Siyasi Manzar
مضامین

انسان کا سچا دوست اس کی اپنی ہی ذات ہے

از- مولانا محمد نعمان رضا علیمی بنارس
          دوستی کے کئی معانی ہیں جو ہمیں سمجھانے جاتے ہیں۔ سچا دوست ایسا ہوتا ہے سچا دوست ویسا ہوتا مگر جہاں تک میرا تجربہ ہے انسان کا سچا دوست اس کی اپنی ہی ذات ہے۔ اگر خود سے دوستی نبھادی تو سمجھو کہ دوستی کا حق ادا ہو گیا۔ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ چلیے ایک ایک نقطہ پر غور کرتے ہیں قوت فیصلہ یعنی اچھے برے کا امتیاز ہو چنا بغور و فکر تجزیہ ۔ پھر آتی ہے ذہانت جس میں یادداشت خیال – تصورات اور منصوبے آتے ہیں۔ یادداشت کا مقام ہوتا ہے جو کہ دماغ کے ایک حصے میں ریکارڈ ہو جاتا ہے جس سے شعاعیں نکل کر اعصاب اور شریان کے ذریعے زبان تک آتی ہیں اس میں بھی دو خانے ہیں ایک مثبت تو دوسرا منفی، اور یہ مشاہدہ ہے کہ مثبت خانہ زیادہ محیط ہوتا ہے۔ پھر نمبر آتا ہے جذبات کا جو کہ بہت بڑا خزانہ ہے جس کے تار دل سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ عقل آخر ہے کیا چیز؟ یہ صرف ایک مادی چیز مغز نہیں ہے عقل ان تمام جذبوں کا مجموعہ ہے۔ انسان دیکھتا ہے، ہو چتا ہے پھر رد عمل دیتا ہے۔ مثلا کسی کی خوبیوں سے متاثر ہوئے تو اچھے خیالات پیدا ہوئے اس کے نقش پا پر چلنے کا عمل شروع ہوا، جسے تقلید کہا جاتا ہے۔ کوشش کی کامیابی ملی، اس کی ستایش ہوئی ۔ اب اس کا رد عمل مثبت ہے تو وہ مزید بہتر بننے کی سعی کرے گا منکسر المزاج رہے گا لیکن اگر منفی اثر لیا تو اس میں غرور و تکبر پیدا ہو جاتا ہے۔ تو مثبت سوچ ہی ہماری سچی دوست ہے، زندگی کے ہر موڑ پر اپنے آپ سے پوچھنا ہے اپنا احتساب کرتا ہے اور اگر اپنے ضمیر کی آواز کہے کہ یہ غلط ہے تو اپنی اصلاح کرتا ہے۔ آپ کا اپنا دوست آپ کو حد میں رہنے کا مشورہ دے گا۔ دماغی توازن کا بگڑنا آپ نے سنا ہی ہوگا یہ مثبت اور منفی سوچ کے بیچ کا توازن ہے۔ اگر خدا نے ہمیں اور آپ کو یاد رکھنے کی قوت دی ہے تو دوسری طرف بھول جانے کا بھی خانہ ہے۔ اگر بری یادوں کو اپنے سینے سے لگائے رکھیں گے تو اس کے انبار تلے اچھی یادیں اور تاثرات دب جائیں گے۔ رب نے جس طرح ہر مخلوق کو جوڑے میں پیدا کیا اسی طرح ان جذبات کی بھی اپنی جوڑی ہے، جو کہ متضاد کیفیت ہیں۔ مثلا بدلہ لینا یا درگز کردینا محبت یا نفرت، خوشی یا غم ، جوش یا سرد مہری، اطمینان یا اضطراب، عزت یا ذلت، رحم یا ظلم وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے تاثرات اور جذبات رہتے تو ایک ہی دماغ میں ہیں مگر ہر وقت ساتھ نہیں رہتے آپ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنا جھکاؤ، اپنا پلڑا کس طرف بھاری رکھیں۔ دل میں محبت قائم کرنے کے لئے دماغ سے اپنے اندر کی تمام نفرتوں سے جنگ کرنی پڑتی ہے۔ دل کو مطمئن رکھنے کے لئے دماغ کی بے چینی کا گلہ گھوٹنا پڑتا ہے اگر کہیں ذلیل ہو جائیں تو جہاں آپ کی عزت ہو وہاں رہیں۔ ذلت کا بدلہ اگر آپ بھی دوسروں کو ذلیل کر کے لیں گے تو منفی جذبے آپ پر حاوی رہیں گے تو بس پھر لب ولباب یہ ہے کہ اپنے بھی دوستوں یعنی خوشی ، محبت، روشنی، اطمینان اور نیکی کی ایک فوج بنائیں جو آپ کے دشمن یعنی بعض، کدورت، کینہ ، غصہ، متک، حسد اور رقابت کو شکست دے سکیں۔ دل میں خواہشات کا ایک چمن ضرور آباد کریں مگر کوشش، جدو جہد ، قناعت پسندی اور صبر شکر کے ساتھ اس چمن کی آبیاری کریں ، حوصلہ سے اس کی نمبر کریں، اگر اس میں حد سے زیادہ توقعات اور مطالبات کے بیج بودیے گئے تو چمن برباد ہو جائے گا۔

Related posts

صرف عورت ہی ذمہ دار کیوں؟

Siyasi Manzar

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے نہیں، اللہ کے برگزیدہ رسول اور نبی ہیں

Siyasi Manzar

موسم سرما، ایک پُر لطف موسم

Siyasi Manzar

Leave a Comment