بابا صدیقی کے قتل پر قوم کو بہت کچھ سوچنا چاہئے: مطیع الرحمن عزیز
نئی دہلی 14اکتوبر(پریس ریلیز)مشہور اور قدر آور لیڈر و سماجی خدمتگار مرحوم بابا صدیقی کے بے رحمانہ قتل پر آل انڈیا مہیلا امپاورمنٹ پارٹی کی قومی صدر عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے کہا کہ بابا صدیقی کا قتل سرکاری بدانتظامی کا جیتا جاگتا مثال ہے۔ بابا صدیقی کا سر عام قتل یہ باور کراتا ہے کہ جب اعلیٰ عہدوں اور قدر آور لیڈروں کی سیکورٹی اور تحفظات کا یہ عالم ہے کہ دن دہاڑے ان کا قتل کر دیا جاتا ہے تو عام عوام کی تحفظ کا ملک میں کیا حال ہو گا۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے کہا کہ بابا صدیقی جیسے قد آور لیڈر کا یوں آنا فانا ہمارے درمیان سے چلے جانا ہمیں بہت رنجیدہ کرگیا ہے۔ بابا صدیقی کے قتل سے ان کے چاہنے والوں کو بہت بڑی ٹھیس اور چوٹ پہنچی ہے۔ بابا صدیقی کے وجود سے بے سہارا اور اقلیتی طبقہ کو ہمت اور جستجو کا شوق ملتا تھا۔ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بابا صدیقی کا قوم کو بدل عنایت فرمائے، اور ان کی لغزشوں کو اللہ معاف فرمائے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر جگہ عنایت کرے۔آل انڈیا مہیلا امپاورمنٹ پارٹی کے اقلیتی شعبہ کے کل ہند صدر مطیع الرحمن عزیز نے بابا صدیقی کے قتل پر کہا کہ ان کے قتل سے قوم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ بھارت میں اقلیتی قیادت اور طاقت کو توڑنے اور کمزور کرنے کی یہ سازش گھناؤنی ہی نہیں بلکہ بزدلانہ ہے۔ اقلیتی طبقہ کو اس بات پر سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے تاکہ ایسی واردات پر روک لگائی جا سکے۔ لیکن یہ بات محال لگتی ہے، دشمن بڑی شاطر اندازی سے اقلیتوں کے گردن پر چھری رکھ کر بڑی بڑی شخصیات کو مٹی میں ملاتا جا رہا ہے۔ کسی کو زندہ درگور کیا جا رہا ہے، تو کسی کو موت کے گھاٹ اتار کر اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو ہراساں اور مایوسی کے عالم میں ڈھکیلنے کی سازش کو کھلے عام انجام دیا جا رہا ہے۔ اور یہ سازش ایک دہائی سے منظر عام پر زیادہ آنے لگی ہے۔ قوم کی باغیور شخصیات کو اس بات پر نظر رکھنی ہو گی کہ اقلیتوں کے دشمن نے ہر اس مضبوط پلر کو کمزور کرنے کی سازش رچی ہے، کہیں منافقوں کو مستعد کر کے اقلیتی طبقہ کو کمزور بنایا جا رہاہے، تو کہیں ان کے خلاف سازش کے ذریعہ گرفتاری اور زندہ رہتے ہوئے موت کی تاریکی میں ڈھکیلا جا رہا ہے۔ اور بہت شاطر انداز اور بزدلانہ طریقے سے قتل عام کے معاملات کو کبھی غنڈہ گردی کا رخ دے دیا جاتا ہے تو کبھی مجرم شبیہ افراد کے شوق کے سر جڑ دیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، امید ہے کہ قوم وملت اس بات پر گہرائی سے نظر رکھتے ہوئے عوام کو سچائی سے روبرو کرائے گی۔مطیع الرحمن عزیز نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اقلیتی طبقہ کے جس جس فرد کو مضبوط اور عوام کے درمیان مقبول دیکھا جا رہا ہے اس کے خلاف سازش کے جال بچھائے جا رہے ہیں۔ منظر نامہ پر اگر گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ تین طریقوں سے اقلیتی طبقہ کے مضبوط ترین افراد کو مجبوری اور موت کے گھاٹ اتارا جا رہاہے۔ نمبر ایک۔ زندہ لوگوں کو لاشوں کی طرح بے بس اور مجبور کئے جانے کی پہلی سازش کے طور پر کھاتے کماتے اور اپنی کمیونٹی کو مضبوطی فراہم کرنے والے لوگوں کو بے بنیاد الزمات کی بنا پر مقدماتی الجھنوں اور سازشوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ جس سے وہ شخص زندہ تو ہوتا ہے مگر موت کی طرح خاموش اور لاش کی طرح مجبور اور بے بس ہوتا ہے ، لیکن نتیجہ وہی ہوتا ہے کہ اس کے زیر سایہ فلاح پانے والے افراد اپاہج اور بے بس ومجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے معاملات میں ڈاکٹر ایوب پیس پارٹی آف انڈیا، ڈاکٹر نوہیرا شیخ آل انڈیا مہیلا امپاور منٹ پارٹی ، ڈاکٹر کفیل ماہر امراض اطفال، اعظم خان اور رضوان ظہیر کے معاملات کو دیکھ کر لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح قدر آور اور بارسوخ افراد سے فلاح پانے والے عوام کو بے سروپا بنانے کے لئے ان کے قائدین کو مقدماتی الجھنوں میں تادیر پھنسایا گیا ہے۔دوسرے نمبر پر اگر دیکھا جائے تو غداروں کو اقلیتوں کے سامنے مستعد کرکے ان کی فلاح وبہبود کے سلسلے اور قافلے کو روکا جارہا ہے۔ جس سے نمائندگی کرنے والا لیڈر جب حکومت و اقتدار سے باہر ہو گا تو بلا کسی جھجھک کے مقبول لیڈر کی قیادت میں فلاح پانے والے لوگوں کا پیر یوں ہی کمزور ہو جائے گا۔ اس طرح کی مثالیں ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں کہ اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو سازش کاروں نے ان ہی کے درمیان سے غداروں کو دور دراز علاقوں سے بلا کر برسر پیکار کیاجا رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر مقبول اور قدآور لیڈر شکست فاش سے دور چار ہوا اور جو فلاحی، رفاہی، سیاسی اور سماجی امور انجام پا رہے تھے وہ رک جاتے ہیں اور اقلیتی طبقہ بے سروپا ہو کر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ایسے لیڈر جس کو کسی غدار اور سازش کار کے ذریعہ کمزور نہ کیا جا سکا، ان کو قتل کرا دیا جا رہا ہے، کیونکہ ان کا قد اس قدر بلند اور وسیع تھا کہ ان کے سامنے کبھی کسی غدار یا سازش کار کی کچھ نا چل سکی، لہذا بابا صدیقی ، عتیق احمد اور ان کے بھائی اشفاق احمد ، مختار انصاری و شہاب الدین وغیرہ کے معاملات قوم وملک کے باغیور افراد کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، کیونکہ اقلیتی طبقہ کو کمزور کرنے کی سازش بہت گھناؤنی طور پر گہری ہو چکی ہے۔