Siyasi Manzar
مضامین

تلنگانہ میں کانگریس کی جیت اور چار ریاستوں میں شکست کے اسباب

سید سرفراز احمد،بھینسہ
ملک کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر ملک بھر کی عوام نظر لگائے بیٹھی تھی چونکہ یہ انتخابات 2024 کے لوک سبھا انتخاب سے قبل سیمی فائنل مانے جارہے تھے عوام میں ایک رجحان تھا کہ جو بھی ان اسمبلی انتخابات میں بہتر مظاہرہ کرے گا وہ آنے والے پارلیمانی انتخاب میں اپنی اکثریت میں اضافہ کرسکتا ہے لیکن نتائج آچکے ہیں جسمیں کانگریس کا پانچ ریاستوں میں مجموعی مقابلہ توقع کے برعکس ثابت ہوا سوائے ایک تلنگانہ کو چھوڑ کراور بی جے پی نے بھی توقع سے زائد اسمبلی نشستیں حاصل کرلی وہیں پر بی جے پی کی تین ریاستیں مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ اور راجستھان کی کامیابی نے آئندہ پارلیمانی انتخاب کی جنگ کیلئے انکے سیاسی عزائم میں مزید اضافہ کردیا ہے اب یہ قطعی بھی نہیں کہا جاسکتا کہ 2024 کے پارلیمانی انتخاب میں اکیلی کانگریس یہ مقابلہ کرسکتی بلکہ کانگریس اور انڈیا اتحاد کیلئے لوک سبھا کا چناؤ اور بی جے پی سے مقابلہ کسی بھاری چٹان سے کم نہیں وقت بہت کم ہے منصوبے اور کام بہت ذیادہ، اگر بی جے پی کو تیسری بار ملک کے اقتدار سے محروم کرنا ہو تو کانگریس کو ایک منظم لائحہ عمل اورعلاقائی پارٹیوں سے سیاسی اختلافات کو طاق میں رکھکر دل جگر سے کام لینا ہوگا تب ہی وہ کامیابی کا جھنڈا گاڑ سکتی ہے۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کا مقابلہ راست طور پر بی جے پی سے تین ریاستوں میں رہا جنمیں مدھیہ پردیش راجستھان اور چھتیس گڑھ تھے جہاں کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی اور بی جے پی نے توقع سے زائد نشستیں حاصل کیں بلکہ حکومت سازی میں بھی کامیاب رہی انتخابی مرحلہ کے بعد جسطرح کے ایگزٹ پول آرہے تھے جسمیں یہ صاف طور پر بتایا جارہا تھا کہ کانگریس تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو ٹکر دے رہی ہے اور ان ایگزٹ پول کے بعد یہ قوی امکانات بھی بتائے جارہے تھے کہ کانگریس راجستھان اور چتھیس گڑھ میں اپنا واپس مقام پالے گی لیکن نتائج نے کانگریس کی توقعات پر پانی پھیردیا بلکہ بی جے پی نے مدھیہ پردیش اسمبلی میں 230 کے منجملہ 163 نشستوں پر قبصہ جمایا اور کانگریس کو صرف 66 تک محدود کردیا راجستھان میں بھی بھاجپا نے 169 اسمبلی نشستیں حاصل کرتے ہوئے بھاری جیت درج کروائی وہیں اقتدار پر قابض کانگریس صرف 69 نشستوں تک سمٹ کر رہ گئی 90 اسمبلی نشستوں والی ریاست چھتیس گڑھ میں بھی بی جے پی کو54 اور کانگریس کو 35 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا بی جے پی نے ان تینوں ریاستوں میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی راجستھان کی یہ روایت رہی ہیکہ وہاں کسی بھی پارٹی کو مستقل حکمرانی کا سہرا نہیں دیا جاتا اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے حالانکہ اشوک گہلوت نے پچھلے پانچ سال میں جسطرح کا کام کیا ہے اور فلاحی اسکیمات کو لاگو کیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک بے مثال ہے لیکن عوام نے روایت کو برقرار رکھا اور کانگریس کو خارج کردیا چھتیس گڑھ جہاں کانگریس کا دور تھا عوام نے اس بار کانگریس کو خارج کردیا مدھیہ پردیش بی جے پی کی حکمرانی کا دور تھا جو شمالی ہند میں ہندو توا کی اہم تجربہ گاہ سمجھی جاتی ہے یہاں بی جے پی پھر سے اپنے ہندوتوا کارڈ میں کامیاب ہوگئی کانگریس کو امید تھی کہ اس بار مدھیہ پردیش کی عوام ہندو توا کارڈ کو خارج کرتے ہوئے کانگریس کو اقتدار میں لائیں گی لیکن کانگریس کی گارنٹی اور او بی سی کارڈ کامیاب نہیں ہوا۔
پانچ ریاستوں میں تلنگانہ ایک واحد ریاست ہے جہاں کانگریس نے اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑا 119 اسمبلی نشستوں میں سے 64 پر قبضہ جمانے میں کامیاب رہی بی آر ایس کو 39 پر اکتفاء کرنا پڑا وہیں پر بی جے پی نے اپنے ووٹنگ تناسب میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ تین اسمبلی نشستوں سے بڑھاکر 8 تک پہنچ گئی مجلس حسب روایت 7 پر برقرار رہی کانگریس نے تلنگانہ کی مضبوط قیادت مانی جانے والی بی آر ایس کو شکست سے دوچار کیا لیکن اہم بات یہ ہیکہ تلنگانہ میں کانگریس کا مقابلہ بی جے پی سے نہیں بلکہ علاقائی سیکولر پارٹی بی آر ایس سے تھا جنھیں شکست دینا بھی کسی بڑے کام سے کم نہیں تھا یہاں کانگریس کی جیت کی وجہ کانگریس کی چھ گیارنٹی اسکیمات اور ریونت ریڈی کی شب و روز محنت کا نتیجہ ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہیکہ تلنگانہ میں کانگریس نے بی آر ایس کو شکست دے کر اتنا بڑا کام نہیں کیا جتنا اگر وہ مدھیہ پردیش راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو شکست دے کر جیت درج کرواتی مطلب صاف ہیکہ کانگریس بی جے پی کو شکست دینے میں ابھی بھی بہت پیچھے ہے کانگریس نے پہلے کے مقابلہ دو ریاستیں گنواکر ایک ریاست حاصل کی اور بی جے پی نے دو ریاستوں میں اپنی حکمرانی میں اضافہ کیا حالانکہ کانگریس نے راجستھان میں اچھے کام کیئے اور انتخابی میدان میں عوام کو بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، نفرت کی دکان کو محبت میں بدلنے فلاحی کاموں کے بلند تذکروں میں بی جے پی سے کئی گنا ذیادہ پرچار کیا لیکن پھر بھی کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ میزوروم کی عوام نے نہ ہی بی جے پی کو پسند کیا نہ کانگریس کو بلکہ چھ علاقائی جماعتوں کے متحدہ پیلٹ فارم پر مبنی پارٹی زورم پیپلز فرنٹ کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔
سوال یہ ہیکہ ان چار ریاستوں میں کانگریس کی شکست کے کیا اسباب ہے؟سوال یہ بھی ہیکہ بی جے پی کی جیت کے کیا اسباب رہے؟کانگریس کے سینئر قائد ڈگ وجے سنگھ نے ای وی ایم کو مورد الزام ٹھرایا بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے بھی چار ریاستوں کے انتخابات کو مشکوک بتایا اور کہا کہ جسطرح کے ایگزٹ پول آرہے تھے اس سے کہیں بھی یہ نظر نہیں آیا کہ جیت ایکطرفہ ہوگی جبکہ کہیں بھی بی جے پی کی کوئی لہر نہیں تھی پھر بھی اسطرح کے ایکطرفہ نتائج کو انھوں نے سنگین بتایا سیاسی مبصرین کا ماننا ہیکہ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس نے جسطرح کی حکمرانی کی بی جے پی حکمرانی ریاستوں میں اسکا کوئی ثانی نظر نہیں آتا جبکہ عوام عوامی مفادات اور فلاحی اسکیمات کو ہی ملحوظ رکھتی ہے پھر بھی کانگریس کی شکست ایک غیر یقینی بات ہے یہ بات سب ہی کو معلوم ہے کہ بی جے پی ہندو مسلم کارڈ کھیل کر اپنی گدی کی راہ ہموار کرتی ہے جسکی نہ تو کوئی موثر فلاحی اسکیمات ہوتی ہے نہ ترقی کے کام پھر بھی بی جے پی اسمبلی انتخابات میں کانگریس پر سبقت کیوں حاصل کررہی ہے؟ای وی ایم کے متعلق بہت سے شک و شبہات عوام میں پیدا ہورہے ہیں اس بات کو انڈیا اتحاد اور کانگریس ہلکہ میں نہ لیں بلکہ جتنا زور ہوسکتا اس پر لگائیں الیکشن کمیشن آف انڈیا سے رجوع ہوں یا ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ بھی جائیں اور کوشش کریں کہ لوک سبھا انتخاب بیالٹ پیپر سے کرائے جائیں۔
کانگریس کی شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہیکہ کانگریس علاقائی پارٹیوں کے بغیر لوک سبھا انتخاب میں اکثریت حاصل نہیں کرسکتی اگر کانگریس کو ملک پر حکمرانی کرنا ہوتو وہ علاقائی پارٹیوں سے فراغ دلی کے ساتھ کام کریں کیونکہ انڈیا اتحاد میں موجود علاقائی پارٹیوں کے جو اختلافات کانگریس کے رویہ کو لیکر سامنے آرہے ہیں اس سے یہ صاف نظر آرہا ہیکہ کانگریس اپنی اندرونی صفوں میں خلفشار کا شکار ہے راجستھان ہو کہ مدھیہ پردیش کانگریس کی ریاستی قیادت نے اپنی من مانی چلائی جسکا خمیازہ شکست کے روپ میں سامنے آیا لازمی ہیکہ جب آپ انڈیا اتحاد کے سرکردہ ہوں تو آپ کو اپنی مرکزی قیادت اورانڈیا اتحاد کی تجاویز کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا اہم سوال یہ بھی ہیکہ ابھی تک یہ طئے نہیں پایا کہ انڈیا اتحاد کی قیادت کون کرے گا؟یہاں بھی قیادت کو لیکر گھمسان مچا ہوا ہے اگر آپ محبت کی دکان کھولنا چاہتے ہوں اور نفرت کا خاتمہ چاہتے ہوں تو قیادت اور منصب سے بڑھ کر کام کریں تب ہی یہ کام ممکن ہے اگر ایسا ہی اختلافات کا معاملہ رہا تو بی جے پی اسکا فائدہ اٹھائے گی اور لوک سبھاانتخاب میں کانگریس ہو یا انڈیا اتحاد بی جے پی سے مقابلے کی دوڑ میں آبھی نہیں سکتے اور انڈیا اتحاد کے اختلافات کا اثر راست عوام لے گی اور لوک سبھا انتخاب پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

Related posts

قضیہ فلسطین ، سیاسی نعروں اور حقیقی مددگاروں کے تناظرمیں

Siyasi Manzar

پریزائڈنگ افسر کی ڈائری

Siyasi Manzar

اتراکھنڈ حکومت کا یکساں سول کوڈ ایک سیاسی چال اور متاکشرا اسکول کے پیروکاروں کیلئے نقصاندہ

Siyasi Manzar

Leave a Comment