اردو زبان و ادب کی محفلیں مستقل آباد رہیں گی : سوربھ بھاردواج
نئی دہلی :4 دسمبر ر (ایس ایم نیوز) آج کی یہ کہکشاں جو آپ سب کے لیے سجائی گئی ہے یہ کوئی پہلی اور آخر ی کہکشاں نہیں ہے بلکہ ادب کی محفلوں کا یہ سلسلہ سینٹرل پارک کناٹ پلیس ، نارتھ ایسٹ دہلی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی جلدہی منعقد ہوگا۔حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے وزارت ثقافت و السنہ کے وزیر سوربھ بھاردواج نے یہ باتیں کیں۔وزیر موصوف کا استقبال آئی این اے دلی ہاٹ کے منیجر اور ارد و اکادمی کیسکریٹری محمد احسن عابد نے گلدستہ پیش کرکے کیا۔اکتوبر میںبھارتیہ بھاشا اتسو کا گیارہ ہفتہ کا پرو گرام منظم ہوا تھا جس کا ابھی دسواں ہفتہ جاری ہے اسی جشن کے سلسلہ میں اردو اکادمی، دہلی نے آئی این اے دلی ہاٹ میں’’ کہکشاں‘‘ عنوان سے دن بھر کا پروگرام منعقد کیا جس میں اسکو ل کے فنکاروں سے لے کر عالمی فنکاروں تک نے اپنے فن سے شائقین کو مسحورکیا۔پرو گرا م اپنے مقر ر وقت پر گیارہ بجے شروع ہوا جس کی پہلی کڑی کوئز مقابلہ تھا۔ اس میں دہلی کے اردو میڈیم اسکولوں کے نویںجماعت سے بارہویں جماعت تک کے طلبا و طالبات نے حصہ لیا۔اس مقابلہ میں9 ٹیمیںشریک تھیں۔یہ ایک ہی رائو نڈ کا مقابلہ تھا جس ٹیم نے زیاہ جوابات دیے اس کو زیادہ نمبرملے اوراسی حساب سے اول دوم اور سوم پوزیشن کے مستحق قرار پائے۔ اول پوزیشن جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول و ڈاکٹر ذاکرحسین میموریل سینئر سیکنڈری جعفرآبا د ، دو م پوزیشن سید عابد حسین سینئر سکنڈری اسکول اور سوم پوزیشن کریسنٹ اسکول دریا گنج اورسروودیہ کنیا ودیالیہ، نورنگر کی ٹیموں نے حاصل کیں۔ اس پروگرام میں بطور مشاہد معروف صحافی معصوم مراد آبادی مدعو تھے۔انھوںنے اظہار خیال کرتے ہوئے بچوں کی کارکردگی کو سرا ہا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ارد و اکادمی اسکو ل سے لے کر یونیورسٹی سطح تک کے طلبہ کو اسٹیج پر آنے کا موقع دیتی ہے اس کے لیے وہ مبارکباد کی مستحق ہے۔دوسرا پروگرام تقریری مقابلہ تھا ،جس کا عنوان’’ماحولیاتی ا?لودگی کو کم کرنے میں حکومت سے زیادہ اہم شہریوں کا کردار ہے‘‘ تھا۔ یہ مقابلہ نویں جماعت سے بارہویں جماعتکے طلبا و طالبات کے لیے تھا۔ اس میں تقریباً بیس طلباو طالبات نے شرکت کی۔ او ل انعام وجیہ بنت محمد عرفان(رابعہ گرلز پبلک اسکول، گلی قاسم جان)، دوم انعام عاطف اقبال ولد اقبال احمد(کریسنٹ اسکول، دریا گنج،نئی دہلی ، سوم انعام زید محمد پراچہ ولد نوید پراچہ (کریسنٹ اسکول دریا گنج) نے حاصل کیے جب کہ حوصلہ افزا انعام میمونہ بنت معین خاں (سید عابدحسین سینئر سیکنڈری اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ)کودیا گیا۔ اس پرو گرام میںحکم کے فرائض پر وفیسر نجمہ رحمانی ، صدر شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی اور ڈاکٹر شبانہ نذیر نے انجا م دیے۔ پروفیسر نجمہ رحمانی نے کلمات تاثر پیش کرتے ہوئے کہا کہ خطابت کا فن بہت ہی اعلیٰ فن ہے اس میں بھی دیگر اصناف کی طرح اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں جس میں مواد اور پیش کش سب سے اہم ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تلفظ کا جو حال اسکولوں میں دیکھنے کو ملا وہی یونیورسٹیوں میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پڑھت میں ترقی کے بجائے ایک قسم کا ٹھہرائو ہے۔ ڈاکٹرشبانہ نذیر نے اپنے تاثر ات میں کہا اس کم عمر ی میںیہاںاسٹیج پر آکرسیکڑوں لوگوں کے سامنے خطاب کرنا بہت ہی ہمت و حوصلہ کی بات ہے ، یقینا اس عمر میں مقرر سامنے والے کو بلینک سمجھتا ہے اور اس کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ کہیں بھی نہ اٹکو ں اور نہ ہی بھولوں البتہ جو طلبا اس کے شکار ہوئے اور اپنی جانب سے موضوع پر بہت کچھ کہا وہ بہت زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیںکیوں کہ وہ لوگ ہمت نہیں ہارے۔ تاثرات کے بعد تمام طلبہ کو سرٹیفکیٹ اور مومنٹو حکم اور مشاہد صاحبان کے ہاتھوں پیش کیے گئے۔
یہ پروگرام یوں ہی چلتا رہا کہ دو پہر کاوقت کب آن پہنچا کسی کو احساس بھی نہیں ہوا۔ جیسے جیسے دن گزر رہا تھا غیر اردو برادری شائقین کا ہجوم بڑھتا جارہا تھا کہ حاضرین کے سامنے صوفی محفل پیش کی گئی جسے روح دار ی ، دی-سول بینڈ نے پیش کیا۔ اس پرو گرام میں عتیقہ اور دلکش کی ترنم آمیز ، کھنک دار اور دلکش آوازنے سامعین کوجھومنے پر مجبور کردیا۔ پروگرام اتنا خوبصورت تھا کہ گلوکاروں نے دل کی گہرائیوں سے شائقین کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اب تک ایسے خوبصورت شائقین نصیب نہیں ہوئے تھے۔محفل سے ابھی رقص و سرود کا خمار اترا بھی نہیں تھا کہ پروگرام کا رخ قہقہوں کی جانب آگے بڑھا اور اسٹیج’ مشاعرہ کا پوسٹ مارٹم‘ کے لیے تیا ر کیا گیا جسے اردو ڈراما سوسائٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پیش کیا، اس کی اسکرپٹ پرو فیسر محب الحق نے تیار کی تھی اور ہدایت کارڈاکٹر جاوید حسن تھے۔ پرو گرام اس خوبصورتی اور دلچسپی سے تیار کیاگیاتھا کہ دلی کے عوام و خواص نے کھڑے ہوکر پروگرام کو ریکارڈبھی کیا اور شاعر و ں کے ہر شعر و کمنٹ پر قہقہے بھی لگائے۔ اس مشاعرہ کے اکثر اداکاروں کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو سے تھا۔شام شروع ہونے کو تھی کہ شام غزل کا اسٹیج سج چکا تھا قابل قدر سامعین جہاں گنگنانے کو مجبور ہوئے وہیں غیر اردو داں طبقہ اور نئی نسل کومختلف سماعتوں سے لطف اندوز ہونے کا حسین موقع ملا۔ اس پرو گرام کی پیش کش کی ایک خاص بات یہ تھی گلوکار سیف نعیم علی نے اکثر غزلیں شام کی تھیم پر ہی پیش کیں۔ ان کا استقبال اکادمی کے سینئر اکائونٹ آفیسر کلبھوشن اروڑہ اور ڈاکٹر شبانہ نذیر نے گلدستہ پیش کرکے کیا۔ شام رات میں داخل ہوچکی تھی کہ حاضرین کے سامنے نیازی نظامی برادرس کے لیے محفل قوالی کا اسٹیج سجایاگیا۔ قوال اسٹیج پر تشریف لائے تو حاضرین نے تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے ان کا استقبال کیاجب کہ وزیر سوربھ بھاردواج نے باضابطہ گلدستہ پیش کر کے ان کا استقبال کیا۔ پھر محفل کا آغاز کیا اور دہلی والے ایک بہت اچھے پروگرام سے لطف اندوز ہوئے۔ ان تمام پرو گراموں میں محترمہ ریشماں فاروقی او ر اطہر سعید کی نظامت نے سامعین کو کسی بھی وقت پروگرام سے غافل ہونے ہی نہیں دیا اور تقریباً رات ساڑھے آٹھ بجے کامیاب پروگرام کا اختتام ہوا۔