Siyasi Manzar
مضامین

والدین پر اولاد کے حقوق

مولانا شیخ حامد علی
البرکات انسٹیٹیوٹ علی گڑھ
جس طرح بچوں پر اپنے والدین کے حقوق ہیں اسی طرح والدین کے لیے بھی کچھ باتیں ضروری ہے۔ جن کا انہیں بہت سختی کے ساتھ خیال رکھنے کی ضرورت ہے جس کے بغیر اولاد کی صحیح تربیت کرنا لگ بھگ ناممکن بھی ہے۔
آج تقریباً دنیا کے سارے لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچے سہی راہ پر نہیں ہیں یا وہ ان کا کہنا نہیں مانتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کے مستقبل کو لے کر پریشان رہتے ہیں اور دوسروں سے مشورہ کرتے پھرتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی پرورش کیسے کریں؟
سب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ کیا ہم نے ان کے لیے وہ کام کیے جو ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے لیے ضروری تھے؟ کیا ہم نے ان کے تمام حقوق کو ادا کیا جس کا شریعت مطہرہ نے ہم سے مطالبہ کیا ہے؟ کیا ہم نے ان تمام لوازمات کو پورا کیا؟ اگر نہیں تو اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم سے کہاں کمی رہ گئی ہے اور حتی الامکان ان کمیوں کو پورا کرنے کی سخت حاجت ہے جو ہم سے اپنے اولاد کی پرورش میں رہ گئی ہے۔ اولاد کے والدین پر کیا حقوق ہیں؟ اس سوال کا جواب رسول اعظم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اج سے تقریبا ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی دے دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ والدین پر اولاد کے تین حقوق ہیں۔ (١) اولاد کا اچھا نام رکھنا۔ (٢) ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا۔ (٣) اور اچھا رشتہ دیکھ کر ان کی شادی کرنا۔
اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل کیا یا نہیں ؟ بچے کی ولادت کے بعد سب سے پہلا حق جو والدین پر اولاد کا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے۔ اس تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے "سَمُّوْا بِاِسْمِیْ” یعنی میرے نام پر نام رکھو آج ہم سب غور کریں کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس فرمان پر کس حد تک عمل کیا؟ ہمیں تو چاہیے تھا کہ ہم رسول اللہ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنی اولاد کا نام حضور ﷺ کے نام پر رکھتے لیکن ہم نے تو اپنا آئیڈیل دنیاوی ہیرو اور اداکاروں کو بنا رکھا ہے ہم اپنی اولاد کے نام ان کے نام پر رکھتے ہیں۔ ان کا اچھا نام نہ رکھ کر ہم ان کا سب سے پہلا حق مارتے ہیں۔ اور پھر بعد میں اپنی اولاد کے بگڑ جانے کا الزام دوسروں کے سر پر رکھ دیتے ہیں۔
نام رکھنے کے بعد دوسرا حق جو والدین پر اولاد کا ہے وہ ان کی اچھی تربیت کرنا اور انہیں عمدہ تعلیم دلانا ہے۔کیا ہم نے اس بات پر عمل کیا ہے؟ بچوں کی سب سے پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے آج ہمیں چاہیےکہ ہم دین دار اور پڑھی لکھی لڑکیوں سے شادی کرے تا تاکہ ہمارے بچے پہلے ہی دن سے اچھی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ پھر جب وہ بولنے کے قابل ہو جائیں تو انہیں سب سے پہلے کلمہ کی تعلیم دے اور جب ان کی عمر چار سے پانچ سال کی ہو جائے تو انہیں کسی اچھے اسلامی اسکول میں داخل کرائے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ ساتھ دین کی بھی تعلیم حاصل کر سکے۔ ہم ایسا نہ کر کے اپنے بچوں کا داخلہ انگریزی میڈیم غیر اسلامی اسکول میں کرا دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچہ ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے اور اس کا خمیازہ ہمیں اس کی جوانی کے ایام میں بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر ہم انہیں ابتدا ہی سے دین کی صحیح تعلیم دیتے تو وہ ہمیں جوانی کے ایام میں کبھی مایوس نہ کرتا۔
تیسرا حق بچوں کا جو والدین پر ہے وہ یہ ہے کہ اچھا دیندار رشتہ دیکھ کر ان کی شادی کرے۔ آج جب ہم اپنے بچوں کے لیے رشتہ دیکھتے ہیں تو جو چیز سب سے زیادہ قابلِ دید ہوتی ہے وہ ہے لڑکی کی دین داری اور ہم اسی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اور اسی کے ساتھ ہمیں بچوں کی پسند اور نا پسندیدگی کا بھی خیال رکھنا چاہئے؛ کیونکہ پسند کی شادی کا حق بچوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے "ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں اچھی معلوم ہو” اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس بات پر کافی تاکید فرمائی ہے حدیث پاک میں ہے، "ایک لڑکی کی شادی باپ اس لڑکی کی مرضی کے بغیر کر رہا تھا تو لڑکی نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں شکایت کی تو اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے اس شادی کو روک دیا اور لڑکی کی شادی اس جگہ کرنے کا حکم دیا جہاں لڑکی کی مرضی تھی۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں پیدائشی سے لے کر موت تک سارے مسائل کا حل موجود ہے اس ہمیں تھوڑا غور کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم اسلامی تعلیمات کو بغور پڑھیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ آجائے گا اور اس کی برکت سے ہماری دنیا و آخرت سنور جاۓ گی اللّہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کی توفیق بخشے (آمین)

Related posts

 آل انڈیا ریڈیو اردو سروس بحران کا شکاراور فروغ اردوکاکتاب میلہ کاجشن!

Siyasi Manzar

اہل غزہ کیلئے سعودی عرب کی بے مثال سخاوت

Siyasi Manzar

تابناک کل کے لیے : بھارت کی جی 20 صدارت اور ایک نئے کثیر پہلوئی نظام کا طلوع

Siyasi Manzar

Leave a Comment