Siyasi Manzar
مضامین

چھوٹے بچوں میں موبائل فون کا زیادہ استعمال تباہی کا باعث



رابیہ بٹ

منڈی،پونچھ
اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ہر چھوٹے اور بڑے کام ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے ذریعے آسان ہوگئے ہیں۔اس نے انسانی زندگی کو جتنا آسان بنایا ہے اتنا ہی مشکل بھی بنتا جا رہا ہے۔ خاص کر چھوٹے بچوں کے معاملے میں یہ جان لیوا بنتا جا رہا ہے۔ ننھے منھے بچے ہمارے معاشرے میں ایک ایسے بیج کی مانند ہیں جو آنے والے وقت میں ایک خوبصورت،پھلدار اور مضبوط درخت بن سکتے ہیں۔ بشرطیکہ اسکی نشو نما میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ برتی جائے۔اگر بچوں کی تربیت یا تعلیم میں لاپرواہی کی جائے تو یہ آنے والے وقت میں سماج کے لیے بدامنی اور نقصان کا باعث بنیں گے اور اس میں والدین کا بھی مرکزی کردار ہے۔موجودہ دور میں ایک طرف تعلیمی نظام میں نئی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں تاکہ آنے والی نسلوں میں علمی ادبی اور تربیتی لحاظ سے کوئی کمی پیش نہ آئے۔عصر حاضر جو کہ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور اسمارٹ موبائل فونز کا دور ہے۔ہمارے بچوں پر ان سب کے مثبت کے ساتھ ساتھ منفی اثرات بھی پڑتے ہیں اور جس کی مثال ہمیں بہت ہی آسانی سے ہمارے معاشرے میں مل سکتی ہے۔ ابتدا میں تو والدین اپنے بچوں کی تھوڑی اور وقتی خوشی کے لئے موبائل فون ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں اور جب ان کا بچہ اس کا عادی ہوجاتا ہے تو اکثر مائیں بچوں کو موبائل فون کے ساتھ مصروف کرکے خود گھر کے کاموں اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ لیکن بہت کم مائیں اس بات سے آشنا ہوتی ہیں کہ موبائل فون اسطرح بچوں کو دے دینا ان کے بچوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر کتنی تباہیوں کا باعث بن جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس کے بری طرح عادی ہو جاتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ بچوں کو موبائل فون پر ویڈیو اور مختلف گیمز دیکھنے کا اتنا نشہ لگ جاتا ہے کہ اس کے بدلے وہ والدین کے کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
جدید تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے اگر ایک بچہ ہر دن میں فقط ایک گھنٹہ موبائل فون استعمال کرے تو ان بچوں میں ڈپریشن اور اینزائٹی جیسی ذہنی بیماریوں کا خطرہ زیادہ لاحق ہو جاتا ہے جو نوجوان اور بچے سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں ذہنی بیماریوں کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی کا فقدان بھی پایا جاتا ہے اور ان کی نیند بھی ایک حد تک متاثر ہوتی ہے۔اس حقیقت سے تو ہر خاص و عام آ گاہ ہے کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال مختلف بیماریوں کا باعث ہے۔جس میں عام طور پر ذہنی مسائل اور آنکھوں کے مختلف امراض قابل ذکر ہیں،اس بات کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آج کے بچے اورنوجوان نظر کی کمزوری کا شکار ہوئے ہیں اورایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں نزدیک اشیاء تو صاف دکھائی دیتی ہیں لیکن دوری پر رکھی ہوئی ہر شے اور ہر نظارہ ان کے لئے ہوتا دھندلا معلوم ہوتا ہے۔ذہنی اور جسمانی بیماری کے ساتھ ساتھ موبائل فون کے استعمال سے بچوں میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان میں سے جو سب سے اہم چیز تہذیب و تمیز کا فقدان ہے۔بچے موبائل فون پر ایسی ویڈیوز اور کہانیاں دیکھتے اور سنتے ہیں جن سے وہ گالی گلوچ والی زبان اختیار کر لیتے ہیں اور یہ باتیں ان کے والدین کی تربیت پر سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بچے کے مزاج میں چڑچڑاپن،تلخی اور غصہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔اسی سلسلے میں اگر معاشرے پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس حوالے سے کئی مثالیں ملتی ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر ایسے بہت سے بچوں کو دیکھا ہے جو موبائل فون کی وجہ سے اپنے والدین کے لئے پریشانی اور افسردگی کا باعث بنے ہیں۔
اس کی ایک مثال میری خالہ زاد بہن شازیہ (نام بدلہ گیا ہے) ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ میرے شوہر کے خاندان میں ایک بچہ صحیح سالم تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ موبائل فون کا عادی ہو گیا اور ایک دن اچانک اس کی آنکھوں کی بینائی بالکل ختم ہوگئی اور جب ڈاکٹر سے اس معاملے کی وجہ پوچھی گئی تو اس کی وجہ بھی موبائل فون کا زیادہ استعمال بتایا گیا۔موبائل فون کے منفی اثرات سے نقصان اٹھانے والوں میں ایک ایسا بچہ جس کی والدہ زاہدہ (نام بدلہ گیا ہے)کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا پیدائش سے ایک سال اور چند ماہ تک تو بالکل تندرست تھا لیکن آہستہ آہستہ موبائل فون پر بچوں کے نغمے اور گیت سننے کا عادی ہو گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اسے ویڈیو دیکھنے کی بری عادت ہوگئی۔کچھ عرصہ کے بعد ہی میں نے اپنے بیٹے میں کچھ تبدیلیاں دیکھیں۔پہلے تووہ بہت ایکٹیو تھا اور ہر بات کا جواب دیتا تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ ہر بات کو نظر انداز کرنے لگا اور کسی بھی بات کا جواب نہ دیتا تھا۔وہ مسلسل تنہائی میں کھیلتا رہتا تھا۔یہ ماجرہ دن بدن بڑھتا گیا تو ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا۔انہوں نے بھی موبائل فون ہی کو اس تمام معاملے کا باعث بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ اتنا زیادہ سنگین ہو چکا ہے کہ اب یہ آسانی سے ٹھیک نہیں ہونے والا ہے۔
بین الاقوامی ادارہ چائلڈ رائٹس اینڈ یو (کرائی) کے ذریعے 2019 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جسکا عنوان”اسکرین انگیجڈ“ تھا اس سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ شہروں میں رہنے والے 13 سے 18 سال کی عمر تک کے قریب 79 فیصدبچے موبائل فون استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔قریب 66 فیصد بچے جن کی عمریں ابھی فقط 8 سے12 سال تک ہوگی اپنا ذاتی موبائل فون استعمال کرتے ہیں اور یہ تعداد دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔اس مسئلہ کے حل کے لیے جدید تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ والدین کو چاہیے کہ پہلے مرحلے میں تو اپنے بچوں کو موبائل فون کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ اس کے لیے انہیں کسی ڈاکٹر کے سہارے سے بھی بچے کو یہ بات سمجھانی چاہئے۔بچوں کی تربیت میں والدین کے اعمال و افعال کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس لئے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے موبائل فون کا بہت کم استعمال کریں تاکہ وہ اپنے گھر میں ہی اپنے بچوں کو ایک بہترین مثال دے سکیں۔ایک ایسا عمل جو بچوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند بنا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کو ایسے مقامات پر لے جائے جہاں پر وہ کھیل کود میں حصہ لیں۔ خاص طور پر ایسے کھیل کھیلیں جن میں جسمانی سرگرمیاں بھی شامل ہوں۔ بچوں کو گھر میں ہی نہ قید کر کہ رکھیں بلکہ باہری دنیا میں لے جائیں اور ایسی جگہوں پر لے جائے جہاں وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہو سکیں۔ اس طرح وہ ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط اور تندرست بن سکتے ہیں۔اس کام میں سب سے اہم ذمہ داری بچوں کے والدین کی ہی ہے ان پر لازم ہے کہ وہ مذکورہ کاموں کو انجام دے کر اپنے بچوں کو اس موبائل فون جیسی آفت سے نجات دلایں۔(چرخہ فیچرس)

Related posts

عہد حاضر میں مقصد تعلیم محض حصول ڈگری ہے

Siyasi Manzar

دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ ،کچھ باتیں ، کچھ یادیں*  Darul Uloom Ahmadia Salafia

Siyasi Manzar

صرف عورت ہی ذمہ دار کیوں؟

Siyasi Manzar

Leave a Comment