Siyasi Manzar
مضامین

بابری مسجد کے بعد اب گیان واپی جامع مسجد 

محمد ہاشم القاسمی
(خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
اتر پردیش کے مشہور شہر بنارس کی ایک عدالت نے گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانے میں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس فیصلہ کے مطابق اب ہندو مذہب کے ماننے والے گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کر سکیں گے۔ضلع جج اے کے وشویش نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ "بنارس (وارانسی ) کے ضلع مجسٹریٹ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ یہ پوجا تہہ خانے میں کاشی وشوناتھ ٹرسٹ اور عرضی گزار کے ذریعے نامزد کیے گئے ایک پجاری کے ذریعے کی جائے اس کے لیے ایک ہفتے کے اندر لوہے کی بیریکیڈنگ وغیرہ کا انتظام پورا کیا جائے۔ وہ ایک ہفتہ کے اندر مسجد کے جنوبی تہہ خانے میں ہندوؤں کی پوجا کے لیے ضروری انتظامات کرے۔ یہ انتظامات ہوتے ہی پوجا شروع کی جا سکے گی”۔مگر اس فیصلے کے چند گھنٹے بعد ہی رات میں ہندوؤں نے مورتیوں کی پوجا کرنے کی تیاری شروع کردی اور اس طرح آناً فاناً جمعرات کی نصف شب مسجد کے احاطے میں ہندوؤں نے اپنی مذہبی رسومات بھی ادا کیں۔
عدالت کے فیصلے کے بعد ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے کہا ’جس طرح جج کے ایم پانڈے نے 1986 میں ایودھیا کے رام مندر ( بابری مسجد ) کا تالا کھولنے کا حکم دیا تھا۔ میں آج کے اس حکم کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔یہ اس کیس کا ٹرننگ پوائنٹ ہے”. واضح رہے کہ ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد پر بھی ہندو فریق نے پہلے دعوی کیا تھا، پھر مسجد کے اندر مورتیاں رکھ دی گئیں اور پھر ایک مقامی عدالت نے بابری مسجد کے اندر ہندوؤں کو پوجا کرنے اجازت دے دی تھی۔ پھر ایک وقت وہ آیا جب مسجد کو منہدم کر دیا گیا اور عدالت نے مسجد کی جگہ مندر کے حوالے کر دی جہاں اب ایک شاندار رام مندر تعمیر ہو چکا ہے.
جس وقت ایودھیا میں رام جنم بھومی کی تحریک اپنے عروج پر تھی اس وقت تحریک کی دو اہم ہندو تنظیمیں (1) وشو ہندو پریشد اور (2) بجرنگ دل صرف ایودھیا کی بابری مسجد ہی نہیں بلکہ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ بھی ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے دور سلطنت میں ہزاروں مندر توڑے ہیں۔ اگر مسلمانوں نے ایودھیا، بنارس اور متھرا کی یہ تین عبادتگاہیں ہندوؤں کے حوالے نہیں کیں تو وہ "تین ہزار عبادت گاہوں” کا مطالبہ کریں گی۔
ہندو تنظیموں کی فہرست میں جو مسلم عمارتیں اور عبادت گاہیں ہیں، ان میں دلی کا لال قلع، قطب مینار، پرانا قلعہ، جامع مسجد اور آگرہ کا تاج محل بھی شامل ہیں۔ اس وقت کی کانگریس حکومت نے 1991 میں مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایک قانون پارلیمنٹ میں منظور کیا۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ "15 اگست 1947 کو ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس مذہب کی تھی۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی اور نہ ان پر کوئی تنازع کھڑا کیا جا سکتا ہے”. صرف بابری مسجد کو اس قانون سے الگ رکھا گیا تھا کیونکہ یہ تنازع ‏عدالت عالیہ میں تھا اور یہ کہا گيا کہ اس کا فیصلہ عدالت سے ہی ہوگا۔ عبادت گاہ تحفظ قانون سے یہ امید کی گئی تھی کہ اس قانون کے بعد مستقبل میں بابری مسجد، رام مندر طرز کا کوئی نیا تنازع جنم نہیں لے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا چنانچہ تازہ ترین واقعہ میں وارانسی کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جسٹس اے کے وشویش پر مشتمل یک رکنی بینچ نے پانچ ہندو خواتین کی اُس درخواست کو قابل سماعت قرار دیا جس میں انہوں نے گیان واپی مسجد کے ایک حصے میں یومیہ پوجا کرنے کی اجازت مانگی تھی، ماہرین کا کہنا تھا کہ وارانسی کی عدالت نے کسی قانون کے حوالے کے بجائے جج اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پوجا کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کیا تھا ۔ ایسا ماننے والے ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عموماً عدالت کسی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے وقت قانون کا حوالہ دیتی ہے لیکن وارانسی کی عدالت نے اس معاملے میں کسی قانون کا حوالہ نہیں دیا تھا ۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ عدالت نے مسجد میں پوجا کے حق کی درخواست کو تسلیم کر کے ایک طرح سے مسجد کو ہندوؤں کے حوالے کر دینے کی راہ ہموار کرنے کی سمت میں ایک قدم بڑھا دیا تھا، کچھ قانونی جانکاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے عدالت نے یہ فیصلہ سنایا تھا ۔ ایسا ماننے والوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب جہاں بھی کسی مسجد کے معاملے میں کوئی تنازع ہو گا اور ہندو فریق پوجا کی اجازت مانگیں گے، تو وہاں اس فیصلے کو نظیر بنا کر پیش کیا جائے گا. برصغیر میں مغلیہ سلطنت نے شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں یہ مسجد 17ویں صدی میں ہندوؤں کے مقدس شہر وارانسی کے گیان واپی علاقے میں تعمیر کی تھی۔جس سے مسجد کا نام گیان واپی کی مسجد کے طورپر مشہور ہوگیا۔ اس شہر میں ملک بھر سے ہندو مذہب کے پیروکار اپنے پیاروں کی لاشوں کو دریائے گنگا کے کنارے جلانے یا ان کی استھیاں اس دریا میں بہانے کے لیے آتے ہیں۔
گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ پرعدالت کے فیصلے سے متعلق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے جمعہ کو راست طور پر عدالت پر سوال اٹھایا۔ بورڈ نے کہا کہ عدالت کا جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ ہے۔ آپس میں دوری پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ دلیل کی بنیاد پر فیصلہ ہو۔ گیان واپی میں جو ہو رہا ہے، اس سے صدمے میں ہیں۔ چھینی ہوئی زمین پرمسجد نہیں بن سکتی ہے۔ لوگوں کا بھروسہ نہیں ٹوٹنا چاہئے۔ اس پر اب ہم سپریم کورٹ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے فریق کی بات بھی سنی جانی چاہئے۔ وارانسی ضلع عدالت نے بدھ کو مسجد کے جنوبی تہہ خانہ میں ہندوؤں کی پوجا کوپھرسے شروع کرنے کی اجازت دے دی، یہ روایت تین دہائی پہلے بند کردی گئی تھی۔
 واضح رہے کہ بروز بدھ کے 30 جنوری گیان واپی مسجد انتظامیہ کمیٹی نے ضلع عدالت کے حکم کو چیلنج دیتے ہوئے فوری سماعت کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن عدالت عظمیٰ نے کمیٹی کو الہ آباد ہائی کورٹ جانے کے لئے کہا، یکم فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ میں مسلم فریق نے عرضی داخل کی، جہاں 2 فروری کو سماعت ہوئی، لیکن ہائی کورٹ نے پوجا کرنے کی اجازت پر روک لگانے سے انکارکردیا۔ اب اس معاملے میں آئندہ سماعت 6 فروری کو ہوگی۔ تب تک پوجا پرعدالت نے روک نہیں لگائی ہے۔
عدالت کے فیصلے سے متعلق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے راست طور پر عدالت پرسوال اٹھایا ہے بورڈ نے کہا کہ "عدالت کا جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ ہے۔ آپس میں دوری پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ دلیل کی بنیاد پرفیصلہ ہو۔ گیان واپی میں جو ہو رہا ہے، اس سے صدمے میں ہیں۔ چھینی ہوئی زمین پرمسجد نہیں بن سکتی ہے۔ لوگوں کا بھروسہ نہیں ٹوٹنا چاہئے۔ اس پراب ہم سپریم کورٹ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے فریق کی بات بھی سنی جانی چاہئے”.
گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دینے پر سخت رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے امیر الہند، جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا سید ارشد مدنی نے دعویٰ کیا کہ” بابری مسجد کے فیصلے کے معاملے میں سپریم کورٹ نے یہ راستہ دکھایا ہے اور لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد کمزور ہوا ہے”۔یہ بات انہوں نے گیان واپی جامع مسجد پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد سے اس طرح کے مسائل سے مسلمان گھرے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کو بابری مسجد کے سلسلے میں قانون کے مطابق فیصلہ کرنا تھا لیکن سپریم کورٹ نے بابری مسجد ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے بھی محض ” آستھا ” کی بنیاد پر فیصلہ سنایا جس کی وجہ سے آج کل عدالتوں سے اس طرح کے فیصلے صادر ہورہے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کے سلسلے میں دلائل کی بنیاد پر فیصلہ قبول کرنے کی بات کہی تھی لیکن جو فیصلہ آیا وہ ہم نے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے وکلاء اور دانشوروں نے بھی اس فیصلے سے اختلاف کیا” ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ” گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کے فیصلے سے ہر انصاف پسند شہریوں کو صدمہ پہنچا ہے مسلمان اس فیصلے سے رنج کی حالت میں ہے، انہوں نے کہا کہ مسلمان کسی غصب کی گئی زمین پر مسجد نہیں بناتا اور جب مسجد نبوی بنائی گئی تھی تو زمین خرید کر بنائی گئی تھی، بلا اجازت کسی جگہ پر مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے، اسلامی سوچ اور تاریخ یہی ہے کہ مسجد کسی کی عبادت گاہ توڑ نہیں بنائی جاتی”۔ جمعیۃ اہل حدیث کے امیر حضرت مولانا اصغر امام مہدی سلفی نے کہا کہ” عدالت کا جو فیصلہ آیا ہے وہ کسی پروسیزر پر عمل کئے بغیر ہے بلکہ 1991عبادت گاہ قانون کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کو اچھی طرح اٹھائے امن و قانون برقرار رکھتے ہوئے اس مسئلے کو اجاگر کرے” ۔
جماعت اسلامی کے نائب امیر ملک معتصم نے عدالت کے فیصلے کوعدالتی اصول کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ” اے ایس آئی کی جو رپورٹ ہے وہ صرف دعوؤں پر مبنی ہے اور اس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے عدالت کا وقار اور احترام مجروح ہوا ہے”. حضرت مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ "عدالت کے اس فیصلے سے ہندوستانی عدالتی نظام پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ عدالت عالیہ بھی تکنیکی بنیاد پر دخل دینے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے میں ہم کہاں جائیں گے کس سے کہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بات اس حد تک نہیں بڑھنے دینا چاہئے کہ ملک کے حالات خراب ہوجائیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ہمارے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ جبکہ انصاف اور انصاف کے تقاضے پورے کرنا سب کی ذمہ داری ہے لیکن اس وقت ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا نظام چلانے کی کوشش ہو رہی ہے”. یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے ’ورلڈ رپورٹ 2024‘ میں حکومت ہند کو بی جے پی کی حکومت کے بجائے ہندو وادی حکومت قرار دیا ہے.

(قلم کارکے نظریات ان کے اپنے ذاتی ہیں ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

Related posts

مین کیمف :پرایک طائرانہ نظر ”Mein Kampf”

Siyasi Manzar

سوامی اسمرنانندابدی سفر پر روانہ

Siyasi Manzar

اہل غزہ کیلئے سعودی عرب کی بے مثال سخاوت

Siyasi Manzar

Leave a Comment