Siyasi Manzar
مضامین

سعودی عرب کا یومِ تاسیس: ایک تاریخی تجزیہ


ڈاکٹر عبد الغنی القوفی
alqoofi@hotmail.com
استاد جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال وصدر عمومی راشٹریہ مدرسہ سنگھ نیپال

مملکت انسانیت سعودی عرب کا یومِ تاسیس ایک ایسا موقع ہے جو مملکت کی تاریخی جڑوں اور ترقی کے سفر کی یاد دہانی کراتا ہے۔ یہ دن 22 فروری 1727ء کی یاد میں منایا جاتا ہے جب امام محمد بن سعود نے پہلی سعودی ریاست کی بنیاد رکھی۔ سعودی عرب ایک ایسی ریاست ہے جو اپنے مضبوط اسلامی اصولوں، اقتصادی ترقی، اور عالمی سیاست میں اثر و رسوخ کی وجہ سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔ اس تحریر میں ہم مملکت کے قیام کے پس منظر، تدریجی ترقی، انسانی خدمات، عالم اسلام کے لیے تاریخی خدمات، عالمی سیاست پر اثر، ویژن 2030، اور ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت کا سرسری سا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
سعودی حکومت کا قیام اور اس کا پس منظر
سعودی عرب کی بنیاد 1727ء میں رکھی گئی جب امام محمد بن سعود رحمہ اللہ نے درعیہ میں ایک مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ یہ حکومت اسلامی اصولوں پر استوار تھی اور اس کا مقصد عرب خطے میں استحکام اور عدل و انصاف کا فروغ تھا۔ 1818ء میں پہلی سعودی ریاست کا خاتمہ ہوا، لیکن 1824ء میں امام ترکی بن عبداللہ نے دوسری سعودی ریاست کی بنیاد رکھی، جو 1891ء تک قائم رہی۔ 1902ء میں شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے ریاض پر دوبارہ قبضہ کر کے جدید سعودی ریاست کی بنیاد رکھی، جسے 23 ستمبر 1932ء کو مملکتِ سعودی عرب کے طور پر باضابطہ طور پر متحد کیا گیا۔
مملکت کی تدریجی ترقی
سعودی عرب کی ترقی کا سفر کئی مراحل پر مشتمل ہے:
تیل کی دریافت (1938ء): سعودی عرب کے مشرقی علاقے میں تیل کی دریافت نے مملکت کی معیشت میں انقلاب برپا کر دیا۔
معاشی استحکام: ورلڈ اکنامک جرنل کے مطابق سعودی عرب کی جی ڈی پی 2024ء میں 1.083 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
شاہی اصلاحات: 1970ء کے بعد سے مملکت میں مختلف اقتصادی اور سماجی اصلاحات کی گئیں تاکہ جدید ترقی کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔

بنیادی ڈھانچے کی ترقی: 1980ء کی دہائی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین شریفین کی توسیع کے منصوبے شروع کیے گئے۔
انسانی خدمات میں سعودی عرب کا کردار
سعودی عرب ہر سال 100 سے زائد ممالک کو 8 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کرتا ہے۔
اسلامی ترقیاتی بینک کے ذریعے مسلم ممالک کی مالی مدد کی جاتی ہے۔
عالمی مسلم طلبہ کے لیے سالانہ 15,000 سے زائد فری اسکالرشپس دی جاتی ہیں۔
صحت، تعلیم اور بنیادی انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
عالم اسلام کے لیے خدمات
حج و عمرہ کی سہولیات:
وزیر حج جناب ڈاکٹر توفیق الربیعہ کے مطابق 2024ء میں ساڑھے اٹھارہ ملین سے زائد افراد نے حج وعمرہ ادا کیا۔
نیز 2030ء تک 30 ملین عازمین عمرہ کی سہولت کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حرمین شریفین کی توسیع پر 100 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ خرچ کیے جا چکے ہیں۔
قرآن کریم کی طباعت و نشر و اشاعت:
شاہ فہد قرآن کمپلیکس میں ہر سال 10 ملین سے زائد نسخے شائع کیے جاتے ہیں۔
مسلم طلبہ کے لیے تعلیمی سہولتیں:
اسلامی یونیورسٹی مدینہ، ام القریٰ یونیورسٹی، اور کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی، کنگ سعود یونیورسٹی،  کنگ عبد اللہ یونیورسٹی،  تبوک یونیورسٹی،  پرنسس نورہ یونیورسٹی فار گرلس، امام محمد بن سعود یونیورسٹی اور دیگر سعودی یونیورسٹیز میں بین الاقوامی مسلم طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔

عالمی سیاست پر سعودی عرب کا اثر
سعودی عرب جی 20 کا واحد عرب رکن ہے۔
اوپیک (OPEC) کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور عالمی توانائی کے شعبے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
فلسطین اور دیگر اسلامی اقلیتوں کے حقوق کے لیے مسلسل حمایت فراہم کرتا ہے۔
ویژن 2030: مملکت کے مستقبل کا روڈ میپ
معیشت کا تنوع: 2030ء تک نان آئل سیکٹر کا حصہ 50% تک بڑھانے کا ہدف۔
سیاحت: نیوم سٹی، القدیہ، البحر الأحمر، اور دیگر بڑے منصوبے شامل ہیں۔
خواتین کی شرکت: 2016ء میں خواتین کی لیبر فورس میں شرکت 17% تھی، جو 2024ء میں 36.2% تک بڑھ چکی ہے۔
ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن: 5G ٹیکنالوجی کی ترقی میں مملکت دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔
محمد بن سلمان کی قائدانہ شان
2017ء میں کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کے ذریعے سعودی معیشت میں شفافیت کو فروغ دیا۔
نیوم سٹی اور دیگر میگا پراجیکٹس کے ذریعے سعودی معیشت میں تنوع پیدا کیا۔
سعودی عرب کو عالمی سطح پر جدید اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر متعارف کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
2023ء میں سعودی عرب نے کھیلوں، تفریحی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں 500 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔
کھیلوں کے شعبہ میں 2024 میں تقریباً 26.1 بلین ریال کا تخمینہ تھا، جبکہ 2025 میں اس کا حجم بڑھ کر تقریباً 31.6 بلین ریال کا ہے، جو تقریباً 21 فیصد کی ترقی کا اشاریہ ہے۔
سعودی عرب کی تاریخ، ترقی، اور عالمی اثر و رسوخ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ملک ایک مضبوط اسلامی اور معاشی قوت کے طور پر ابھرا ہے۔ یومِ تاسیس کے موقع پر، سعودی عرب کی ترقی، عالم اسلام کے لیے اس کی خدمات اور ویژن 2030 کے ذریعے مستقبل کے روشن امکانات کا کھلے طور پر جائزہ لینا ضروری ہے۔ امیر محمد بن سلمان کی قیادت میں مملکت مزید ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن ہے، جو ان شاء اللہ ایک جدید، مستحکم اور خوشحال سعودی عرب کی بنیاد رکھے گا۔

Related posts

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پدرانہ معاشرے کا رویہ کب بدلے گا؟

Siyasi Manzar

اسلام امن و سلامتی کا مذہب

Siyasi Manzar

کیا یہودی اور عیسائی ایک ہیں؟

Siyasi Manzar