ڈاکٹر ایم اعجاز علی یونائیٹیڈ مسلم مورچہ
آج اس سوال کو اٹھانے کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کیوں کہ آزادی کے 75 سالوں میں ملک جس دہانے پر آکر کھڑا ہوگیا ہے، اس میں دو خطرے نظر آتے ہیں۔ پہلا تو مسلمانوں کی بڑی آبادی اور دوسرا ملک پر۔ تاریخ گواہ ہے کہ آزادی کے ارد گرد مذہب کے نام پر ہونے والے سیاسی ٹکرائو کے چلتے ماحول کا شکار ملک اور ملت دونوں ہوا، اور اس کا اثر آج بھی جھیل رہا ہے۔ (یونائیٹیڈ انڈیا بھی جھیل رہا ہے اور مشترکہ سرزمین پر آباد انسانی آبادی بھی)۔ ان دو بڑی قوموں اور اس یونائیٹیڈ خطے کا اگر بٹوارہ نہیں ہوا ہوتا تو پھر ماحول کچھ اور ہی ہوتا۔ بہرحال اس سے بڑی بات تو یہ ہوگئی کہ تب سے لے کر آج تک ملک کی سیاست، مذہب کے نام پر ٹکرائو کی بنیاد پر ہی چلتی رہی ہے۔ آزادی کی لڑائی میں فرنگیوں کے خلاف بھارتیوں کی بڑی آبادی صرف اس لیے کھڑی ہوگئی تھی چونکہ گاندھی جی عام بھارتیوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئے کہ سماج میں چھائی ہوئی غریبی، بھوک مری، جہالت، شراب خوری، دیگر خستہ حالات کی وجہ انگریزوں کی سرکار ہی ہے، جو ہمیں ہمیشہ غلام بناکر رکھنا چاہتی ہے۔ باڑھ، سکھاڑ کے چلتے کاشتکاری کی بدحالی‘ یہ سب فرنگیوں کی ملک مخالف پالیسی کی وجہ کر ہے۔ گاندھی جی کی ان باتوں کا عام عوام پر اتنا اثر پڑا کہ ’’بھارت چھوڑو‘‘ جیسا آندولن کامیاب ہوا اور انگریزوں جیسی ظالم حکمراں کو ملک چھوڑنا پڑا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اقتدار پر قبضہ ہونے کے بعد سرکار چلانے والوں نے گاندھی جی کے اصولوں کو تاک پر رکھ دیا اور ایک معقول و جامع ’’ آئین ہند‘‘ ہونے کے باوجود ملک کو فرنگیوں کی پالیسی پر لے کر چلے گئے اور ’’ٹکرائو کی سیاست‘‘ ہی یہاں سب سے زیادہ پھلی پھولی۔ بیچ میں سماج وادیوں اور بائیں بازو والوں نے ٹکرائو کی سیاست کو دبایا ضرور لیکن ان کے درمیان ہی کرسی کو لے کر اتنا سر پھٹول ہوا کہ آخر کار اقتدار لوٹ کر پھر انہیں لوگوں کے ہاتھوں جاتا نظر آرہا ہے، جو ٹکرائو کی سیاست کے ذریعہ ہی اقتدار میں آنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹکرائو کا یہی سلسلہ جاری رہا تو خدانخواستہ ملک لوٹ کر پھر اسی ماحول میں گھر جائیگا جس میں 80 سال پہلے گھر گیا تھا۔ حالانکہ اب ملک کے بٹوارے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔ لیکن مہنگائی، بیروزگاری، شراب خوری اور امیری غریبی کے بیچ بڑھتی ہوئی کھائی کو لے کر جو حالات پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ خدانخواستہ مزید ہونے کا ڈر ہے تو اس حالات میں ملک میں ’’سول وار‘‘ کا خدشہ بڑھنے لگے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو ملک ایک بار ’’سول وار‘‘ میں پھنس جاتا ہے اسے پھر واپس معمول پر لانے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ لہذا ایسا ماحول پیدا نہ ہو اس کے لیے تو ہمیں ایک ہی کام کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ ’’دنگے فساد کی سیاست‘‘ پر قانونی روک لگوانے کا راستہ نکالنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں دو طرح کے فسادات دیکھے گئے ہیں۔ ایک تو سماجی فسادات (Social Violence) اور دوسرا فرقہ وارانہ فسادات (Communal Violence)۔ سماجی فسادات وہ ہیں جو ایک ہی مذہب کے دو طبقات کے بیچ دیکھے جاتے ہیں، جیسے دلت طبقات- بنام غیردلت طبقات کے بیچ ہونے والے دنگے، جس کا تذکرہ ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی اپنی کتابوں میں کیا ہے اور ان کے بعد کے دنوں میں بھی دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس فرقہ وارانہ فسادات وہ ہیں جو دو مذہبی گروہ کے بیچ دیکھا جاتا ہے، جیسے ہندو بنام مسلم، ہندو بنام سکھ، ہندوبنام عیسائی وغیرہ۔ ان طرح کے حادثات کی تعداد جتنی بھی پائی گئی ہے، لیکن ان کی تپش تو اس حد تک پائی گئی ہے کہ بستیوں میں آگ لگاکر زندہ افراد کو اس میں پھینک تک دیا گیا ہے۔ خاص کر مسلمانوں اور ہندوئوں کے بیچ تو یہاں سینکڑوں بڑے فسادات ہوئے ہیں اور ایسا ہو بھی کیوں نہیں جبکہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے دنگے فساد کی سیاست ہی سب سے آسان فارمولہ بنا ہوا ہے۔ لہذا ان جیسے فسادات کا پھوٹ پڑناتو سیاسی حضرات کے لیے چٹکی کا کھیل ہے۔وہ تو بھلا ہوا آنجہانی راجیو گاندھی کا جنہوں نے ظلم کے خلاف 1989 میں ’’اتیاچارنوارن ایکٹ‘‘ بنایا۔ اس ایکٹ کو بنانے کے لیے ان کی جو بھی پالیٹیکل مجبوری رہی ہو لیکن تشدد روکنے کا ایک اسپیشل قانونی راستہ یہ ثابت ہوا ہے۔ اس ایکٹ میں فی الوقت شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائپ کو ہی رکھا گیا ہے اس لیے اسے ایس سی/ ایس ٹی ایکٹ 1989 کہتے ہیں۔ اس ایکٹ کے لاگو ہونے کے بعد سے سماجی تشدد (Social Violence) پر بہت حد تک روک لگ گیا ہے ۔ اگر اس وقت شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائپ کے ساتھ، مائنارٹیز کو بھی اس ایکٹ میں شامل کردیا گیا ہوگا تو سماجی فسادات (Social Violence) کے ساتھ فرقہ وارانہ فسادات (Communal Violence) پر بھی روک لگ گیا ہوتا۔ بہرحال آج اس ایکٹ میں مسلمانوں کی شمولیت کی سخت ضرورت ہے اور یہ ہر حساب سے جائز بھی لگتا ہے کیوں کہ اس ایکٹ میں شمولیت کے جو شرائط طے شدہ ہیں، عام مسلمان بھی اس میں آج فٹ (Fit) اترتے ہیں۔ راہل گاندھی نے اپنے امریکی دورے کے درمیان دیے گئے انٹرویو میں اس ایکٹ کی طرف یہ کہہ کر اشارہ دیا ہے کہ وہ 80 کے دہائیوں میں جو دلتوں کی حالت تھی وہی آج مسلمانوں کی ہے ۔لہذا ہمیں زورشور سے اس مانگ کو اٹھانی چاہئے کہ ’’اتیاچار نوارن ایکٹ1989‘‘ میں دلتوں اور آدیباسیوں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی شامل کیا جائے۔ آواز میں مضبوطی ہو تو مرکزی سرکار بھی اس پر تیار ہوسکتی ہے، کیوں کہ اس کام کے لیے کسی بڑے ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔ محض ایک آرڈیننس سے یہ کام ہوسکتا ہے۔ اس میں نہ تو سرکار کو بڑا جوکھم اٹھانا ہے اور نہ ہی کسی بڑے بجٹ کی ضرورت ہے۔ پھر اس میں دلتوں و آدیباسیوں کی طرف سے مخالفت بھی نہیں ہوگی کیوں کہ ان کی حق ماری کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اب یہ سوال ہوتا ہے کہ اس مانگ سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا۔ ہماری سمجھ سے یہ مانگ ملک کے لیے بھی اتنا ہی فائدہ مند ثابت ہوتا جتنا ملت کے لیے، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ وہ اس طرح ہے کہ اس قانون کے لاگو ہونے پر دنگے فساد کی سیاست سے بھی ملک آزاد ہوجائے گا۔ جس دن ایسا ہوگا وہ ملک کے لیے ایک تاریخی دن ہوگا کیوں کہ اس دن سے ملک میں پھر سے امن وچین کی فضا بننی شروع ہوگی اور لگاتار ٹوٹتے آپسی بھروسے و بھائی چارگی پر بریک لگے گا۔ یہ ملک کو ترقی کی راہ پر تیزی سے لے جائے گا۔ یہ کوئی مفروضہ بات نہیں ہے بلکہ اس کی مثال آپ کی نطروں کے سامنے ہے۔ بھارت کا پڑوسی دیش ’’چین‘‘ بھی انگریزوں کا غلام تھا۔ اسے بھی انگریزوں نے ویسے ہی لوٹا تھا جیسے بھارت کو لوٹا تھا۔ بھارت 1947 میں آزاد ہوا اور چین دو سال بعد 1949 میں آزاد ہوا، لیکن آج ’چین‘ سپرپاور ہے اور امریکہ سے آنکھ ملاتا ہے جبکہ بھارت کہاں ہے؟۔ اس پچھڑنے کی وجہ خاص یہ ہے کہ آزادی کے بعد ’چین‘ نے ’’کامن پالیٹکس‘‘ (Common Poltics) کی جس کے تحت روزی روٹی، تعلیم، ہر ہاتھ کو کام، ہر سر کو گھر، بجلی، سڑک، پانی، باڑھ وسکھاڑ جیسے بنیادی مسائل پر کام کیا اور آج دیکھئے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ اس کے برعکس بھارت میں شروع سے دنگے فساد (Communal Poltics) ہوئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’ریس‘‘ میں ہم پیچھے چھوٹتے چلے گئے۔
آج آزادی کے 75سال گذرگئے۔ اب نیابھارت، وشوگرو اور امرت کال کی مات ہورہی ہے۔ لیکن یہ ٹارگیٹ پورا ہو تو ہو کیسے؟ کیا دنگے فساد کی سیاست ملک کی ترقی کی راہ میں بھاری رکاوٹ کا کام کرتی نہیں چلی آرہی ہے؟ ہمیں تو لگتا ہے کہ جب تک دنگے فساد کی سیاست پر روک نہیں لگے گی، تب تک مرکزی سرکار کے لیے ’امرت کال یا وشوگرو‘ دور کا خواب ہے۔ لہذا وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ فی الوقت ہمیں ’’اتیاچارنوارن ایکٹ 1989‘‘ میں مسلمانوں کو شامل کرنے کے لیے مشترکہ طور پر آواز اٹھانی چاہئے۔ اگر اس مانگ کو پانے میں ہم سب کامیاب ہوگئے تو پھر ملک وملت دونوں کے لیے یہ ایک Turning Point ثابت ہوگا۔ چونکہ اس کام کو مرکزی سرکار کو ہی کرنا ہے اس لیے وہاں ہی دبائو پیدا کرنا ہوگا۔ لیکن یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی کسی ایشو کی طرف تبھی دھیان دیتی ہیں، جب ووٹ کے لیے وہ خود پریشان رہتی ہیں۔ آنجہانی راجیو گاندھی نے بھی اسے تب تک منظوری دی ہوگی جب انہیں اپنی کرسی خود ڈولتی ہوئی نظر آرہی تھی ورنہ ’’اتیاچارنوارن ایکٹ‘‘ (Prevention Of Attrocities Act) کی مانگ تو پہلے سے اٹھ رہی تھی۔ چونکہ دلتوں اور آدیباسیوں کو اس ایکٹ کی ضرورت تھی ، اس لیے ان کے نمائندگان اس کی مانگ کرتے چلے آرہے تھے۔ آج مسلمانوں کو بھی اس ایکٹ میں شامل کرانے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسل کو سیاسی تشدد (Polticial Violence) سے تحفظ مل سکے، ورنہ کون یہ جان رہا ہے کہ آنے والے 25-50 برسوں میں ملک کا ماحول کیسا ہوگا اور ’’ملک وملت‘‘ کو کس دور سے گذرنا ہوگا۔ بھارت کے ہم سارے باشندے تو یہیں چاہیں گے کہ ملک میں امن وشانتی رہے، سب ایک دوسرے سے ویسے ہی مل کر رہیں، جیسے شروع سے رہتے چلے آرہے ہیں اور ملک کو آگے بڑھتا ہوا دیکھیں۔
(قلم کارکے نظریات ان کے اپنے ذاتی ہیں ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)