Siyasi Manzar
مضامین

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پدرانہ معاشرے کا رویہ کب بدلے گا؟

تنوجا بھنڈاری
گڑوڑ، اتراکھنڈ
آزادی کے بعد سے ہندوستان میں تعلیم کے حوالے سے بہت سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔ مرکز سے لے کر ملک کی تمام ریاستوں تک کی حکومتوں نے اس سمت میں بہت سے مثبت اقدامات کیے ہیں۔ یہاں تک کہ نظریاتی اور سیاسی طور پر مخالف حزب اختلاف نے ہمیشہ اس مدعے پر حکومت کی حمایت کی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ رہا ہے جس پر سب کا اتفاق ہے۔ تمام حکومتوں کا بنیادی مقصد ملک میں شرح خواندگی کو بہتر بنانا رہا ہے۔ اس کے لیے وقتاً فوقتاً تعلیمی پالیسی بھی بنائی جاتی رہی ہے۔ ملک میں پہلی بار تعلیمی پالیسی 1968 میں نافذ کی گئی۔ اس کے بعد 1986 میں نئی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی اور سال 2020 کی نئی تعلیمی پالیسی اس سمت میں ایک اہم قدم ثابت ہوئی ہے۔ اس سب کے درمیان سال 2000، 2005 اور حق تعلیم ایکٹ 2009 تعلیم کے معیارکو بہتربنانے میں سنگ میل ثابت ہوئے ہیں۔ انہی کوششوں کی بدولت ملک کی شرح خواندگی میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔پورے نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ جس کے بہت مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ اگر ہم آزادی کے بعد سے خواتین کی شرح خواندگی پر نظر ڈالیں تو اس میں کافی بہتری آئی ہے۔ ملک میں کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں خواتین کی شرح خواندگی میں غیر متوقع بہتری آئی ہے۔ اس کے لیے جہاں مرکزی حکومت کی اسکیموں کو ایک عنصر سمجھا جاتا ہے وہیں ریاستی حکومتوں کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اپنی سطح پر چلائی جارہی مختلف اسکیمیں بھی اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

لیکن صرف حکومت کے یکطرفہ اقدام سے لڑکیوں کی تعلیم کے شعبے میں بہتری نہیں آئے گی۔ اس میں معاشرے کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ہر اس معاشرے میں بہت مثبت بہتری دیکھی گئی ہے جس نے خواتین کو بااختیار بنانے اور لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے میں پہل کی ہے۔ لیکن اس وقت بھی ہمارے ملک میں بہت سے دیہی معاشرے ہیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے لوگوں کی سوچ اب بھی منفی ہے۔ جہاں لڑکیوں کو تعلیم دینے کے بجائے پورا معاشرہ نہ صرف ان کی شادی کا خیال رکھتا ہے بلکہ خاموشی سے بچوں کی شادی (بال ویواح)کی حمایت کرتا ہے۔ایسا ہی ایک گاؤں اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع گڑڑ بلاک کا جوڈااسٹیٹ ہے۔ اس گاؤں کی کل آبادی 1784 ہے۔یہ گاؤں بلاک سے تقریباً 22 کلومیٹر اور ضلع ہیڈکوارٹر باگیشور سے تقریباً 48 کلومیٹر دور ہے۔ گاؤں میں زیادہ تر اعلیٰ ذاتوں کی آبادی ہے اور اس کی شرح خواندگی تقریباً 50 فیصد ہے۔ اس کے باوجود گاؤں کی زیادہ تر لڑکیوں کی شادی 12ویں کے بعد ہو جاتی ہے۔ تاہم، جہاں گاؤں کی خواتین لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کی بات کرتی ہیں، وہیں معاشرہ بارہویں کے بعد ان کی شادی کی بات کرتا ہے۔ اس حوالے سے گیارہویں جماعت میں پڑھنے والی نوعمر لڑکی کویتا بشٹ کا کہنا ہے کہ آج ہر لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر زندگی میں کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری مائیں جو ان پڑھ ہیں اپنے مستقبل کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔ وہ خود کو کسی کے سامنے اظہار کرنا بھی نہیں جانتی ہیں۔ وہ کسی کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار بھی نہیں کر پاتی ہیں۔ ہمارے ارد گرد بہت سی ایسی خواتین ہیں جو دستخط کرنا بھی نہیں جانتیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر لڑکی کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔ یہ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی مفید ہے۔ اگرشادی کے بعد ہماری زندگی میں کچھ غلط ہو جائے تواس تعلیم کی مدد سے ہم اپنے پاؤں پرکھڑی ہو سکتی ہیں۔ وہ نوکری کر کے اپنی زندگی گزار سکتی ہیں۔ ہمیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ایک اور نوعمر پوجا گوسوامی کہتی ہیں کہ ہم لڑکیوں کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر زندگی تاریک ہے۔ اگر ہم پڑھے لکھے ہوں گے تو ہم اپنے بارے میں کسی حد تک باشعور ہوں گے۔ علم نہ ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح آنکھوں کے بغیر ہماری زندگی میں روشنی نہیں، اسی طرح تعلیم کے بغیر ہماری زندگی بے معنی ہے۔ گاؤں کی 40 سالہ خاتون کھشٹی دیوی کہتی ہیں کہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کسی نعمت سے کم نہیں۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہیں تو وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکتی ہیں۔ وہ باشعور اور بااختیار بن سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے دور میں لڑکیوں کی تعلیم کے بہت کم آپشن تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں پانچویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکی۔ لیکن آج حکومت لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دے رہی ہے، اس لیے لڑکیوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور بہت زیادہ پڑھنا چاہیے۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ معاشرہ کیا کہتا ہے اور کیا سوچتا ہے؟ پڑھ کر مضبوط اور بااختیاربننے کی ضرورت ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری دونوں بیٹیاں اچھی تعلیم یافتہ ہوں۔ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں اور ایک کامیاب انسان بنیں۔ وہ میری طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے تڑپ نہ رکھیں۔ وہ صحیح اور غلط کے فرق کو سمجھیں اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ سب کچھ تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس سلسلے میں 36 سالہ نوجوان گاؤں کی گرام پردھان سشیلا دیوی اپنے گاؤں جوڈااسٹیٹ میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ پر مسلسل زور دے رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پہلے اور آج کے دور میں بہت فرق ہے۔ آئین میں سب کو برابری کا حق دیا گیا ہے۔ لوگوں کی سوچ بھی بدل گئی ہے۔ اب دیہات میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم فراہم کی جارہی ہے۔ آج گاؤں کی لڑکیاں 12ویں جماعت تک پڑھتی ہیں لیکن ان کے لیے مزید تعلیم ابھی بھی مشکل ہے۔ جس کے لیے بیداری پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی حد تک گاؤں میں معاشی طور پر خوشحال گھرانوں نے لڑکیوں کو بارہویں سے آگے پڑھانا شروع کر دیا ہے لیکن اکثر خاندان بارہویں کے بعد لڑکیوں کی شادیاں کر رہے ہیں جس کو ختم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگرچہ مرکزی اور ریاستی حکومت کی مختلف اسکیمیں اس سمت میں اہم ثابت ہورہی ہیں، لیکن سماج کو اس میں بڑا رول ادا کرنا ہوگا۔ جب تک گھر کے مرد لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور انہیں اسکول جانے کے لئے حوصلہ نہیں دینگے اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ (چرخہ فیچرس)

Related posts

علاقائی پارٹیوں کو مضبوط رکھیں

Siyasi Manzar

بین مذاہب شادیاں معاشرہ کیلئے لمحہ فکر یہ

Siyasi Manzar

ایک  مثالی شخصیت، ڈاکٹر احمد اشفاق کریم 

Siyasi Manzar

Leave a Comment