Siyasi Manzar
مضامین

قضیہ فلسطین ، سیاسی نعروں اور حقیقی مددگاروں کے تناظرمیں

از:عبدالحکیم عبدالمعبودالمدنی ،ممبئی

مسجد اقصی اہل اسلام کا قبلہ اول ہے اور وہاں کی سرزمین اہل اسلام کے لیے انتہائی مقدس اور محترم ہے, ہر مسلمان کے دل میں یہ آرزو رہتی ہے کہ وہ اللہ کے اس مقدس گھر کی زیارت کرے اور اسے قبلہ اول کا دیدار نصیب ہو، ظاہر سی بات ہے یہ ہمارے عقیدے اور ایمان حصہ ہے اور اہل اسلام کے مقدسات اسلامیہ کا ایک جزء ہونے کی حیثیت سے ہمارے مسائل میں سر فہرست ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح سے عیاں ہے کہ اسلام اپنے ان مقدسات کی حفاظت اور اس کے احترام کی تعلیم کے ساتھ اہل اسلام اور دنیا کے تمام لوگوں کو امن و شانتی اور بھائی چارہ کی بھی تعلیم دیتا ہے ،قتل و خونریری ،سفاکیت و بربریت اور دہشت گردی وہ آتنگ کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے،ناحق کسی کی زمین پر قبضہ کر لینا، ناحق ظلم اور جور کو روا رکھنا، انسانی آبادیوں کو تہس نہس کرنا،بچوں ،معصوموں اور عورتوں کو اپنے ظلم و تشدد کا نشانہ بنانا یہ سارے کے سارے وہ جرائم ہیں جنہیں اسلام کبھی بھی روا نہیں رکھتا،فلسطین کا قضیہ کئی دہائیوں سے دنیا کا ایک بہت ہی حساس قضیہ بنا ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیٹلر کے ظلم سے اور اس کی سفاکیت اور بربری سے تنگ آکر جب بچے کھچے یہودیوں نے پوری دنیا سےامیدیں چھوڑ دیں تو فلسطین کے رحم دل مسلمانوں نے انہیں اپنے ہاں پناہ دے دی اور پھر رفتہ رفتہ یہ اپنی اصلیت اور اپنے پرانے عناد اور دشمنی کی طرف بڑھتے چلے گئے اور پھر ایک سازش کے تحت ارض فلسطین پر انہوں نے غاصبانہ قبضہ شروع کر دیا جس کے نتیجے میں کئی بار لڑائیاں بھی ہوئیں اور اس پس منظر میں اقوام متحدہ کی مداخلت بھی ہوئی، امن معاہدے بھی ہوئے اور فلسطینی ریاست کے وجود اور اس کے قیام کو تسلیم کرنے کی باتیں بھی ہوئیں،خاکے بھی بنائے گئے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ بات ارض واقع پر پائے تکمیل کو نہیں پہنچ سکی ،جب جب دنیا کی پرامن طاقتوں نے خاص طور پر حقائق اور واقع ہونے والے امور کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے سعودی عرب اور دیگر فلسطین کے سچے خیر خواہ ملکوں نے یہ کاوش کی کہ کسی طریقے سے ارض مقدس کو بچایا جائے اور فلسطینی ریاست کا پرامن قیام عمل میں آئے اور دنیا پہلے اسے تسلیم کرے اور ان کا بھی اپنا بھی ایک وطن ہو جہاں وہ امن و امان کے ساتھ اللہ کی عبادت اور بندگی بھی کر سکیں اور بیت المقدس میں نماز بھی پڑھ سکیں اور پرامن زندگی گزار کر اپنے اور اپنے بچوں کے سنہرے مستقبل کی تعمیر بھی کر سکیں لیکن نہ جانے کون سی اندرونی اور خفیہ سازشیں ہیں جو اس خطے میں پائے جانے والے روافض اور مکر و فریب کرنے والے ان کے چیلے اور ان کا ساتھ دینے والے جذباتی تنظیمیں کو درمیان میں کھڑاکرکے ایک سنہرے فلسطین کے قیام میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جنگ کا سماں پیدا ہو جاتا ہے اور آخر میں سب سے زیادہ نقصان نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کا،وہاں کی عوام کا اوروہاں کی سنی آبادیوں کا ہوتا ہے اور یہی سازش پورے مشرق وسطی میں بہت دنوں سے چل رہی ہے تاکہ سنیوں کی بستیوں کو،ان کی آبادیوں کو رفتہ رفتہ تہس نہس کر دیا جائے اور ان پر رافضی، فارسی اور مجوسی حکومتوں کو مسلط کر کے پورے خطے کو یرغمال بنا لیا جائے اور یہی کہانی برسوں سے دہرائی جا رہی ہے، سعودی عرب جو اپنے اثر و رسوخ اور اپنی پرامن خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں اپنی بات منوانے کا ایک سلیقہ رکھتا ہے، اس کا موقف اور اس کا کردار فلسطین کے قیام کے تعلق سے اور مسجد اقصی کے تحفظ کے تعلق سے بالکل واضح اور دو ٹوک ہے، وہ فلسطینیوں کی حمایت اور مسجد اقصی کے تحفظ کے لیے اس سے پہلے کئی بار جنگوں میں مشارکت بھی کر چکا ہے لیکن جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے،دنیا کی قومیں آج سامنے کچھ باتیں کرتی ہیں اور پیٹھ پیچھے سازشوں کے جال بن کر کے امن پسند قوموں کو اور ان کی طاقتوں کو کمزور کرنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہے اور یہی سب کچھ پیچھے سے کھیل کھیلا جا رہا ہے ،سعودی عرب کے ذی ہوش اور باغیرت شہنشاہان نے ہمیشہ اپنی طاقت، اپنی قوت ،اپنا اثر و رسوخ اور اپنی دولت اور اپنے تعاون کا دروازہ فلسطینیوں کے لیے یکدم کھلا رکھا ہے اور اپنی سرزمین کے ایک ایک چپے کو فلسطینیوں کی رہائش ، ان کے استقبال، ان کے بچوں کے علاج اور معالجے اور ان کی پناہ گزینی کے ساتھ انہیں اعلی تعلیم دینے کے لیے ہمیشہ سے کھول رکھا ہے، شاہ فیصل علیہ الرحمہ سے لے کر شاہ فہد رحمھم اللہ اور اس کے بعد ملک سلمان حفظہ اللہ تک سارے لوگوں کا یہ رویہ اور یہ کردار تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف میں درج ہے اور یہ بات دنیا جانتی ہے کہ جب بھی فلسطینیوں پر کوئی مشکل وقت آن پڑی ہے اور ارض مقدس کے خلاف کوئی بھی مشکل گھڑی آئی ہے تو پوری دنیا میں سفارتی تعلقات کی بنیاد پر اس میں آسانی پیدا کرنے اور حتی المقدور فلسطینیوں کے زخم پر مرہم رکھنے، انہیں دلاسہ دینے اور ان کا تعاون کرنے کے لیے ہمیشہ سے آگے رہے ہیں ،ابھی اسی مہینے میں معصوم فلسطینیوں کے خلاف حماس کی سازشوں کی وجہ سے اور ایران کے پس پردہ ورغلانے اور بھڑکانے کی وجہ سے جو معاملہ رونما ہوا وہ ہم میں سے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے جس کے نتیجے میں یہودیوں کا ظلم و ستم ارض مقدس کے خلاف ابھی تک جاری اور ساری ہے لوگ صرف میڈیا پر بیان دے کر ، خلافت کا نعرہ لگا کر، سیاسی وعدے اور سیاسی طاقت کا جھانسا دے کر دشمنوں سے ہاتھ ملا لیا کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اس خطے میں جنگ کی آگ کبھی تھمنے نہ پائے اور اس کی سوزش میں یہاں کی اکثریت جو سنی ہے وہ ہمیشہ جھلستی اور تپتی رہے، یہی کام سعودی عرب کو پسند نہیں ہے وہ اپنے سنی مسلمان بھائیوں اوراس خطےکی سلامتی وحفاظت اور پرامن فلسطین کے قیام کے لیے ہمیشہ سے کوشاں رہا ہے ایسے حالات میں جب نہتے فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے، انہیں زندگی جینے کے لیے بنیادی ضرورتوں سے محروم کرنے کی سازش کی جاتی ہے تو سعودی عرب ہی وہ ملک ہے جو اپنے دل کے دروازے اور حکومت کے خزانے ارض فلسطین اور وہاں کے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے کھول دیتا ہے، سعودی عرب نے ابھی دو تین دن میں حکومتی سطح پر اعلان کر کے 300 ملین ریال سے زیادہ تعاون فلسطین کے لیے جمع کر لیا ہے تاکہ مظلوم بھائیوں کی دادرسی ہو سکے اور ان کے گھروں کو آباد کیا جا سکے، جنگ کے اس خطرناک ماحول میں انہیں بنیادی ضرورتیں فراہم کی جا سکیں اور ساتھ ہی ساتھ سفارتی کاوشوں کے ذریعے سے جنگ بندی، احترام انسانیت اور بے گناہوں کے قتل اور خونریزی کے خلاف کاوشیں الگ سے جاری اور ساری ہیں۔ یہی سچائی ہے اور یہی حقیقت، نہ کوئی سیاسی نعرہ ہے، نہ کوئی سیاسی اعلان ہے، نہ کوئی سیاسی تشہیر ہے، نہ کوئی بھڑکاؤ اور جذباتی بیان ہے، صرف اور صرف اہل فلسطین اور وہاں کے مسلمانوں کے لیے سعودی عرب کا خلوص اور اس کی سچی محبت ہے کہ وہ ہمیشہ ان کی مدد اور ان کے تعاون میں صف اول میں کھڑا رہا اور تاریخ کو پڑھنے والے لوگ سچائی کو جانتے ہیں لیکن آج فارسی، مجوسی صھیونی اور غیر مسلم طاقتیں مل کر کے پوری دنیا کے سنی مسلمانوں کے ساتھ جو تماشہ روا رکھنا چاہتی ہیں وہ ہم میں سے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اس لیے کم سے کم دنیا کے سنی مسلمانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہمارا سچا خیر خواہ کون ہے؟ ہمارا حقیقی مددگار کون ہے؟اور مسلمانوں کی بین الاقوامی تنظیموں کو جذباتی نعروں کے پیچھے اور سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ کے پیچھے بھاگ کر خود ہی اپنے ہاتھوں اپنے بھائیوں کی تباہی سے بچنا چاہیے اور یہودیوں کی مکاریوں اور سازشوں کو سمجھ کر کے بہت ہی ہوش مندی سے ان لوگوں کے ساتھ جڑنا چاہیے جو حقیقت میں ایک سنہرے فلسطین ,قبلہ اول اور اس کے تقدس کی بحالی کے لیے زمانے سے کوشاں ہیں۔اللہ کرے کہ سازشوں کے جال سے نکل کر کے اور سیاسی نعروں اور جذباتیت سے اوپر اٹھ کر کے ارض واقع میں رونما ہونے والی سچائیوں کو اور حقیقتوں کو سمجھیں اور اور حقیقت میں پرامن طریقے سے پورے اخلاص اور اللہ سے رجوع کے ساتھ صحیح اور سچے اسلام کی پیروی کریں اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے اللہ رب العالمین سے دعا کریں اور مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لیے دامے درمےقدمے سخنے ہمیشہ تعاون کرتے رہیں اور ان سچائیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں جو بغیر کسی سیاست ،بغیر کسی مفاد اور بغیر کسی مصلحت کے پوری ایمانداری کے ساتھ فلسطینیوں کے وطن کی حفاظت اور بیت المقدس کی بازیابی کے لیے سعودی عرب اوفلسطینیوں کے سچے خیرخواہ حکمراں کر رہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ کرےمجوس اوریھودکی سازشوں سے ہم اور آپ محفوظ رہیں اور جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالی پوری دنیا میں امن اور شانتی کا ماحول قائم فرما دے اور مظلوموں کی فریاد کو سن لے اور بے قصوروں اور معصوموں کو اللہ رب العالمین جان اور مال کی حفاظت عطا فرمائے۔ وما توفیقی الا باللہ۔

Related posts

کچھ تو غور وفکر کر ائے ابن آدم !!

Siyasi Manzar

بابری مسجد کے بعد اب گیان واپی جامع مسجد 

Siyasi Manzar

ایک  مثالی شخصیت، ڈاکٹر احمد اشفاق کریم 

Siyasi Manzar

Leave a Comment