مکہ ومدینہ اورحرمین شریفین کی زیارت ہر مسلمان کی دلی تمنا اورایمانی خواہش ہے،امسال الحمدللہ بہت سالوں کی امیدوں اور تمناؤں کے بعد یہ سعادت گذشتہ ماہ ہمارے حصے میں بھی آئی ،حسرتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ اور امیدوں کی ایک لازوال کڑی اس وقت پوری ہوتی نظر آئی جب ویزے اور ٹکٹ وغیرہ کی کاروائی مکمل ہوگئی ،اب ہم ممبئی ایرپورٹ پر تھے اور دل کعبہ معظمہ ، مدینہ منورہ ،اورمقامات مقدسہ کی زیارت اوردیدار کی حسرتوں میں کھویا ہواتھا ،اڑان بھرنے پر ایسے لگا کہ اب بس چند لمحات کے بعد ہمارے دلی ارمان پورے ہونے کو ہیں اور یہ بیش بہا سعادت ہمیں جلد ہی ملنے والی ہے ،تھوڑی دیرمحوخواب ہونے کے بعد جہاز میں آواز آنے لگی کہ ہم سعودی عرب کے جدہ انٹرنیشنل ایرپورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں ،کرسی اور سیٹ بلٹ درست کرنے کے بعد ہماراجہاز جدہ ایر پورٹ پر اترچکاتھا،وہاں سے پھلے ہم سفری ترتیب کے مطابق دیارحبیب یعنی مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوگیے ،کچھ گھنٹوں کے بعد ہم مدینہ کی مسجد مسجد نبوی کے سامنے تھے ،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے ،مسجد میں داخل ہوئے ،چاروں طرف رونقوں ورعنائیوں کے ساتھ فضا میں ایک پرکیف خوشبو بسی ہوئی تھی ،ماحول بالکل نورانی ،روحانی اور پرلطف تھا ،ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم کسی ارضی جنت نما جگہ میں ہیں۔بہرکیف ان سعادتمند لمحات میں ہم مسجد نبوی کے اندر پھونچے ،عجیب پرشکوہ تعمیر ،اپنے فن کا نمونہ ،نایاب نقاشیاں ،حسن?وجمال میں ڈوبی دیواریں ،کھمبے اور دھیمی دھیمی روشنی بکھیرتی مسجد کی لائٹیں ،جھومرس اوربجلی کے برقی آلات ،آنکھیں آنسؤوں سے ڈبڈباگئیں اور ہم ایمان وروحانیت بھری فضا میں کھوگیے ،اور ایسے ہی پانچ?دنوں تک کھوئے رہے ،اذان کی پیاری آوازیں ،لوگوں کی مسجد آمدورفت اور ہرلمحہ نیکی کے جذبات عجیب سماں تھا، اذان سے پھلے مسجد میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ،کئی نمازوں کاموقع ملا ،ریاض الجنہ میں داخلہ نصیب ہوا،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا :مسجد قبا گئی جہاں دورکعت نماز کاثواب ایک عمرے کے برابر ہے ، اور جبل احد بھی دیکھنا نصیب ہواجسکے بارے میں نبی اکرم علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جبل احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں،پھر ہمارا قافلہ بیت اللہ الحرام مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہوگیا ،جو ہمارے سفر کی بنیادی منزل تھی ،مدینہ سے مکہ کی چارسوکلومیٹر?سے زیادہ دوری کا سفر پورا کرنے کے بعد اب ہم بیت اللہ کے قریب تھے ،ایسا نصیب اوراللہ کی ایسی مہربانی کہ حرم شریف کے بالکل سامنے مکہ کے عالیشان ہوٹل کلاک ٹاور میں ٹھرنا نصیب ہوگیا،ادھرحرم شریف کاخوشنما منظر،پرنور دیواریں ،ایمان وروحانیت میں ڈوبی فضائیں اور حرم شریف کے پرشکوہ درودیوار اور ادھر کلاک ٹاور کا خوبصورت ، اور عالیشان ہوٹل اورکمال کی بات کی مکہ کی یہ بلند ترین اور عالیشان فائیو اسٹار ہوٹل حرمین شریفین کے لیے سعودی عرب کے مؤسس وبانی شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نام سے وقف شدہ ہے۔اسلامی شریعت میں اوقاف کی کتنی اہمیت ہے یہ بات صدقہ جاریہ اور اس بابت وارد احادیث سے لگایا جاسکتاہے۔حضرت عمر رضی اللہ نے جب اپنا باغ صدقہ کیا تو نبی اکرم نے ((حبس اصلھاوسبل ثمرتھا ))کہہ کر یہ فرمایا کہ اسے وقف بنادو،مکہ ومدینہ میں?اس طرح کے نہ جانے کتنے اوقاف ہیں ۔اب ہم اپنے مستقر پر پھونچنے کے بعد عمرہ کے لیے نکل چکے تھے،حرم شریف میں داخل ہوئے، جیسے نگاہیں کعبہ کی دیواروں پرپڑیں دل بالکل اسکی طرف کھنچتا،مچلتا، تڑپتا روتا،بلکتاچلا گیا ،ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں یاد آنے لگیں جو کعبہ اور بلد امین میں امن وامان اور اسکی طرف لوگوں کے دلوں میں فطری کھنچاؤ کے لیے انھوں نے کیاتھا۔ آ سماں دیکھنا ہوتو مکہ مکرمہ میں چہل پہل اور اسس کی عظمت وہیبت کے نظارے دیکھو۔۔اسکے بعد حجر اسود کے سامنے پھونچے ،تکبیر کی صداؤں کے ساتھ طواف کے چکر شروع ہویے ،آنکھیں آنسؤوں کو نہ روک سکیں اورایسا لگا کہ دل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی ہیں ،یہ و پتھرہے جو جنت سے اتارا گیا ،یہ دودھ سے زیادہ سفید تھا بنی آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ بنادیا۔ہم طواف کرنے لگے جوں جوں قدم بڑھتے ،کعبہ کی ھیبت،عظمت اور اسکے جلوے دل بیتاب کو بے قراری میں مبتلا کرتے ،حطیم سے گزرے ،رکن یمانی کا لمس ہوا،اوریوں امیدوں اور تمناؤں کی گھڑیاں پائے تکمیل کی طرف بڑھنے لگیں ،طواف کے سات چکر کب پورے ہوگئے محسوس نہ ہوسکا ،اب ہم مقام ابراہیم کے نزدیک تھے ،جگہ دیکھ کر دو رکعت سنت اداکی گئی ((واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی ))پر عمل پیرا ہونے کی سعادت ملی۔ہزاروں برس پہلے کے قدموں کے نشان اللہ کے حکم سے اب بھی پتھر پر موجود ہیں اورپھر صفامروہ کی طرف سعی کے لئے بڑھے،قرآن مجید میں وارد ہے((ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ)) کہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں۔ ان نشانیوں کو دیکھ کر دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے ربط و تعلق گہرا ہوتا چلا جاتا ہے اور بندہ ایک دوسری دنیا میں کھو جاتا ہے۔ہم نے سعی شروع کی اور پھر اسی دھن میں چکر لگاتے ہوئیسعی سے فارغ ہو گئے اب باری تھی آخری سنت کی ادائیگی کی جس میں پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں کو حلق یا تقصیر کے مابین اختیار دیا مگر محلقین کے لیے آپ نے رحمت کی دعا کی۔ چنانچہ اس کے پیش نظر اہل علم کا یہ قول ہے کہ حلق یہ تقصیر سے افضل ہے اور ہم نے اسی پر عمل کرتے ہوئے تقصیر کے بجائے حلق کرا لیا،عام دنوں میں سر کے بالوں کو مکمل طور پر اتارنے اور صاف کرنے میں بڑا حرج محسوس ہوتا تھا مگر آج جب عمرے کے بعد حلق کرایا تو سنت پر عمل پیرا ہونے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے بموجب بڑا ہی عجیب لطف اور لذت اتباع حاصل ہوئی جس کا کوئی اندازہ نہیں?۔اوریوں الحمدللہ عمرہ مکمل ہوگیا۔اسکے بعد پانچ دنوں تک مکہ مکرمہ اور بلدامین میں سکونت کاموقع ملا ،چاروں طرف انسانوں کاسیلاب ،حرم کانور ،فن تعمیر کاخوشنما نمونہ، ایک ایک دیوار اور ایک ایک جگہ اپنے آپ میں شاہکار ،سخت گرمی میں پانی کی پھواریں چھوڑتے خودکارپنکھے ،طواف کعبہ کا پیارا منظر ،ہرطرف نور ہی نور کی برسات اور اللہ کی چاروں طرف رحمات وبرکات ،انھیں پرکیف فضاؤں میں کتنی جلدی دن رات کٹ گئے پتہ بھی نہ چلا،بلد امین میں ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے کتنے اثرات ہیں یہ اس کے ذرے ذرے سے محسوس ہوتا ہے۔ حرم کے میناروں سے جب اذان کی آواز اتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل بے تاب اللہ کے اس گھر کی طرف ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاؤں کے بموجب کھینچا چلا جا رہا ہے چاروں طرف سے ہوٹلوں ، راستوں اور شاہراہوں سے نکلتے ، بھاگتے ہوئے لوگ حرم شریف کی طرف نماز کے لیے رواں ہوتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ بنانے کے لیے نیچے اوپر اور تہہ خانوں میں گھستے ہوئے چلے جاتے ہیں، جگہ فل ہو جانے پر حرم کے باہر اس کے صحن میں صفیں بچھا کر کے اللہ کے روبرو حاضر ہو جاتے ہیں اور پھر اقامت کی آواز جیسے ہی گونجتی ہے ایک گولائی کا آکار لیے خانہ کعبہ اور بیت اللہ الحرام کے چاروں طرف اللہ کے حضور سجدہ کرنے والے قیام اور رکوع کرنے والے لوگوں کا ایک بڑا ہی پیارا اور خوشنما منظر ہوتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی صفوں کا یہ سیلاب اللہ رب العالمین کیسے جڑا ہوا ہے اور کوئی مقناطیسی طاقت اور قوت ہے جو انسانوں کو بے ساختہ کھینچ کر کے ایک صف میں اس طریقے سے کعبہ معظمہ کے سامنے کھڑا کر دیتی ہے کہ انسان دنیا کے تصورات سے پرے ہٹ کر ایک اللہ واحد کی عبادت میں مست و مگن ہو جاتا ہے۔پیارے حبیب جناب محمد نے مکہ معظمہ کے بارے میں بیان فرمایا تھا کہ اس میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابرہے۔ ہر صاحب ایمان چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس مقدس جگہ میں اور حرم شریف کے پاس پڑوس میں رہنے کا موقع ملے تاکہ وہاں فضیلت والی یہ نماز ادا ہو سکیں اللہ ہر صاحب ایمان کو یہ سعادت نصیب فرمائے۔چونکہ ہمارا سفر بہت مختصر تھا اس لیے مشاعر مقدسہ کی زیارت کا پروگرام بھی بنا اور یہ موقع بھی ہمیں ہاتھ آیا۔زیارت کرنے کے بعد یہ محسوس ہواکہ سعودی حکومت کی طرف سے منی ،مزدلفہ،اورعرفات کے میدانوں میں ہرطرح کے اعلی اور عمدہ انتظامات اوراسکی تیاریاں زوروں پرہیں ،پورے مشاعر مقدسہ خاص طور پر شہرمکہ کو ایسا شاہکار بنادیاگیاہیکہ دنیا دیکھتی رہ جائے ،ابھی حرم شریف کو کشادہ کرنے کے لئے وہاں کے حکمراں شاہ سلمان حفظہ اللہ کی طرف سے نئی توسیع کاکام جاری ہے جو جبل عمر تک پہنچ چکا ہے۔اسکے پوراہونے پر پچیس لاکھ سے زاید حجاج بیک وقت ایک ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں ،حرم شریف کی تعمیر میں سعودی حکومت نے دل کھول کر کروڑوں روپے صرف کئے ہیں۔ فلی ایر کنڈیشن ،بلکہ دنیا کا سب سے بڑا کولنگ سسٹم ،دنیا کا سب سے عمدہ ساؤنڈ سسٹم، حرمین شریفین میں صرف ساؤنڈ سسٹم کے انتظامات دیکھنے کے لئے 172سے زیادہ انجینئرز اورماہرین کام پرلگے ہوئے ہیں۔ ،برقی جھومر،لاییٹیں اور ہرچیز ہرجگہ بالکل فٹ اورپرفیکٹ ،پوریحرمین شریفین?میں زمزم کی سپلائی ،ہمہ وقت ٹھنڈاو گرم دونوں ریڈی ،صاف صفائی توایسی بیمثال کہ کہیں کوئی تنکا تک نہیں ،چاروںطرف چماچم جیسے سب چیز ابھی فیکٹری سے بالکل نیا منگا کر لگایا گیا ہو،اللہ سعودی گورنمنٹ کو جزائے خیرعطافرمائیجس نے حرمین?کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی بلکہ حجاج اور زائرین کے لیے ہر طرح کی سہولیات اور تمام تر انتظامات کی فراہمی کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کے ساتھ ا سے باعث شرف سمجھتے ہوئے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے پورے دل و جان سے انجام دے رہی ہے۔ابھی امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس/ حفظہ اللہ کا ایک بیان آیا تھا کہ حجاج کرام کی خدمت اور حرمین شریفین کا اعلی انتظام اور انصرام یہ حکومت سعودی عرب کے لیے اور ہم سب کے لیے بڑے ہی شرف اور عزت کی بات ہے چنانچہ اسے باعث شرف اور اپنے لیے سعادت مندی کا عمل سمجھتے ہوئے اس عمل میں وہاں کے علماء ،عوام الناس، سعودی فورسز،سرکاری اور غیر سرکاری محکمے اور تمام تر ادارے پوری جدوجہد اور لگن کے ساتھ رضائے الہی کی خاطر لگے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ہمیشہ حکومتی اداروں کی اس بات پر توجہ ہوتی ہے کہ تمام اعلی ٹیکنالوجی اور جدید وسائل اور ذرائع کو بھی استعمال میں لاتے ہوئے حجاج کرام کے لیے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اب تو مکمل طریقے سے حرمین شریفین میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے اور سعودی حکومت تمام تر اعلی انتظامات کے لیے دل کھول کر اس پر پیسے خرچ کر رہی ہے۔ پوری مشنری حرکت میں ہے ،حجاج کرام کی چاروں طرف سے آمد آمد ہے،تکبیر اور لبیک کی صدائیں ہیں اوریوں پورامکہ حج کے لیے تیار ہے۔ 24 سال پہلے جب ہم لوگ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے دوران حج کے لیے جاتے تھے تو مکہ میں خاطر خواہ حجاج کی رہائش اور ہوٹلوں کا بندوبست نہیں تھا اب تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مکہ کی پوری وادی اور پورا شہر ہوٹلوں میں تبدیل ہو چکاہے۔عالی شان عمارتیں اور اسلامی طرز تعمیر کے ساتھ حجاج کرام کی خدمت اور ان کی رہائش اور آرام کے لیے آراستہ اور پیراستہ ہے۔ مکہ کی ابادی اتنی وسیع اور دراز ہو چکی ہے کہ تصور سے بالکل بالاتر ہے 10 سال پہلے جانے والا آدمی محو حیرت ہوگا کہ کس قدر اور کتنی جلدی یہ تبدیلیاں یہاں رونما ہو گئی ہیں کدھر و دیوار کو پہچاننا اور گلی و شاہراہوں کو پہچاننا مشکل ہو رہا ہے الغرض سعودی حکومت مکمل طریقے سے حرمین شریفین کی تعمیر و توسیع میں اس قدر لگی ہوئی ہے کہ پوری دنیا سے آنے والے زائرین کی بھیڑکو کبھی کوئی تکلیف اور پریشانی کا احساس نہ ہو بلکہ وہ پورے امن اور اطمینان کے ساتھ ٹھنڈی چھاؤں میں حرمین شریفین میں پوری یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ اپنی عبادت کو مکمل کر سکیں۔اللہ سے دعاہے کہ اللہ تعالی حج کے اس سیزن کو پرامن اور کامیاب ترین بنائے اور دنیا سے آنے والے تمام حجاج وزائرین کو مناسک اور ارکان حج کو امن وسکون کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حکومت سعودی عرب کی سرکاری اور غیر سرکاری عملے اورحج سے جڑیتمام اداروں کو ان کی عظیم خدمت کا دنیا اور آخرت میں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔آمین