Siyasi Manzar
مضامین

طائرکِ بلند بال دانہ و دام سے گزر


از- ڈاکٹر شکیل احمد خان

 جالنہ ، مہاراشٹرا

 8308219804

دوسری صدی ہجری کے نصف آخرکی ایک مسحور کن صبح مدینہِ منورہ کی مسجدِ نبوی کے ایک گوشے میں طلبہ پڑھائی میں مشغول ہیں۔اچانک ’ ہاتھی آیا ،ہاتھی آیا‘ کا شور بلند ہوا اور تمام طلبہ استاد سے اجازت لے کر باہر کی طرف دوڑ پڑے۔صرف ایک لڑکا اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھا ہے۔ اُس کے انہماک میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ استاد حیرت سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ بیٹا تم تو اندلس ( اسپین) سے آئے ہو، وہاں تو ہاتھی نہیں ہوتے، تم ہاتھی دیکھنے باہر کیوں نہیں گئے؟ جواب میں لڑکا جو الفاظ ادا کرتا ہے وہ سنہری ٖحرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ لڑکا بڑی استقامت اور اعتماد سے کہتاہے ، ’’ میں یہا ں ہاتھی دیکھنے نہیں آیا ہوں،پڑھنے کے لئے آیا ہوں ، پہلے میں پڑھوں گا، ہاتھی دیکھنا بعد کی بات ہے ‘ ‘۔ا ٓج دنیا اِس طالب علم کو یحیی بن یحیی مصمودی اور یحیی اندلسی کے نام سے جانتی ہے۔اور وہ خوش قسمت استاد تھے حضرت امام مالکؒ۔استاد نے بے ساختہ اپنے شاگرد کی پیشانی چوم لی اور کہا ’’تم اندلس کے تمام لوگوں سے ذیادہ عقلمند ہو‘‘۔آج حضرت امام مالک ؒکی تصنیف ’موطا‘کا جو نسخہ مروج ہے وہ اِنہی یحیی اندلسی کی روایت سے دنیا میں رائج ہے اور مستند ترین اور معتبر ترین قرار دیا جاتا ہے۔ موطا حدیث کے متداول اور معروف مجموعوں میں سب سے قدیم ہے ۔ اس بات سے یحیی اندلسی کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اندلس( اسپین )میں بادشاہوں سے بڑھ کر آپ کی عزت و توقیر تھی ۔یہ باتیں یوں یاد آگئی کہ آج اِس واقعہ کی معنویت کو عصری تناظر میںسمجھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔یحیی اندلسی کی عظمت صرف اُن کے علم و فضل کے باعث ہی نہیںہے۔ یحیی اندلسی مقصد کے واضح ترین تصو راور اپنے نصب العین پر پوری توجہ کا روشن استعارہ ہے ۔ کم عمر یحیی کو پتہ تھا کہ اُس وقت وہ وہاں کیوں موجود تھا۔اُس کا مقصد کیا تھا، اُس وقت کیا کرناضروری تھا اور کیا نہ کرنا درست۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ہم میں سے کتنوں کو پتہ ہے کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟ ہمارا مقصد کیا ہے؟ اِس وقت ہمارے لیے کیا کرنا ضروری ہے اور کن چیزوں کو چھوڑنا لازمی؟ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ہماری منزل کیا ہوگی؟کیا ہمارے اسلاف کی تاریخ اور بصیرت صرف زیب داستان کے لیے ہے؟ کیا اِس پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ ہاتھی دیکھنے والے طلبہ کو وقتی لطف اور گمنامی کے علاوہ کیا ملا اور یحیی اندلسی کو کیا مقام حاصل ہوا۔ کیا یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جس طرح انسان کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے اُسی طرح حصول ِ مقصد کے ساتھ دلچسپیاں، رنگینیاں اور ہزار ہا قسم کے attraction لگے ہوتے ہیں جو ہمیں للچاتے ،بہکاتے اور بھٹکاتے رہتے ہیںاور اُن سے پرہیز کیے بغیر منزل حاصل نہیں ہو سکتی ، بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ہر عہد ، ہر ملک اور ہر قوم کے عظیم و کامیاب افراد نے ہمیشہ ایسے ’ہاتھیوں‘ سے دامن بچاتے ہوئے اپنی منزل پر نظر رکھی اور اپنے مقصد کے حصول میں حائل دلچسپیوں، رنگینیوں او ر دلفریب چالوں کو نظر انداز کیا ۔ہر زبان کے کلاسیکی سرمائے میں اِس نکتے کو ادبی پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔فارسی اور اردو کی قدیم داستانوں میںاکثر جب کوئی شہزادہ کسی دور دراز کی اہم چیز کو حاصل کرنے خطرناک مشن پر روانہ ہوتا ہے تو اُسے آگاہ کیا جاتا ہے کہ راستے میں اُسے حسین پرچھائیاں نظر آئیں گی، سریلی آوازیں اُسے بلائیں گی۔لیکن اگر وہ اُن کی طرف متوجہ ہوگا یا پیچھے مڑ کر دیکھے گا تو فوراً پتھر کا ہو جائے گا۔شہزادہ بڑی استقامت سے اِن سے خود کو بچا کر منزل پر پہونچتا ہے۔ امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی شہرِ آفاق نظم Stopping by woods on a snowy evening میں ایک گھڑ سوار مسافر برف سے ڈھکے درختوں والے خوبصورت جنگل اور برفائی ہوئی جھیل کے درمیان سے گزر رہا ہے۔ماحول کا سکوت اور فطرت کا حسن اُسے مبہوت کیے دیتا ہے۔گھوڑا اپنے گلے کی گھنٹی ہلا کر اُسے متوجہ کرتا ہے اورمسافر کو احساس ہوتا ہے کہ اگرچہ کہ منظر بہت دلفریب ہے لیکن اُسے کئی وعدے پورے کرنا ہے اور سونے( منزل پر پہونچنے) سے پہلے کئی میلوں کا سفر طے کرنا ہے۔لہذا وہ زیادہ دیر وہاں نہیںرُک سکتا۔ احساسِ ذمہ داری، فرض اور منزل پہ نظر رکھنے سے متعلق یہ بہترین اور مترنم نظم علامہ اقبال کی نظم ’ تو ابھی رہ گزر میں ہے، قیدِ مقام سے گزر‘ کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ اُس کا آخری بندبعد از مرگ پنڈت نہرو کی تحریر میں اُن کی میز کی دراز سے بھی برامد ہوا تھا۔ Woods are lovely dark and deep / But I have promise to keep / And miles to go befor I sleep / And miles to go befor I sleep .
جو لوگ ان چیزوںکا شکار ہو جاتے ہیں وہ حصولِ مقصد سے محروم رہ جاتے ہیں ۔اس ضمن میں ہندئوں کی مذہبی کتاب مہابھارت سے ایک مثال پیش کی جا سکتی ہے۔کہتے ہیں کہ مشہور رشی وشو متر مہارُشی بننے کے لیے ایک دفعہ طویل اور سخت تپسیا (ریاضت) شروع کرتا ہے۔اِس سے دیگر دیوتاوںکو خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔لہذا اندر دیوتا مینیکا نامی حسین رقاصہ کو اُسے راہ سے بھٹکانے کے لیے روانہ کرتا ہے۔ مینیکا اپنے گیت، رقص اور اداوئں سے بالآخراُسے اپنی طرف مائل و راغب کر لیتی ہے۔ وشو متر کی تپسیا بھنگ ہو جاتی ہے اور وہ ایک بڑی کامیابی سے محروم رہ جاتا ہے ۔ اِسی طرح عہدِ قدیم سے سیاسی، استعماری اور منفی طاقتیں انسان کی اِس فطرت کا استحصال کرتی آئیں ہیں۔عوام کو اصل مسائل سے غافل کرنے اور ان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے مقصد سے انھیں مختلف دلچسپیوں ، رنگینیوں اور کھیل کود میں مشغول و مدہوش رکھا جاتا ہے۔یاد رکھیے، یہ گھوڑے، یہ ہاتھی، یہ فائٹر ، یہ ایکٹر، یہ کرکیٹرسب آپ کو الجھائے رکھنے ، مقصد سے غافل کرنے اورتعمیری کاموں سے روکنے والی چیزیں ہیں۔یہ و ہ ہاتھی ہیں جو باضابطہ منظم طریقے سے ووقتاً فوقتاً آپ کے اطراف لائے جاتے ہیں تا کہ آپ مذکورہ بالا طلبہ کی طرح اپنا درس اور مقصد چھوڑ کر انہیں دیکھنے دوڑ پڑیں۔ حال ہی میں پیش آئے ایک واقعہ کی تفصیلی مثال سے اِس نکتے کو واضح کیا جا سکتا ہے۔آپ کو یاد ہوگا ابھی ابھی ایک قوی الحثہ ہاتھی اپنی سونٹھ لہراتا ہوا ہمارے معاشرے سے گزرا ہے۔ ہم غزہ کے لیے دعاوں میں مشغول تھے کہ شور اٹھا ’ ورلڈ کپ، ورلڈکپ‘ اورچھوٹے بڑے سب اس ہاتھی کو دیکھنے دوڑ پڑے۔ Audience Research Council BARC Broadcast نے جاری کیے ڈیٹا کے مطابق صرف ہنددوستان میں 518 بلین افراد نے 422 بلین منٹ تک ٹی وی پر ورلڈ کپ ۲۰۲۳ء کے میچیس کو دیکھا۔اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے والے لوگ اِس عدد میں شامل نہیں ہیں۔ہمارے پاس کھیل دیکھنے والوں کا کمیونٹی کی بنیاد پر ڈیٹا دستیاب نہیںہے لیکن ایسے معاملوں میںہماری حصہ داری کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ اِس سے زیادہ بے حسی اور ناعاقبت اندیشی کیا ہو سکتی ہے کہ ملت کے کئی کئی بلین افراد کئی کئی بلین منٹ ’ہاتھی‘ دیکھنے کے لیے نکال پاتے ہیں جبکہ معاشی بدحالی، سیاسی استحصال اور تعلیمی پسماندگی کی آندھیاں اُٹھ رہی ہیں۔ہر روز نت نئے فتنے سر ابھار رہے ہیں۔ بڑی حیرت ہوتی ہے جب قوم ان حالات میں بھی ہاتھی دیکھنے دوڑ پڑتی ہے جب گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اِن ناگفتہ بہ حالات میںہمارا ایک ایک لمحہ، ایک ایک پیسہ اور ہماری انرجی کی ایک ایک کیلری اپنے مقصد کے حصول اور اپنی کشتی کو بھنور سے بچانے میں صرف ہو۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارا کوئی مقصد ہی نہیں ہے یا ہم حد سے زیادہ سادہ لوح ہیں۔ عالمی اسپورٹس مقابلے نچلے اور متوسط طبقے کے نادان عوام کو دی جانے والی افیم ہے تا کہ ان لغویات کا شکار ہو کر وہ نہ تو سوچے سمجھے یا ترقی کرئے۔کبھی اس پر بھی غور کیجیے کہ اسرائیل کی کرکٹ ٹیم کیوں نہیں ہے؟ امریکہ کی کرکٹ ٹیم کیوں نہیں ہے؟ روس کی چین کی جاپان کی فرانس کی سوئزرلینڈ کی کرکٹ ٹیم کیوں نہیں ہے؟ کرکٹ ٹیمیں ہیں تو سری لنکا کی، بنگلہ دیش کی، پاکستان کی،ہندوستان کی اور برطانیہ کے غلام رہ چکے ممالک کی۔کھیل کودکی اہمیت اور تفریح کا جواز دینے والوں کی خدمت میں جارج آرویل کے مضمون The Sporting Sprit کا یہ اقتباس پیش ہے۔’’ گاوئں کے ہرے بھرے میدان پر جہاں آپ ( کھیل کے لیے) گروپ بنا لیتے ہیں اور جہاں مقامی حب الوطنی کے جذبات کا عمل دخل نہیں ہوتا ، وہاں پر تو یہ ممکن ہے کہ آپ صرف تندرستی اور تفریح کے لیے کھیلیں۔ لیکن جیسے ہی وقار کا سوال سامنے آتا ہے، جیسے ہی آپ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ شکست کی صورت میں آپ کی یا کسی ایک بڑے گروہ کی تذلیل ہوگی توفوراً وحشیانہ مقابلہ جاتی جبلتیں عود کر آتی ہیں ۔رومن عہد اور ۱۹ وی صدی کے درمیان کھیلوں کو ذیادہ اہمیت حاصل نہیں رہی۔ پھر برطانیہ اور امریکہ میں کھیلوں کو بھاری سرمایہ کاری سے لتھڑی ایک سرگرمی میں تبدیل کر دیا گیا ‘‘۔ عالمی کرکٹ مقابلے کھیل نہیں، سیاست ہے، تجارت ہے ۔خود کھیلنے کی بات تو سمجھ میں آبھی سکتی ہے لیکن آلو چپس کے ساتھ کوک پیتے ہوئے اسکرین پر اپنا قیمتی وقت، پیسہ اور صحت برباد کرنے والوں کی نیک توفیق کے لیے خدا سے دعا ء ہی کی جا سکتی ہے۔رہی بات تفریح کی توبہو بیٹیوں کی عصمت دری کرنے والوں کو ہار پہنتے ہوئے دیکھنے کے بعد بھی، معصوم لاغر بچوں کو کچرے کے ڈھیروں میں روٹی کے ٹکڑے ڈھونڈتے ہوئے دیکھنے کے بعد بھی آپ کا دل تفریح کرنا چاہتا ہے تو مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ کاش قوم کے اُتنے بلین افراد اُتنے بلین منٹ کچھ کتابیں پڑھ لیتے یا چار پیسے کمانے میں صرف کرتے تو قوم کے نڈھال جسم میں کچھ طاقت آجاتی۔ ذہن نشین رہے کہ ہم اِس وقت حالت ِجنگ میں ہیں، ہمارے وجود کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اگر ہاتھی دیکھنا غلط نہیں بھی ہے تو بھی اِس وقت ہم کسی بھی قسم کے ہاتھی کو دیکھنے کے موقف میں نہیں ہیں، جیسے اُس وقت یحیی اندلسی ہاتھی دیکھنے کے موقف میں نہیں تھے۔اِس وقت تویحی اندلسی کی طرح پوری توجہ صرف پڑھائی پر دیجیے،معاشی استحکام ، آپسی بھائی چارے اور برادرانِ وطن سے روابط پر توجہ دیجیے۔ اِن مقاصد سے بھٹکانے والی دلچسپیوں کا شکار مت بنیے، اُن پرندوں کی مانند نہ ہو جایئے جو دانہ تو دیکھتے ہیں جال نہیں۔ مت بھولیے کہ ابھی ہم راہ گزر میں ہیں، ہمیں کئی وعدے پورے کرنا ہے، کئی میلوں کی مسافت طے کرنا ہے۔ منزل پہ پہونچ جائیں تو ہاتھی بھی دیکھ لینا۔ اِس وقت تو علامہ اقبال کی نصیحت پیشِ نظر رہے کہ
گرچہ ہے دلکشا بہت حسنِ فرہنگ کی بہار
طائرکِ بلند بال دانہ و دام سے گزر

Related posts

سی اے اے،شہریت چھیننے کا نہیں بلکہ شہریت دینے کا قانون ہے

Siyasi Manzar

تابناک کل کے لیے : بھارت کی جی 20 صدارت اور ایک نئے کثیر پہلوئی نظام کا طلوع

Siyasi Manzar

بابری مسجد کے بعد اب گیان واپی جامع مسجد 

Siyasi Manzar

Leave a Comment