Siyasi Manzar
مضامین

آپ مایوس نہ ہوں، آپ نے کوشش تو پوری کی…

کمال الدین سنابلی گنّوری ،دہلی

آج مسجد کی جگہ پر بت خانہ کا افتتاح ہے، بتوں کے پجاری پورے جوش و خروش کے ساتھ ایودھیا پہنچ رہے ہیں، پورے ملک بالخصوص یوپی میں جشن کا ماحول ہے، بت پرستوں نے اپنے علاقوں کو لائٹوں سے سجایا ہوا ہے، جگہ جگہ جے شری رام کے بھگوا جھنڈے لگے ہوئے ہیں.یہ مناظر بھارتی مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہیں، اپنی آنکھوں سے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر دیکھ کر ان کے دلوں پر آرے چل رہے ہیں، طبیعت پر اداسی چھائی ہوئی ہے، آنکھوں میں مایوسی کے ڈورے آنکھوں کو دھندلا کر رہے ہیں، اہلِ ایمان کے یہاں غم کا ماحول ہے، بظاہر اپنے کام دھندوں میں لگے ہوئے ہیں، ہنس اور مسکرا بھی رہے ہیں، کھا اور پی بھی رہے ہیں لیکن اندر سے ہر شخص ٹوٹا ہوا ہے.بیشک آپ کی یہ کیفیت آپ کے ایمان کی دلیل ہے، کسی کو یہ طعنہ بھی نہیں دینا چاہیے کہ آپ دین پر عمل کرتے کتنا ہو کہ مسجد کے جانے پر اتنا افسوس ہے، ہرگز نہیں، دین کے حوالے سے بے راہ روی اپنی جگہ، سستی و کاہلی اور عمل میں کمزوری اپنی جگہ لیکن اگر مسجد کی جگہ بت خانہ بننے پر دل تڑپ رہا ہے تو یہ آپ کے ایمان کی دلیل ہے اور آپ کے ایمان پر طنز کرنے کا کسی کو کوئی حق حاصل نہیں.البتہ ایک بات مجھے عرض کرنی ہے کہ غم اور افسوس اپنی جگہ لیکن عزیزانِ محترم! آپ کبھی مایوس نہیں ہونا، آپ کی آنکھوں میں مایوسی کے ڈیرے نہیں ہونے چاہئیں، آخر ایک مسلمان مایوس کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا آپ کا اپنے رب پر ایمان نہیں؟ کیا کعبہ میں 360 بت نہیں رکھ دیے گئے تھے جنہیں فتح مکہ کے موقع پر کعبہ سے نکالا گیا.وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ، اللہ حالات کو ادلتا بدلتا رہتا ہے، اپنا محاسبہ کرو، ایمان و عمل میں مضبوطی پیدا کرو، اپنے کردار کو اچھا بناؤ، اپنے گھروں کو، اپنے ماحول کو اسلامی بناؤ، تم اللہ کے بن جاؤ اللہ تمہارا حامی و ناصر بن جائے گا. مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، خود کو لعنت ملامت کرنے کی بھی ضرورت نہیں، آپ نے مسجد کی حفاظت اور پھر اس کی بازیابی کے لیے 75 سال تک جنگ لڑی ہے، ہاں آپ خود کو ملامت کرتے اگر آپ نے خوشی سے مسجد ان کے حوالے کر دی ہوتی، 1949 کہ جب یہ تنازعہ کھڑا ہوا، اسی وقت آپ مسجد سے دست بردار ہو گئے ہوتے تو بیشک آپ مجرم تھے اور بیشک آپ خود کو لعنت ملامت کرتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ نے ایک طویل عرصہ تک اپنی مسجد کے لیے فائٹ کی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں فسادات کی مار آپ نے جھیلی ہے، آپ کا قتل عام کیا گیا، آپ کی بستیوں کو جلایا گیا، آپ کے بچوں کو تلواروں کی نوک پر اچھالا گیا، آپ نے ہر ظلم و ستم برداشت کیا لیکن مسجد کے دعوٰی سے دستبردار نہیں ہؤے، کیا اللہ نہیں دیکھ رہا کہ آپ نے یہ تمام قربانیاں ایک مسجد ہی کے لیے دیں، پھر خود کو کوسنا کیوں؟ پھر مایوسی کیسی؟

Related posts

سی اے اے،شہریت چھیننے کا نہیں بلکہ شہریت دینے کا قانون ہے

Siyasi Manzar

چھوٹے بچوں میں موبائل فون کا زیادہ استعمال تباہی کا باعث

Siyasi Manzar

اتراکھنڈ حکومت کا یکساں سول کوڈ ایک سیاسی چال اور متاکشرا اسکول کے پیروکاروں کیلئے نقصاندہ

Siyasi Manzar

Leave a Comment