Siyasi Manzar
علاقائی خبریں

قرب قیامت خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ارض مقدسہ بیت المقدس ہوگی!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی اسعد قاسم سنبھلی اور مولانا عبد الباری فاروقی کا خطاب!

بنگلور، 18/نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ شاہ ولی اللہ مرادآباد کے مہتمم حضرت مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ نے فرمایاروئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلے گھر مسجد حرام خانہ کعبہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر ہوئی۔ یہ مسلمانوں کا قبلہئ اول ہے۔ معراج کے سفر میں بھی یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی منزل تھا، یہ بڑی بابرکت سرزمین ہے۔مولانا نے فرمایا یہ جب نبی کریمؐ کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ اسی وقت نبی کریم ؐنے بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت عمرؓنے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو یہود و نصاری کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا۔ فتح ہونے کے بعد کسی کا ایک قطرہ خون نہیں بہا تھا، کسی پر ظلم نہیں ہوا تھا اور انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ سب کی عام معافی کی جاتی ہے۔بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے سن 1099 (490ھ) میں صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا اور تقریباً ستر ہزار مسلمان شہید کر دیئے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے۔لیکن پھر سن 1087 (583ھ) میں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒنے بیت المقدس کو فتح کیاتو وہ کسی بھی طرح کا انتقام لینے کے بجائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس سنت کو زندہ کیا اور پھر عیسائیوں عام معافی دے دی۔ اس کے بعد ارض مقدسہ پر تقریباً 761/ برس مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی، یہاں تک کہ سن 1948ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ پھر سن 1967ء میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا اور اب پوری طرح انکے قبضہ میں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آج پوری دنیا سے یہودی اپنے مقتل ”اسرائیل“ میں جمع ہورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ قرب قیامت میں شام میں اسلام کا غلبہ ہوگا، قیامت سے قبل فتنوں کے ادوار میں ان علاقوں خصوصاً شام (بیت المقدس) میں رہائش اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ قرب قیامت جب فتنے بکثرت ہونگے تو ایمان اور اہل ایمان زیادہ تر شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔ مولانا نے فرمایا کہ فتنوں کے زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکر ہونگے اس دور میں آپؐ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہوگی۔ یہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا لشکر ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سب سے پہلی علامت حضرت امام مہدی ؑکا ظہور ہے، آخری زمانے میں جب مسلمان ہر طرف سے مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی، ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے، عرب میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہے گی، تو مسلمان امام مہدی ؑکو تلاش کریں گے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ قسطنطنیہ فتح کرکے شام کے لئے روانہ ہوں گے، دمشق میں انکا قیام ہوگا او دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا۔ اسی دوران سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا۔اور باب لد پر پہنچ کردجال کا قتل کریں گے۔ باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، جس پر اسرائیل غاصب نے قبضہ کر رکھا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت سے قبل مدینہ منورہ ویران ہوجائے گا اور بیت المقدس آباد ہوگا اور آخری وقت زمانہ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ارض مقدسہ بیت المقدس ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گا کہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے اور بیت المقدس آزاد ہوگا۔ اس وقت روئے زمین پر کوئی کافر نہیں رہے گا، سب مسلمان ہوں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس اور ارض فلسطین کے موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ بات واضح ہوچکی ہیکہ اب قیامت بہت قریب ہے۔
مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحفظ القدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دارالمبلغین لکھنؤکے استاذ حدیث حضرت مولانا عبد الباری فاروقی صاحب مدظلہ نے فرمایااس وقت فلسطین پر اسرائیلی بربریت کی سفاکانہ کاروائیوں اور حملوں سے دل چھلنی ہو کر رہ گیا ہے، ہزاروں مسلمانوں کا قتل، بچوں اور عورتوں پر ظلم و ستم، مساجد و مدارس کا انہدام، بیت المقدس کے تقدس کی پامالی اور ان جیسی بے شمار ذلیل حرکتوں نے روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں نے ہمیشہ ظلم ڈھائے ہیں چاہے وہ نبی ہوں بلکہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا۔ یہ قوم مسلسل بغاوت، سازش اور فساد کی علمبردار ہے۔ اس قوم پر رب کائنات نے متعدد بار لعنت کی ہے۔ اسرائیلیوں کی مکرو فریب کی پوری تفصیل قرآن پاک میں محفوظ کی گئی ہے۔ ہمیشہ سے ہی یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بنتے آئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کے ملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحم حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ غزہ تو مکمل ایک زندان بن چکی ہے۔ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کررہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہیکہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنان اسلام کی حمایت کررہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اگر مسلمان ممالک متحد ہوکر القدس کی بازیابی کے لیے جدوجہد کریں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس صہیونی طاقتوں کے قبضے سے آزاد نہ ہو۔ فلسطینی مظلوموں کی زبانی حمایت اور درپردہ صہیونیت نوازی نے اسرائیل کو مکمل ریاست کا درجہ دیدیا۔ آج فلسطین کے ناگفتہ بہ حالات دشمن کی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا نتیجہ کم، عالم اسلام کی غلامی اور بے حسی کا نتیجہ زیادہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ لیکن سلام ہو ان نہتے فلسطینیوں پر کہ وہ بیت المقدس کے تقدس کیلئے اور اپنے حق کے خاطر مسلسل قربانیاں پیش کررہے ہیں لیکن اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں، کیونکہ یہ مسئلہ فقط زمین کا نہیں اپنے ایمان کا مسئلہ ہے کیونکہ مسجد اقصٰی مسلمان کا قبلہئ اول ہے، یہ انبیاء علیہم السلام کا مسکن ہے، یہاں حضرت محمد رسول ؐ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرماکر امام الانبیاء کا لقب پایا، یہ سفر معراج کی پہلی منزل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمان یاد رکھیں کہ یہ یہودی وہ قوم ہے کہ جنہوں نے اپنے محسنین کے احسان کو فراموش کیا، جب ہٹلر نے انکی نسل کشی کی اور ان کے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں تھی تو ان پر اہل فلسطین نے احسانات کئے اور اپنی زمین انہیں دی اور اس احسانات کا یہ بدلہ دیا جارہا ہیکہ اہل فلسطین کو ہی اپنے گھروں سے بے دخل کرکے انہوں شہید کیا جارہا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ ایک دن آئے گا کہ ان یہودیوں کا نام و نشاں مٹ جائے گا۔ مولانا نے دوٹوک انداز میں فرمایا کہ ہم نہیں کہیں گے کہ فلسطین ہار گیا، مسلمان ہار گئے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ مسلمان جیت گیا اور انہوں نے شہادت کے عزیم مقام کو حاصل کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وہ ہارے ہیں کہ جو اپنی آنکھوں سے اس ظلم کے ننگے ناچ کو دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، جن کی غیرت ایمانی ان کو للکار نہیں رہی ہے، جن کا ضمیر اور دل مردہ ہو چکا ہے وہ ہار ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ جنگ ظلم و ستم اور جنگ قیامت تک جارہی رہے گی اور ان شاء اللہ مسلمان غالب آکر رہیں گے اور اللہ کے وہ بندے جو اس وقت روح زمین پر موجود رہیں گے احقاق حق کا پرچم بلند کرتے رہیں گے اور باطل کی سرکوبی کرتے رہیں۔ انہیں معلوم ہیکہ اس کا بدلہ جنت ہے یہی وجہ ہیکہ وہ اپنی پیاری عزیز جان اللہ کے راستے میں قربان کر رہے ہیں، اپنے بچوں کو راستے میں مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، وہ شہید ہو رہے ہیں لیکن یاد رکھنا وہ غالب آکر رہیں گے اور مسجد اقصٰی فتح ہوکر رہے گی۔ اس موقع پر مفتی اسعد قاسم سنبھلی اور مولانا عبد الباری فاروقی نے فرمایا ایسے حالات میں ہماری ذمہ ہیکہ ہم ان کی مدد و معاونت کریں، ان کیلئے دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کریں، انکے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔قابل ذکر ہیکہ دونوں اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

Related posts

مالیگاؤں کے سابق رکن اسمبلی آصف شیخ رشید کا دھولیہ میں شاندار استقبال

Siyasi Manzar

 اقلیتی مورچہ کے قومی صدر جمال صدیقی نے ورلڈ کپ فائنل میچ کے لیے میگا پلان تیار کیا

Siyasi Manzar

پاکوڑ سے 49،عازمین حج ہوئے روانہ والہانہ انداز میں احباب نے حجاج کو کیا وداع

Siyasi Manzar

Leave a Comment