عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے حکم پر لگائی روک ،سپریم کورٹ نے مدرسہ بورڈ کے 17 لاکھ طلبا اور 10 ہزار اساتذہ کو دیگر اسکولوں میں شامل کیے جانے کے عمل پر روک لگائی
لکھنؤ،5اپریل (ایس ایم نیوز)الٰہ آباد ہائی کورٹ نے 22 مارچ کو سنائے گئے ایک فیصلہ میں ’یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004‘ کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور سبھی مدارس کے طلبا کو اسکولوں میں منتقل کیے جانے کی ہدایت دی تھی۔ اس فیصلہ کے بعد سبھی ریاستی مدارس کے انتظامیہ میں ہلچل مچ گئی تھی اور فکر کی ایک لہر اقلیتی طبقہ میں دوڑ گئی تھی۔ لیکن اب اتر پردیش کے مدارس میں پڑھنے والے تقریباً 17 لاکھ طلبا اور مدارس سے جڑے تقریباً 10 ہزار اساتذہ کو ’سپریم‘ راحت ملی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔سپریم کورٹ نے آج کہا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کا یہ کہنا کہ مدرسہ بورڈ آئین کے جمہوری اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مدرسہ بورڈ کے 17 لاکھ طلبا اور 10 ہزار اساتذہ کو دیگر اسکولوں میں شامل کرنے کے عمل پر بھی روک لگا دی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے اس معاملے میں مرکزی حکومت اور اتر پردیش حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ ایڈووکیٹ انشومن سنگھ راٹھوڑ نے یوپی مدرسہ لاء کے آئینی جواز کو چیلنج پیش کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی۔ اس پر ہائی کورٹ نے یوپی مدرسہ لاء کو غیر آئینی مانتے ہوئے اسے ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس وویک چودھری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی ڈویزن بنچ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ ’’حکومت کے پاس یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ مذہبی تعلیم کے لیے بورڈ تشکیل کرے یا پھر کسی خاص مذہب کے لیے اسکول تعلیمی بورڈ بنائے۔‘‘ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اپنے حکم میں ریاستی حکومت کو ہدایت بھی دی تھی کہ وہ ریاستی مدارس میں پڑھ رہے بچوں کو دیگر اسکولوں میں شامل کرے۔