کاندیولی /ممبئی:24 اپریل (پریس ریلیز) قدیم زمانے سے یہ بات گاہے بگاہے اخبارات اور رسائل کے حوالے سے گردش میں آتی رہتی ہے کہ قبروں پر پختہ تعمیر اور ان پر مزارات بنانا گویا کی ایک اسلامی اور شرعی عمل ہے حالانکہ کسی بھی عمل کو شرعی اور اسلامی ثابت کرنے کے لیے کتاب و سنت اور صحابہ کرام کے اقوال و آراء یا کم از کم فقہی مذاہب میں اس کے تعلق سے جواز اور صحت کی کوئی ٹھوس بنیاد ہونی چاہیے اور مسلمانوں کا ہمیشہ یہ شعار رہنا چاہیے کہ وہ نفس پرستی، تعصب اور فقہی جمود سے باہرنکل کرٹھوس اورمستند دلائل کی روشنی میں کوئی رائے قائم کریں یافتوی صادر فرمائیں چنانچہ صورت مذکورہ یعنی قبروں کو پختہ بنانے کے تعلق سے جب شرعی نصوص اور کتاب و سنت کے دلائل پر تحقیقی نگاہ ڈالی جاتی ہے تو یہ بات روز ر شن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قبروں کو پختہ بنانا یا ان پرکسی طرح کی کوئی تعمیر کرنا جائز اور درست نہیں ہے. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ رسالت ،عہد صحابہ اور قرون مفضلہ میں امت اسلامیہ اسی پرعمل پیرا تھی چنانچہ قبریں زمین سے صرف ایک بالشت اونچی رہتی تھی اور ان پر کوئی تعمیر، کوئی چونا گچ نہیں کیاجاتا تھا بلکہ کسی بھی طرح سے انہیں پختہ بنانے سے شدید احتراز کیا جاتا تھا اور یہی عمل اہل علم اور دانش کی تحقیقات خاص طور پر ائمہ اربعہ اور معروف فقہی مذاہب کے یہاں بھی مفتی بہ ہے، تمام فقہی مذاہب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبروں کو پختہ بنانا کسی بھی شکل اور صورت میں جائز اور درست نہیں بعض متاخرین علماء نے یا بعض اہل مسالک نے قبروں کی پختگی اور اس پر مزارات کی تعمیر کے لئے جو دلیلیں دی ہے وہ انتھائی بے جوڑ اور بے معنی ہیں اورمستند دلائل وبراہین کی روشنی میں صحیح اور درست نہیں۔ احادیث مبارکہ میں اللہ کے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت صریح طور پر جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ قبروں کو پختہ بنانادرست نھیں ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں یہ بات صراحتا وارد ہے جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےقبر پر چونا گچ کرنے، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے،(صحیح مسلم،کتاب الجنائز-970/سنن ابی داؤد،حدیث نمبر-3225/سنن ترمذی،حدیث نمبر-1052)معروف حنفی فقیہ علامہ ابن عابدين اس بابت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہقبر پر کسی طرح کی کوئی تعمیرکرنا،گھر بنانایااس پر قبہ وغیرہ بنانا ناپسندیدہ ہے(الدر المختار وحاشيہ ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 237)کتاب الآثار امام محمد رحمہ اللہ /ص ۸۹ میں لکھا ہے:کہ قبر کو چونا گچ کرنا اور اس کو لیپنا یا اس کے پاس مسجد یا نشان بنانا یا اس پر اور کوئی مکان بنانا یا پختہ کرنا مکروہ یعنی ممنوع ہے یہ قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔اور “الموسوع الفقيہ ” (11/342)میں اسی بات پر فقہائے کرام کا اتفاق نقل کیا گیا ہے.اسی لیے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس پر تمام ائمہ اسلام کااتفاق نقل کیا ہے۔فقیہ علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بہت پیاری بات تحریرکی ہےوہ لکہتے ہیں کہ:“قبرستان فوت شدگان کا علاقہ ہے، زندہ افراد وہاں نہیں رہتے کہ وہاں پر زیب و زیبائش کا کام کیا جائے، اور سیمنٹ پر مرثیے لکھے جائیں، قبرستان فوت شدگان کا علاقہ ہے، اس لئے قبرستان کو اسی حالت میں رکھا جائے جس حالت میں موجود ہے، تا کہ قبرستان کے پاس سے گزرنے والے لوگ نصیحت حاصل کریں، اور صحیح حدیث میں بریدہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(میں تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا کرتا تھا، اب زیارت کیلئے جایا کرو، بلاشبہ اس سے آخرت کی یاد آتی ہے)اور اگر ہم نے لوگوں کیلئے قبروں کو پختہ بنانے، اور ان پر کتابت کرنے کی اجازت دے دی تو ان قبروں پر بھی فخر شروع ہوجائے گا، اور قبرستان زندہ افراد کیلئے نصیحت کی جگہ نہیں رہے گی، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے، اور اس پر عمارت کھڑی کرنے، قبر پر کتابت، اور قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے معامالات سے منع فرمایا دیا جو قبروں کے بارے میں غلو کا سبب بن سکتے تھے، اسی طرح ایسے معاملات سے بھی منع فرمایا جن میں اہل قبور کی اہانت تھی، اس لئے قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا (فتاویٰ نور عل الدرب” (196 / 34)اس لئے اہل اسلام کو چاہئے کہ مستند دلائل کی روشنی میں اپنے ایمان اور عقیدے کی اصلاح کریں اور کتاب وسنت اور ائمہ اجلاء کے فقہی استنباطات سے بھرپور استفادہ کرتے ہویے جو بات دلیل سے ثابت ہو اس پر عمل پیراہوجائیں ۔یہ باتیں ممبیی کے معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالحکیم مدنی کاندیولی،ممبیی نے پریس ریلیز کے طورپرجاری کیں اور اللہ سے دعا کی کہ ہمیں دین اسلام کوسمجھنے اوراس پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی عطافرمایے اور باہمی محبت اوراتحاد کے ساتھ آگے بڑھنے کی سعادت بخشے۔