نریندر مودی
وزیراعظم ہند
لوک سبھا انتخابات کے شاندار تہوار کی ہلچل کے درمیان ایک ایسی خبر آئی جس نیدل و دماغ میں چند لمحات کے لیے ایک ٹھہراؤ سا لا دیا۔ بھارت کے روحانی شعور کی ایک شاندار شخصیت شریمت سوامی اسمرنانندجی مہاراج کا سمادھی لینا، میرے لئے ذاتی نقصان جیسا ہے۔ چند برس قبل سوامی اسمرنانندابدی جی کا مہا پریان اور اب سوامی اسمرنانند کی ابدی سفر پر روانگی نے کتنے ہی لوگوں کو سوگوار کر دیا ہے۔ مجھے بھی کروڑوں بھکتوں، سنتوں اور رام کرشن مٹھ اور مشن کے پیروکاروں جیسا ہی صدمہ پہنچاہے۔
اس مہینے کے آغاز میں، اپنے بنگال سفر کے دوران ، میں نے اسپتال جاکر سوامی اسمرنانندجی کی صحت کے بارے میںمعلومات حاصل کی تھی۔ سوامیآتمستھانند جی کی طرح، سوامی اسمرنانندجی نے اپنی پوری زندگی کو آچاریہ رام کرشن پرمہنس، ماتا شاردا اور سوامی وویکانند کے خیالات و نظریات کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے وقف کاا۔ یہ مضمون تحریر کرتے وقت میرے میرے ذہن میں ان سے ہونے والی ملاقاتںک ، ان سے ہونے والی باتیں ، وہ یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔
جنوری 2020 میں بیلور مٹھ میں قیام کے دوران، میں نے سوامی وویکانند جی کے کمرے میں بیٹھ کر دھیان کیا تھا۔ اس سفر میں، میں نے سوامی اسمرنانندجی سے سوامیآتمستھانند جی کے بارے میں کافی دیر تک بات کی تھی۔
آپ جانتے ہیں کہ رام کرشن مشن اور بیلور مٹھ کے ساتھ میرا کتنا گہرا رشتہ رہا ہے۔ روحانیت کے متلاشی کے طور پر، پانچ دہائیوں سے بھی زیادہ کی مدت میں، مجھے مختلف سنتوں اور مہاتماؤں سے ملاقات کا موقع ملااور کئی جگہوں پر میں نے قیام کیا ہے۔ رام کرشن مٹھ میں بھی، مجھے روحانیت کے لئے زندگی وقف کر نے والے جن سنتوں سے واقفیت حاصل ہوئی، ان میں سوامیآتمستھانند جی اور سوامی اسمرنانندجی جیسی شخصیات نمایاں تھیں۔ ان کے مقدس خیالات اور ان کے علم نے میرے ذہن کو مستقل اطمینان بخشا۔ زندگی کے سب سے اہم دور میں ایسے ہی سنتوں نے مجھیجن سیوا ہی پربھو سیوا کا حقیقی اصول سکھایا۔
سوامیآتمستھانند جی اور سوامی اسمرنانندجی کی زندگی رام کرشن مشن کے اصول ’آتمنو موکشارتھم جگددھیتائے چہ‘ کی انمٹ مثال ہیں۔
رام کرشن مشن کے ذریعے تعلیم کے فروغ اور دیہی ترقی کے لیے کیے جا نے والے کاموں سے ہم سبھی کوتحریک ملتی ہے۔ رام کرشن مشن بھارت کے روحانیشعور، عوام کو تعلیمی اعتبار سے بااختیار بنانے اور انسانی خدمت کے عزم پر کام کر رہا ہے۔ 1978 میں جب بنگال میں سیلاب کی تباہی آئی تو رام کرشن مشن نے اپنی بے لوث خدمات سے سب کے دل جیت لیے تھے۔ مجھے یاد ہے، 2001 میں کچَھ کے زلزلے کے دوران، سوامیآتمستھانند ان اولین لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے مجھے فون کرکے یہ کہا کہ رام کرشن مشن اس قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کی ہدایات کے مطابق، رام کرشن مشن نے زلزلے کے اس بحران کے دوران لوگوں کی بہت مدد کی۔
گزشتہ برسوں میں، سوامیآتمستھانند جی اور سوامی اسمرنانندجی نے مختلف عہدوں پر فائز رہتے ہوئے معاشرے کو بااختیار بنانے پر بہت زور دیا۔ جو بھی لوگ ان عظیم ہستیوں کی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں، انہیں یہ ضرور یاد ہوگا کہ آپ جیسے سنت ماڈرن لرننگ، اسکلنگ اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کتنے سنجیدہ تھے۔
سوامیآتمستھانند جی کی عظیم شخصیت کی جس خاصیت سے میں سب سے زیادہ متاثر تھا وہ تھی ہر ثقافت ، ہر روایت کے تئیں ان کی محبت ، ان کا احترام۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بھارت کے الگ الگ حصوں میں ایک طویل عرصہ گزارا تھا اور وہ مسلسل سفر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے گجرات میں رہ کر گجراتی بولنا سیکھا۔ یہاں تک کہ مجھ سے بھی وہ گجراتی میں ہی بات کرتے تھے۔ مجھے ان کی گجراتی بھی بہت پسند تھی۔
بھارت کی ترقی کے سفرکے کئی مقامات پر ، ہماری مادر وطن کو سوامیآتمستھانند جی، سوامی اسمرنانندجی جیسے کئی سنتوں مہاتماؤں کا آشیرواد حاصل ہوا ہے، جنہوں نے ہمیں سماجی تبدیلی کا ایک نیا شعور بخشا ہے۔ ان سنتوں نے ہمیں ایک ساتھ مل کرمعاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کیتعلیم دی ہے۔ یہ اصول اب تک لازوال ہیں اور آنے والے وقت میں یہخیال وکست بھارت اور امرت کال کی سنکلپ شکتی بنیں گے۔
میں ایک بار پھر، پورے ملک کیجانب سے، ایسی سنت آتماؤں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ رام کرشن مشن سے وابستہ تمام لوگ ان کے دکھائے ہوئے راستے کو مزید ہموار کریں گے۔
اوم شانتی۔