ممبئی(پریس ریلیز)مولانا ممتاز احمد سالک بستوی جو ملک اور جماعت کے ایک مایہ نازشاعر اور منفرد لب و لہجے کے مالک ادیب اور قلم کار تھے اب اس دنیا میں نہ رہے۔۔ انا انا لله وانا اليه راجعون03/فروری2024 ء بروز سنیچر اچانک سوشل میڈیا کے ذریعے سے یہ خبر گردش میں آئی کہ ایک بائیک ایکسیڈنٹ میں مولاناسالک بستوی حادثے کا شکار ہو گئے اور ایکسیڈنٹ اتنا شدید تھا کہ جگہ پر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے، ابھی چند ماہ قبل ممبئی کے دورے پر آئے تھے اور اپنی درد مندی اور کرب اور بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بچے کے سلسلے میں پریشانی کا اظہار کر رہے تھے اور شاید اسی بچے سے ملاقات کے لیے اپنے سرحدی وطن غوری، بجھا بازار سے ملک نیپال میں گئے تھے تاکہ اس سے ملاقات ہو سکے مگر شاید”حكم ربي” کچھ اور تھا اور اس طرح اچانک حادثاتی طور پر موت کے شکار ہو گئے کہ فوری طور پر کسی کا یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا مگر اللہ کا فیصلہ اٹل ہے اور موت برحق اور یقینی ہے اس لیے چار و ناچار اسے قبول کرنا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے.
بہر صورت یہ حادثہ اہل علم کے لیے اور جمعیت اور جماعت سے جڑے ہوئے ذمہ داران اور علماء کے لیے بڑا ہی جانگسل ہے، وہ شخصیت جو ہمیشہ کسی کے مرنے پر انتہائی خوبصورت انداز میں اس کے علم اور شخصیت کی عکاسی کرتے ہوئے تعزیتی کلام پیش کیا کرتی تھی ،آج وہ خود تعزیت کی محتاج ہو چکی ہے اور یہی اللہ رب العالمین کا دستور ہے ،مولائےکریم سے دعا ہے کہ مولا کریم آپ کی بال بال مغفرت فرمائے۔
مولانا موصوف کا پورا نام ممتاز احمد بن محمد علی ہے،
آپ غوری بازار بجھا ضلع سدھار نگر کے رہنے والے تھے اورشعری تخلص” سالک بستوی” لكھتےتہے اوراسی نام سے شعروادب کی دنیا میں شہرت رکھتے تھے ۔
آپکی پیدائش غالبا 1960ءکے آس پاس ہے۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار محمد علی صاحب اور مدرسہ دینیہ مونگا ڈیہہ بیگ میں حاصل کی اورفارسی وعربی کی شروعات مدرسہ دارالہدیٰ یوسف پور میں کی ۔بعدہ خطہ گونڈہ بستی کی معروف درنشگا جامعہ سراج العلوم بونڈیہار بلرام پور میں عربی درجات کی تعلیم حاصل کی اور اسکے بعد مئو کی معروف دینی درسگاہ جامعہ عالیہ عربیہ سے منسلک ہوئے اور وہیں سے سن 1982ء میں فراغت ہوئی ۔ابتدا سے ہی آپ شعر و شاعری کا بہترین ذوق رکھتے تھے۔ آپ کا بیان ہے کہ 1973ءسے ہی اس میدان میں آپ نے قدم رکھا جب وہ دارالھدی یوسف پور کے طالب علم تھے اور رفتہ رفتہ آپ کے قلم میں پختگی اور شعر و سخن کی دنیا میں شہرت آگے بڑھتی گئی ،شعروادب کی دنیا میں آپ نے حیرت بستوی ،فضا ابن فیضی اور مجاز اعظمی رحمہم اللہ جیسے نابغہ فن سے اصلاح لی ۔آپ کے مجموعہ ہائے کلام اور دیگر دینی وتربیتی کتابوں کی تعداد دو درجن سے متجاوز ہے ۔جس میں نکہت اسلام، لالہ صحرا ،تنویر حرم، قوس قزح، نغمہ دل نواز، فردوس نظر ،سخن معتبر ،متاع ہنر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
آپکے اشعار ملک کے مختلف جرائد اور رسائل میں شائع ہوا کرتے تھے خاص طور پر جریدہ ترجمان دہلی اور ماہنامہ صوت الاسلام کاندیولی ممبئی میں اکثر و بیشتر آپ کے شعری مجموعے نظر آتے تھے ۔
صوت الاسلام کاندیولی ممبئی کے معروف ایڈیٹر شیخ عبدالجبار صاحب سلفی حفظہ اللہ کے پاس ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی اور تحریر کردہ دو شعری مجموعہ ابھی بھی موجود ہے جس کو انہوں نے شیخ ضمیرمدنی کے حوالے سے ماہنامہ میں مسلسل شائع کرنے کے لیے دیا تھا اور اس پر مولانا عبدالرحیم صاحب امینی حفظہ اللہ کی تقریظ اور پیش لفظ بھی ہے، پہلا شعری مجموعہ "ارمغان حمد” اور دوسرا "مہر منور” کے نام سے مولانا موصوف رحمہ اللہ کے ہاتھوں کی خود تحریر اور نام اور دستخط کے ساتھ اصل کاپی کی شکل میں موجود ہے .ان شاءاللہ ان کے متعلقین سے رابطہ کر کے اگر اس کی کاپی ان کے پاس نہیں ہوگی تو ضرور پہنچائی جائے گی۔ ماہ نامہ صوت الاسلام میں آپ کے شعری مجموعے مسلسل کئی برسوں سے شائع ہو رہے تھے اور طلبہ و طالبات کی منظور نظر تھے۔خاص طور پر مکاتب میں ان اشعار کو حمد و نعت کی شکل میں خوب سراہا جاتا تھا اور بچے اور بچیاں اپنی خوبصورت آواز میں اسے پڑھ کر کے داد تحسین حاصل کرتے تھے ۔اللہ رب العالمین شیخ مرحوم کو جزائے خیر عطا فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کی ان خدمات کا انہیں بھرپور بدلہ عطا فرمائے۔
اسی کے ساتھ آپ اپنے آبائی وطن میں الاصلاح ایجوکیشن اینڈ ویلفیر سوسائٹی کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی تھی۔جس کے زیر اہتمام جامعۃ الاصلاح غوری اور بچیوں کا نسواں ادارہ جامعۃ المحسنات وغیرہ چلاتے تھے اور پورے علاقے میں ویلفیئر اور خیر و بھلائی کے کاموں میں پیش و پیش رہاکرتے تھے۔یہ ادارہ اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل تھا یہ ملک ہندونیبال کے سرحدی علاقے بجھا بازار کے پاس واقع تھا اور دونوں خطوں کے غریب اور نادار طلباء اور طالبات ادارے سے فیضیاب ہوتے تھے۔اللہ کرے کہ مولانا کی رحلت کے بعد ان کے قائم کردہ یہ ادارے شاد اور آباد رہیں اور ان کا فیض ہمیشہ جاری اور ساری رہے۔
ان کا انتقال دراصل پوری جماعت و ملت خصوصا ادبی وعلمی دنیا بالخصوص جماعت اہل حدیث سدھارتھ نگر اورسرحدی خطے ہند ونیپال کے مسلمانوں کے لیے بڑا خسارہ ہے۔پسماندگان میں اہلیہ،آپکے بھائی مشہور شاعر مولانا راشد سراجی صاحب دو صاحب زادے اور پانچ صاحبزادیاں ہیں۔یہ ۔یہ باتیں ممبئی کے معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی استاد جامعہ رحمانیہ کاندیولی ممبئی نے پریس ریلیز کے طورپر جاری کیں۔ اوراللہ رب العالمین سے دعا کی کہ مولائے کریم آپ کےپسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مولانا کے سئیات کو دامن عفو میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی بال بال مغفرت فرما کر جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین۔