سنیتا جوشی
بیسانی، اتراکھنڈ
سال 2024 کی آمد پر جب پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بھی جشن میں ڈوبے ہوئے تھے، اسی وقت ستیش دھون اسپیس سینٹر میں بیٹھے اسرو کے سائنسدان ”ایکس رے پولی میٹر سیٹلائٹ“کو کامیابی سے لانچ کرکے تاریخ رقم کر رہے تھے۔ یہ دنیا کا دوسرا اور ہندوستان کا پہلا سیٹلائٹ ہے جو چاند، مریخ اور سورج سے آگے جائے گا اور بلیک ہولز، کہکشاؤں اور خلا میں پھیلی تابکاری (ریڈیشن)کا مطالعہ کرے گا۔ یہ سیٹلائٹ نہ صرف تابکاری کے ذرائع کا پتہ لگائے گا اور اس کی تصویر کشی کرے گا بلکہ کائنات کے 50 روشن ترین ذرائع کا بھی مطالعہ کرے گا۔ جیسے- پلسر، بلیک ہول ایکس رے بائنری، ایکٹو گیلیکٹک نیوکلی اور نان تھرم سپرنووا وغیرہ۔ انتہائی حالات میں روشن فلکیاتی ایکس رے ذرائع کی مختلف حرکیات کا مطالعہ کرنے کے لیے یہ ہندوستان کا پہلا وقف پولی میٹر مشن ہے۔ سائنسدانوں نے اس سیٹلائٹ پر 2017 سے کام شروع کیا تھا، جو اسرو کے سائنسدانوں کو اگلے پانچ سال تک فلکیاتی واقعات سے آگاہ رکھے گا۔درحقیقت آج ہندوستان دنیا کا واحد ترقی پذیر ملک ہے جس کے سائنسدان دنیا کے دو طاقتور ترین ممالک روس اور امریکہ کے سائنسدانوں کو ہر پہلو سے نہ صرف ٹکر دے رہے ہیں بلکہ چاند کے جنوبی حصہ پر ایک خلائی جہاز کو کامیابی سے اتار چکے ہیں۔جس نے یہ ثابت کیا کہ یہ صدی ہندوستان کی ہے اور ہندوستان حقیقی معنوں میں ویشوگرو(عالمی رہنما) ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اسرو کے سائنسدانوں نے کوئی نیا کارنامہ انجام دیا ہو۔ اس سے پہلے بھی سورج کا مطالعہ کرنے کے لیے آدتیہ ایل ون اورمریخ مشن کو کامیاب بنا چکے ہیں، وہیں سال 2017 میں پی ایس ایل وی کے ذریعے بیک وقت 104 سیٹلائٹ لانچ کر کے ریکارڈ بنایا تھا۔ ہندوستانی سائنس دانوں کے اس کارنامے نے جہاں دنیا میں ہندوستان کا وقار بڑھایا ہے وہیں اس نے نوجوانوں کی رہنمائی بھی کی ہے۔ ہندوستانی سائنسدانوں کی جانب سے خلاء کے چیلنجوں پر کامیابی سے قابو پاتے دیکھ کر اب نہ صرف شہری بلکہ دیہی علاقوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی اس کی طرف راغب ہونے لگی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں اپنی زندگی کا مقصد مل گیا ہو۔
پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے ایک دور افتادہ دیہی علاقے بیسانی کی لڑکیوں نے بھی اسرو کے سائنسدانوں کی کامیابی کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ حالانکہ ضلع باگیشور سے تقریباً 10 کلومیٹر دور گروڈ بلاک کے تحت واقع یہ گاؤں سڑکوں اور اسپتال جیسی بنیادی سہولتوں سے نبردآزما ہے، جہاں روایت اور ثقافت کے نام پر لڑکیوں کی بارہویں کے بعد ہی شادی کرنا عام ہے، پھر بھی اس گاؤں کی لڑکیوں کو اسرو کے سائنسدانوں کی کامیابی پر نہ صرف فخر ہے بلکہ اب وہ بھی سائنسدان بننے کے خواب دیکھنے لگی ہیں۔ اس سلسلے میں 12 ویں کلاس میں پڑھنے والی 19 سالہ مہیما جوشی کا کہنا ہے کہ ’اسرو کے سائنسدانوں کی ایک کے بعد ایک کامیابی نے مجھے خلا کے بارے میں جاننے اور پڑھنے کا حوصلہ دیا ہے۔ جب میں نے اسرو کے سائنسدانوں کے بارے میں پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ انہیں یہ کامیابی ایک ہی بار میں نہیں ملی بلکہ بعض مواقع پر سخت محنت کے باوجود ناکام بھی ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور بالآخر وہ تاریخ رقم کرنے میں کامیاب رہے‘۔ ایک اور نوعمر گریما کہتی ہیں کہ ”پہلے مجھے سائنس پڑھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن اسرو کے سائنسدانوں کی ایک کے بعد ایک کامیابی نے مجھے سائنس پڑھنے کا حوصلہ دیا اور اب سائنس میرا پسندیدہ موضوع بن گیا ہے۔ اب میرے دل میں بھی اسرو کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کرنے کاجزبہ پیدا ہو گیا ہے“۔
خلائی سائنس میں بچوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھ کر والدین بہت خوش ہیں۔ اس حوالے سے 52 سالہ چندر پرکاش کا کہنا ہے کہ گاؤں میں سہولیات کی کمی کے باوجود ہر گاؤں میں ٹی وی، ریڈیو اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی پہنچ نے ہر ایک کو ملک اور دنیا سے جوڑ دیا ہے۔ ایک لمحے میں ہندوستانی سائنسدانوں کی کامیابی ان ذرائع سے اس دور دراز گاؤں تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ اب بچے بالخصوص لڑکیاں بھی خلا میں دلچسپی لینے لگی ہیں۔ اب وہ سوشل میڈیا پر خلا سے متعلق معلومات کی تلاش بھی شروع کر نے لگی ہیں۔ جسے دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔ خلائی تحقیق میں ہندوستانی سائنسدانوں کی بڑھتی ہوئی ترقی نے بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو سائنس پڑھنے کی طرف راغب کیا ہے۔وہیں 72 سالہ بزرگ گوپال جوشی کا کہنا ہے کہ انہوں نے گاؤں کے بچوں میں اس سے قبل سائنس میں اتنی دلچسپی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اب تو لڑکیوں نے بھی تعلیم حاصل کر کے سائنسدان بننے کا ہدف طے کر لیا ہے۔ یہ اسرو کے سائنسدانوں کی محنت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ گوپال جوشی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال چاند کے مشکل مقام پر کامیابی کے ساتھ پہنچنے کے بعد اس گاؤں کے بچوں میں سائنس میں دلچسپی بیدار ہوئی ہے اور اب سال کے پہلے ہی دن تاریخ رقم کر کے اسرو کے سائنسدانوں نے جو کامیابی حاصل کی ہے، اس کے بعد بچوں نے بھی اپنا ہدف مقررکرلیا ہے۔ بچوں میں سائنس کی طرف بڑھتے ہوئے جوش و خروش سے اسکول کے اساتذہ سب سے زیادہ خوش ہیں۔ گورنمنٹ مڈل اسکول بیسانی میں جغرافیہ کے استاد اوما شنکر جوشی کا کہنا ہے کہ اسرو کے سائنسدانوں نے خلا میں ایک کے بعد ایک کامیابی کے جھنڈے گارکرنہ صرف تاریخ رقم کی ہے بلکہ انہوں نے ملک کے اس دور افتادہ گاؤں کی نئی نسل کو بھی راستہ دکھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے بچوں کو خلائی سائنس میں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی تھی لیکن اب وہ اساتذہ سے اس حوالے سے بہت سے سوالات کرتے ہیں۔ بچے اب اسکول میں سائنس سے متعلق کوئز مقابلے بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اوما شنکر کا کہنا ہے کہ ایک ٹیچر کے طور پر وہ بچوں میں یہ جوش دیکھ کر خوش ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ایک دن بیسانی گاؤں کے بچے بھی سائنس کے میدان میں ترقی کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی سائنسدانوں کی کامیابی نے بیسانی گاؤں کے بچوں کو بھی سائنس کی طرف راغب کیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں کے ا سکولوں میں کتنی سہولیات ہیں؟ کتنے اسکولوں میں جدید سائنس لیبارٹریز ہیں، جہاں بچوں کو سائنسی تجربات کرنے کی تمام سہولیات میسر ہیں؟ اکیلے اتراکھنڈ میں ہی دور دراز کے ایسے کئی اسکول ہیں جہاں سائنس کے اساتذہ کی پوسٹیں برسوں سے خالی پڑی ہیں۔ یہ وہ بنیادی خامیاں ہیں جنہیں جلد دور نہ کیا گیا تو گاؤں کا ٹیلنٹ دم توڑ جائے گا اور سہولیات نہیں ملنے سے بچے بھی مایوس ہو جائے نگے۔اگر حکومت اور محکمہ تعلیم گاؤں کے اسکولوں میں جدید تجربہ گاہیں قائم کرے اور سائنس کے ماہر اساتذہ کی تقرری کرے، تو کون جانے ہندوستان کو فخر کرانے والا اسرو کا اگلا سائنسدان اسی بیسانی گاؤں کاکوئی بچہ ہو۔ (چرخہ فیچرس)