Siyasi Manzar
مضامین

عطا کا تسلسل: محرومی سے نعمت تک کا سفر

ڈاکٹر محمّد عظیم الدین (اکولہ،مہاراشٹر)

انسانی زندگی کا سلسلہ ایک ابدی بہاؤ جیسا ہے، ایک ایسا سیلِ رواں جس میں خوشی اور غم، کامیابی اور ناکامی، اور پانے اور کھونے کے لمحات ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔کبھی یوں ہوتا ہے کہ ہم اپنی حیات کے ایسے سنگلاخ مراحل سے گزرتے ہیں جہاں کسی عزیز متاع یا جانِ عزیز سے جدائی کی کٹھن گھڑی آن پڑتی ہے۔ یہ نقصان، بظاہر، تلافی سے ماورا، ایک ایسا گھاؤ معلوم ہوتا ہے جس کے اندمال کا تصور بھی محال لگتا ہے، اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا زندگی کی بساط ہی اُلٹ گئی ہے۔ لیکن ا س کائنات کے صانعِ حقیقی کی حکمتِ بالغہ، ہماری عقلِ نارسا کی حدود سے کہیں بلند و بالا، ایک ایسا بحرِ بیکراں ہے جس کی گہرائیوں کا ادراک ہماری محدودعقل و شعور  کے بس کی بات نہیں۔ اللہ عز و جل  کی عطا، ایک مسلسل فیضان ہے، ایک ایسی نہرِ رواں  ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتی، اور محرومی کے پردے میں بھی، غور کیا جائے تو، بے شمار نعمتیں، گنج ہائے گراں مایہ، پوشیدہ ہوتے ہیں، جنہیں وقت آنے پر ہی پہچانا جا سکتا ہے۔

قرآن حکیم، جو کلامِ الٰہی اور  علم و عرفان  کا سرچشمہ ہے، بارہا اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ کائنات کی ہر جنبش، ہر سکون، ہر عطا اور ہر بازیافت، سب خالقِ کائنات کے اذن سے ہیں۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور جو کچھ ہم سے لیا جاتا ہے وہ بھی اسی کا حکم  سے عبارت ہے، اور اس کے  ہر فیصلے میں حکمتیں پوشیدہ  ہیں۔ گویا، اس کی قضا و قدر کے فیصلے، ظاہر میں کچھ بھی ہوں، درحقیقت بندے کے حق میں سراسر خیر ہوتے ہیں۔قرآنِ مجید کی بے شمار آیات اس حقیقت پر روشن دلیل ہیں۔

"وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿١٥٧﴾ "(سورۃ البقرہ، آیات 155 تا 157)

ترجمہ:”اور ہم یقیناً تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ وہ لوگ جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے صلواتیں اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔”

دوسری  جگہ اللہ عز و جل قرآن میں ارشاد فرماتا ہے :

قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ (سورہ الزمر، آیت 10)

ترجمہ:” کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو۔ جو لوگ اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے بھلائی ہے اور اللہ کی زمین وسیع تر ہے۔ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔”

ایک اور مقام پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

أُولَٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (سورہ القصص، آیت 54)

ترجمہ: "یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوگنا دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور برائی کو بھلائی سے دور کرتے رہیں  اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ (اللہ کی راہ میں)کرتے ہیں۔”

ان آیات سے یہ نکتہ عیاں ہوتا ہے کہ آزمائش، زندگی کا ایک اٹل حصہ ہے۔ یہ دراصل ایک کسوٹی ہے جس پر بندے کے ایمان اور صبر کا امتحان لیا جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ ان آزمائشوں پر صبر کا دامن تھامے رہتے ہیں، ان کے لیے بشارتیں ، رحمتیں  اور ہدایت کی راہیں ہیں۔

اسی طرح، احادیث نبوی ﷺ میں بھی اس مضمون کو نہایت بلیغ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ چند احادیث یہاں پیش کی جا رہی ہیں :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔” (بخاری، کتاب المرضی، باب شدۃ المرض، 4 / 4، الحدیث: 5646)

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مسلمان کو جو تکلیف ،رنج، ملال اور اَذِیَّت و غم پہنچے، یہاں تک کہ ا س کے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔” (بخاری، کتاب المرضی، باب ما جاء فی کفارۃ المرض، 4/3، الحدیث: 5641)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مسلمان مرد و عورت کے جان و مال اور اولاد میں ہمیشہ مصیبت رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملتا ہےکہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔” (ترمذی ، کتاب الزهد، باب ما جاء فی الصبر على البلاء، 4 / 179، الحدیث: 2407)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا:”قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے ،کاش!دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔” (ترمذی ، کتاب الزهد، 59-با، 4 / 180، الحدیث: 2410)

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ جب کہ ایسا مومن کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے، تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے، تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔” (صحيح مسلم – کتاب الزہد،باب المؤمن أمره کلمہ  خير، الحدیث 2999)

 یہ تمام احادیث، جو حکمتِ نبوی کا ایک بحرِ بیکراں ہیں، ہمیں ایک لطیف نکتہ سکھاتی ہیں، ایک ایسا جوہرِ گراں بہا کہ مومن کی زندگی کا ہر پہلو، خواہ وہ نشاط و سرور کا ہو یا غم و الم کا، اس کے لیے سرتاپا خیر ہی خیر ہے۔ کیا عجب فلسفہ ہے کہ خوشی میں شکر کا جذبہ، گویا ایک نغمۂ ربّانی، اور مصیبت میں صبر کی روش، گویا ایک امتحانِ الٰہی، دونوں ہی صاحبِ ایمان کے لیے اجر و ثواب کا ایک لامتناہی سلسلہ ہیں۔ گویا، تقدیرِ ازلی پر رضا مندی، اور ہر حال میں اللہ پر توکل، یہی تو مومن کی معراج ہے، یہی اس کی بلند ترین منزل۔ یہ دنیائے رنگ و بو، اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود، ایک آزمائش گاہ ہے، ایک ایسا میدان جہاں ہر آن ایک نیا امتحان، ایک نیا چیلنج، ایک نیا تجربہ منتظر ہے۔ کبھی راحتوں کی بارش ہوتی ہے تو کبھی مصائب کے بادل چھا جاتے ہیں۔ لیکن ایک مومن کا شیوہ، ہر حال میں، ایک ہی ہوتا ہے، اور وہ ہے صبر و شکر کا دامن تھامے رکھنا، گویا کہ یہ دو ایسے بازو ہیں جن سے وہ زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ چند دنیوی مثالوں سے اس حقیقت کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

فرض کیجیے، کسی شخص کی ملازمت چھوٹ جاتی ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک بڑا نقصان، ایک پریشان کن صورتحال ہے۔ لیکن حکمتِ الٰہی کے اسرار و رموز کون جان سکتا ہے؟ کیا خبر کہ قدرت اس کے لیے کسی بلند مرتبے، کسی بہتر معاوضے، کسی زیادہ بابرکت روزگار کی تمہید باندھ رہی ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو قدرت کی جانب سے دس نئے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ یہ دراصل مشیتِ ایزدی کا ایک لطیف اشارہ ہوتا ہے کہ بندہ ظاہری اسباب پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے رب پر بھروسہ رکھے۔

اسی طرح، کاروبار میں نقصان ایک ناگوار واقعہ ہے۔ لیکن کیا معلوم کہ یہ نقصان کسی نئے خیال، کسی نئی حکمتِ عملی، کسی نئے کاروبار کی بنیاد بن جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بڑے بڑے کاروباری ادارے، عظیم صنعتی انقلاب، ایسے ہی بظاہر ناگوار واقعات کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ یہ قدرت کا ایک انمول سبق ہے کہ انسان حالات سے مایوس ہونے کی بجائے نئے راستے تلاش کرے۔

کسی عزیز کی وفات ایک جان لیوا صدمہ ہے، ایک ایسا زخم ہے جو بظاہر کبھی نہیں بھرتا۔ لیکن وقت ایک بہترین مرہم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے دلوں کو ایک خاص سکون، ایک خاص اطمینان عطا کرتا ہے۔ یہ دراصل ایک آزمائش ہے، ایک امتحان ہے۔ اور اس امتحان میں کامیابی صبر و تحمل سے ہی ممکن ہے۔

ایک طالب علم کا کسی امتحان میں ناکام ہو جانا ایک عارضی ناکامی ہے۔ یہ زندگی کے سفر میں پیش آنے والا ایک مرحلہ ہے۔ لیکن اس ناکامی کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی ختم ہو گئی۔ کیا عجب کہ اس طالب علم کے لیے کسی اور شعبے میں، کسی اور میدان میں، کسی اور منزل میں کامیابی مقدر ہو۔ یہ دراصل ایک اشارہ ہے کہ انسان ایک ہی راستے پر اصرار کرنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو پہچانے، اپنی دلچسپیوں کو سمجھے اور نئے راستے تلاش کرے۔

غرض، زندگی کے ہر معاملہ اور  کیفیت میں، ایک صاحبِ ایمان کے لیے ایک ہی درسِ عبرت ہے، اور وہ ہے مشیتِ ایزدی پر سرِ تسلیم خم کرنا، اور ہر آن، ہر لمحہ، ذاتِ باری تعالیٰ پر کامل اعتماد رکھنا۔ کیونکہ وہی ہے جو بخشنے والا ہے، وہی ہے جو واپس لینے والا ہے، اور اس کی ہر تقدیر میں کوئی نہ کوئی حکمت، کوئی نہ کوئی راز ضرور مضمر ہوتا ہے۔یہ عالمِ ہست و بود، محض ایک تماشا گاہ نہیں، بلکہ ایک تربیت گاہ بھی ہے۔ یہاں ہر واقعہ، ہر حادثہ، ہر خوشی اور ہر غم، ایک خاص مقصد کے تحت ظہور پذیر ہوتا ہے۔ زندگی کی مشکلات اور نقصانات، دراصل ہمیں کسی نہ کسی سبق سے روشناس کرانے، کسی نہ کسی حقیقت سے آگاہ کرنے، کسی نہ کسی سانچے میں ڈھالنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ ہمیں ضعیف کرنے کے لیے نہیں، بلکہ قوی تر بنانے کے لیے آتے ہیں۔ یہ ہمیں پستی کی جانب دھکیلنے کے لیے نہیں، بلکہ رفعتوں کی جانب اُٹھانے کے لیے آتے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زندگی کی شاہراہ پر نشیب و فراز، خوشی و غم، کامیابی و ناکامی،یہ سب لازم و ملزوم ہیں۔ لیکن کیا ان مصائب و آلام کا کوئی مقصد ہے؟ کیا ان میں کوئی حکمت پوشیدہ ہے؟ علمِ نفسیات کے ماہرین نے اس سوال پر غور و فکر کیا ہے اور کچھ اہم نتائج اخذ کیے ہیں۔ وکٹر فرانکل، جو خود مصائب کے بھٹی سے گزرے اور ایک عظیم ماہر نفسیات کے طور پر اُبھرے، نے اپنی معروف  کتاب (Man’s Search for Meaning ) میں یہ انکشاف کیا کہ انسان کی بنیادی محرک قوت ‘معنی کی تلاش’ ہے۔ ان کے مطابق، جب انسان کسی تکلیف دہ صورتحال میں بھی کوئی مقصد تلاش کر لیتا ہے، تو اس کے لیے اس صورتحال کو برداشت کرنا اور اس سے سبق حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو انسانی فطرت کی گہرائیوں میں اُترا ہوا ہے، کیونکہ جب انسان کو کسی چیز کا مقصد سمجھ آ جاتا ہے، تو اس کے لیے ہر قسم کی تکلیف اور آزمائش برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ گویا، مقصد کی تلاش، مصائب کے اندھیروں میں ایک روشنی کی مانند ہے جو انسان کو راستہ دکھاتی ہے۔

اسی سلسلے میں، کارل یونگ، جو تحلیل نفسی کے میدان میں ایک معتبر نام ہے، نے ‘اجتماعی لاشعور’ کے تصور سے یہ واضح کیا کہ مصائب و آلام انسان کو اپنی ذات کے پوشیدہ پہلوؤں سے روشناس کراتے ہیں۔ یہ اسے ‘انفرادیت’ کے عمل کی طرف لے جاتے ہیں، یعنی ایک مکمل اور مربوط شخصیت کی تشکیل کی جانب۔ یونگ کا یہ ماننا تھا کہ مصائب انسان کو اپنی ذات کے ‘سایہ’ سے بھی ہم کلام کرتے ہیں، یعنی ان پہلوؤں سے جنہیں وہ عام طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ گویا، مصائب ایک آئینہ ہیں جو انسان کو اس کی حقیقی صورت دکھاتے ہیں، اور اسے اپنی ذات کو بہتر طور پر سمجھنے اور قبول کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

البرٹ ایلس، جنہوں نے ‘Rational Emotive Behavior Therapy’ کی بنیاد رکھی، نے ایک اور اہم نکتہ پیش کیا۔ ان کے مطابق، انسان کے جذبات اور رویے براہ راست واقعات سے متاثر نہیں ہوتے، بلکہ ان کے بارے میں انسان کے خیالات اور عقائد سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایلس کا کہنا تھا کہ غیر منطقی خیالات، جیسے ‘مجھے ہر حال میں کامیاب ہونا چاہیے’ یا ‘یہ میرے لیے ناقابل برداشت ہے’، مصائب کے دوران منفی جذبات کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ان کا طریقہ علاج ان غیر منطقی خیالات کو چیلنج کرنا اور زیادہ منطقی اور مددگار خیالات کو اپنانا ہے۔ گویا، مصائب کے وقت اپنے خیالات پر قابو رکھنا، ان پر غور کرنا اور انہیں درست سمت دینا، ایک اہم قدم ہے جو انسان کو ذہنی سکون اور طاقت عطا کرتا ہے۔

ان تینوں ماہرین کے خیالات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مصائب محض تکلیف دہ واقعات نہیں ہیں، بلکہ یہ انسان کے لیے ترقی اور تبدیلی کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان سے معنی تلاش کرنا، اپنی ذات کو سمجھنا، اور اپنے خیالات پر قابو رکھنا، یہ وہ اہم عوامل ہیں جو انسان کو مصائب کا مقابلہ کرنے اور ان سے سیکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ یوں، مصائب کے وقت صبر و تحمل سے کام لینا، اپنی ذات کا جائزہ لینا اور اپنے خیالات کو مثبت سمت دینا، ایک ایسی حکمت عملی ہے جو انسان کو نہ صرف مصائب کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے بلکہ اسے ایک بہتر انسان بھی بناتی ہے۔

اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن میں صبر و استقامت کے بعد کامیابی و کامرانی نے قدم چومے۔ ان میں سے تین نمایاں مثالیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی ابتلا و آزمائش کا ایک طویل سلسلہ تھی۔ بھائیوں کی سازش، غلامی، جیل کی صعوبتیں، یہ سب مراحل انہوں نے صبر و تحمل سے طے کیے۔ لیکن ان کی ثابت قدمی اور اللہ پر کامل بھروسے نے انہیں نہ صرف رہائی دلوائی بلکہ مصر کی حکومت بھی عطا کی۔ گویا، قید و بند کی تاریکیوں سے نکل کر وہ تخت و تاج کے مالک بنے۔ دوسری جانب، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا ابتدائی دور بھی مصائب و آلام سے عبارت تھا۔ مکہ کے مشرکین کے ظلم و ستم، طعن و تشنیع اور سماجی بائیکاٹ نے ان پر زندگی تنگ کر دی تھی۔ لیکن ان کا ایمان محکم اور صبر جمیل انہیں فتح مکہ تک لے گیا۔ وہ مکہ جہاں سے انہیں نکالا گیا تھا، بالآخر ان کے زیرِ نگیں ہوا۔ یہ صبر کی ایسی فتح تھی جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ اسی طرح، امام احمد بن حنبل کی زندگی بھی حق گوئی اور استقامت کی ایک روشن مثال ہے۔ انہیں اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی پاداش میں قید و بند اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ ان کی ثابت قدمی نے نہ صرف ان کے موقف کو تقویت بخشی بلکہ انہیں ایک عظیم مذہبی رہنما کے طور پر بھی منوایا۔

اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں ایسے کئی افراد نظر آتے ہیں جنہوں نے مصائب و آلام کی بھٹی سے گزر کر عظمت کی نئی داستانیں رقم کیں۔ مثال کے طور پر، ابراہم لنکن کو لیجیے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کئی ناکامیوں کا سامنا کیا۔ کاروباری ناکامی، سیاسی شکست اور ذاتی غموں نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ ان کے صبر اور استقلال کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ امریکہ کے صدر بنے اور ملک کو ایک بڑے بحران سے نکالا۔ گویا، مصائب کی تاریکیوں سے گزر کر وہ قوم کے لیے امید کی کرن بن گئے۔ اسی طرح، ہیلن کیلر کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ وہ بچپن میں ہی بینائی اور سماعت سے محروم ہو گئی تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنی معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا اور تعلیم کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کی ہمت اور لگن نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ معذوری انسان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ گویا، مصائب کے باوجود ان کی استقامت نے انہیں ایک رول ماڈل بنا دیا۔ اسی طرح، اسٹیفن ہاکنگ کی مثال بھی ایک روشن مثال ہے۔ وہ ایک موذی مرض کا شکار تھے جس نے انہیں وہیل چیئر تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنی جسمانی معذوری کو اپنی علمی تحقیق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور کائنات کے رازوں کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے صبر اور علمی لگن نے انہیں دنیا کے عظیم ترین سائنسدانوں میں شمار کروا دیا۔ گویا، مصائب کے باوجود ان کی ذہنی قوت نے انہیں لازوال شہرت بخشی۔

یہ تمام مثالیں ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ مصائب اور پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں، لیکن ان سے گھبرانے کی بجائے صبر، حوصلے اور استقامت سے کام لینا کامیابی کی کنجی ہے۔ہمیں یہ بات اچّھی طرح ذہن نشین کرنی چاہیے کہ محرومی، کوئی دائمی قید نہیں، بلکہ ایک امتحانی منزل ہے۔ یہ ایمان کی کسوٹی، یقین کا معیار ہے۔ جب کسی نعمت سے دست کش ہونا پڑے، تو دل شکستگی کی بجائے، خالقِ کائنات پر توکل لازم ہے۔ وہ بے نیاز، ہر چیز پر قادر ہے، اور یقیناً اس ظاہری نقصان کے عوض، کوئی بیش بہا انعام عطا فرمائے گا۔ یہ دنیائے فانی، ایک سرائے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، جہاں ہر چیز عارضی، ہر رنگ بے ثبات ہے۔ بس ایک ذاتِ ازلی و ابدی ہے، جس پر نظر مرکوز رکھنا، جس سے لو لگانا، اور جس کی رضا میں اپنی رضا تلاش کرنا، عین بندگی، معراجِ انسانیت اور حقیقی کامیابی ہے۔ یہی محرومی سے نعمت تک کا سفر، اور یہی زندگی کا حقیقی مقصد ہے۔

Related posts

بنتی نہیں ہے بات مسلماں کہے بغیر!

Siyasi Manzar

قضیہ فلسطین ، سیاسی نعروں اور حقیقی مددگاروں کے تناظرمیں

Siyasi Manzar

میں بنکر ہوں کیسے کہوں جاوید نیا سال مبارک ؟

Siyasi Manzar