگر پیش ہوئے جبکہ حکومت کی نمائندگی سالیسٹر جنر آف انڈیا تشار مہتا اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا کے ایم نٹراج نے کی۔
سپریم کورٹ آ ف انڈیا میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے حق میں جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، اے پی سی آر، انجمن انتظامیہ مسجد ورانسی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، جتیندر اہواڑ، سمستھا کیرالا جمعیۃ علماء، انڈین یونین مسلم لیگ،پروفیسر منوج کمار جھا، کمیٹی آف انتظامیہ شاہی مسجد عید گاہ متھورا، جاوید احمد انصاری، ڈاکٹر تھول تھروموالاون، تشار گاندھی، آل انڈیا لائرس یونین (دہلی یونٹ)، پیس پارٹی، رضا اکیڈمی، دیب مکھرجی ودیگر نے مداخلت کار کی عرضداشتیں داخل کی ہیں جبکہ اس قانون کے خلاف اشونی کمار اپادھیائے، ڈاکٹر سبرامنیم سوامی، چندر شیکھر،بملا کاشتھرایا، دیواکی نندن ٹھاکر، دھروتی من جوشی، وشو بھدرا پجاری مہاسنگھ، کرونیش کمار شکلا،انیل کما ر ترپاٹھی و دیگر نے مداخلت کار اور پٹیشن داخل کی ہے۔
سپریم کورٹ آ ف انڈیا میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے حق میں جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، اے پی سی آر، انجمن انتظامیہ مسجد ورانسی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، جتیندر اہواڑ، سمستھا کیرالا جمعیۃ علماء، انڈین یونین مسلم لیگ،پروفیسر منوج کمار جھا، کمیٹی آف انتظامیہ شاہی مسجد عید گاہ متھورا، جاوید احمد انصاری، ڈاکٹر تھول تھروموالاون، تشار گاندھی، آل انڈیا لائرس یونین (دہلی یونٹ)، پیس پارٹی، رضا اکیڈمی، دیب مکھرجی ودیگر نے مداخلت کار کی عرضداشتیں داخل کی ہیں جبکہ اس قانون کے خلاف اشونی کمار اپادھیائے، ڈاکٹر سبرامنیم سوامی، چندر شیکھر،بملا کاشتھرایا، دیواکی نندن ٹھاکر، دھروتی من جوشی، وشو بھدرا پجاری مہاسنگھ، کرونیش کمار شکلا،انیل کما ر ترپاٹھی و دیگر نے مداخلت کار اور پٹیشن داخل کی ہے۔