مکاتب کے نصاب میں ایمانیات ومبادیاتِ دین پر خصوصی توجہ نئی نسل کیلئے ضروری: مولانا خلیل احمد ندوی نظامی
حیدرآباد۔ 25؍ دسمبر (پریس ریلیز) موجودہ حالات میں اُمتِ مسلمہ کے اصحابِ فکرونظر کی ذمہ داری ہے کہ ایمانیات وعقائد کی صحیح طورپر تفہیم ہو، اُن کے اندر حساسیت پیدا کرکے دینی فہم وادراک کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے، اسلامیات سے متعلق مبادیات کا علم اور اُن میں پختگی اتنی ہوکہ فتنوں کا سدباب ممکن ہوسکے۔ مولانا خلیل احمد ندوی نظامی‘ سابق ماہرکتبات محکمۂ آثارقدیمہ‘ چیئرمین صمدانی گروپ آف ایجوکیشنل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹس‘ کمپیوٹر ٹریننگ اینڈ لینگویجس سنٹر NCPUL وفانوس آگہی (تاریخِ اسلام وثقافتِ اسلامیہ سے نئی نسل کو واقف کرانے کیلئے کل ہند سطح پر انٹراسکولس/ کالجس مقابلۂ جات) حیدرآباد نے کہا کہ اُمت کو بہکانے اور راہِ راست سے ہٹانے کی مختلف انداز اپناتے ہوئے کئی ایک انتھک کوششوں میں ایک فتنہ پرور ریاض احمد گوہرشاہی بھی ہے؛ جس نے ایک جرم کی پاداش میں گرفتار کئے جانے کے ڈرسے کشمیرسے نکل کر بالآخر پنجاب میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ ظاہری دیندارانہ حلیہ وانداز دیکھ کر عوام اُس کے اِردگرد جمع ہوتے چلے گئے اور اُس سے متاثر ہونے لگے؛ کچھ اس طرح اُس نے نئی دیندارانہ پہچان بنائی‘ جرائم میں پکڑے جانے والے مزید مجرمین کی پناہ گاہ بن گیا اور نئے فتنہ کو جنم دیا۔ اِس فتنۂ گوہرشاہی میں کلمۂ طیبہ کوبھی بدل دیا گیا، وہ اپنے ماننے والوں سے ’’گوہرشاہی رسول اللہ‘‘ کہلواتا۔ (نعوذباللہ)۔ چالیس پاروںپر مشتمل قرآن کا اعلان کیا، اپنے طورپر اضافی 10پاروں کو باطنی قرار دیا۔ عباداتِ جسمانی کے بجائے صرف روحانی طریقہ سے عبادت کرنے کی ترغیب دینے لگا، اُس کے مطابق صرف تصورکرو عبادت ہوجائے گی‘ دل کی نماز اور دل کی عبادتیں ادا کرو‘ روحانیت اصل ہے‘ چاہے انسان کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو، روحانیت کی بنیادپر نجات ہوگی۔ یہاں تک کہ کلمہ کا اقرار لازمی نہیں۔ نشہ جائز‘ عورتوں سے معانقہ کی اجازت، مہدویت کا دعویٰ ونیز حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ سے ملاقات کا تذکرہ، ان تمام گمراہ کن افکار وعقائد کی بناء پر علماء نے متفقہ طورپر اُس کو مرتد‘ کافر و خارجِ اسلام قرار دیا۔ بیسوی صدی میں نبوت‘ مہدویت ومسیحیت کے کئی جھوٹے دعویداروں نے مسلمانوں کو بہکانے کی کوشش کی۔ قرآن وحدیث کے معانی ومطالب میں ردّوبدل‘ اپنے جھوٹے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کیلئے دین میں طرح طرح کی بے بنیاد تاویلات کیں۔ کم علم مسلمانوں کو ذہنی طورپر مطمئن کرنے کیلئے دین کی اصل ساخت کو بدلنے کی باطلانہ سازشیں کیں۔ دین کی ہربات کے غلط معنی ومفہوم بتلاکر اہلِ ایمان کے دلوں سے ایمان سلب کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ یہ لوگ حدیثِ نبویہؐ کے متعلق من گھڑت باتوں کے ذریعہ مسلمانوں کے ایمان کا سودا کرتے ہیں۔ اسی صدی کا ایک اور نیافتنہ فیاض بن یاسین ہے؛ جس کے ماننے والے قانونِ قدرت کے خلاف جانے سے بھی پس وپیش نہیں کرتے‘ یہاں تک کہ بیمار کا علاج کرنابھی اُن کے نزدیک ایمان کے برخلاف ہے۔ الغرض! مرزا غلام احمد قادیانی‘ شکیل بن حنیف‘ ریاض احمد گوہرشاہی‘ فیاض بن یاسین‘ یوسف کذاب‘ جاوید احمد غامدی‘ انجینئر علی مرزا‘ ایران کا بہاؤاللہ، دیگر فتنہ پرور دین وشریعت کو اپنے اپنے طورپر ردّوبدل کرکے پیش کرتے ہیں۔ غیرغلط تاویلات کے ذریعہ مبادیاتِ اسلامیہ کو علی الاعلان اس حدتک نقصان پہنچارہے ہیں کہ شریعت کی پابندی نجات کیلئے ضروری قرار نہیں دیتے۔ معاشرہ میں لوگ لوگ ایک ایسے فتنہ میں ملوث ہیں جو اپنے آپ کو ’’اہلِ قرآن‘‘ بتلاکر احادیثِ مبارکہ سے نہ صرف منہ موڑلیتے ہیں بلکہ اُن کا انکار کرتے ہیں‘ جوکہ حقیقت میں تعلیماتِ قرآنیہ کا انکار ہے۔ جبکہ نبیؐ کی اطاعت کی تاکید قرآن سے ثابت ہے۔ بہرِحال! ان تمام فتنوں سے خودکو محفوظ رکھنے کیلئے علمِ دین کا حصول ضروری ہے، کیونکہ دین کی بنیادی باتوں سے لاعلم ہونے کی وجہ سے اس طرح کی گمراہ تحریک چلانے والوں کی چالبازیوں کا جاہل مسلمان بآسانی شکار بن جاتے ہیں اور باطل افکار ونظریات کے جال میں پھنس کر گمراہی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس انتہائی غیرغلط عقائد وتعلیمات کے پھیلانے میں دشمنانِ اسلام کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ عام طورپر انٹرنیٹ کے ذریعہ اسلامی معلومات میسر ہیں‘ لیکن دین کی بات جو کررہا ہے وہ اِس قابل ہے یا نہیں اس کی خبرنہیں! اس لئے دین کے معاملہ میں مقامی علماء سے پوچھے بغیر محض ان ذرائع وآلات کے ذریعہ پہنچنے والی ہرمعلومات کو دُرست نہیں سمجھنا چاہئے؛ اور اس طرح اپنے ایمان ودین کے معاملہ میں کسی بھی دھوکہ سے بچتے رہنا چاہیے۔ دین کے متبعین‘ اولیاء کرامؒ کی زندگی اور سیرت میں یہ بات واضح طورپر ملتی ہے کہ اپنے ایمان کی بقاء وسلامتی کے معاملے میں وہ حضرات ہمیشہ فکرمند رہتے تھے۔ ذراسی غفلت بھی اُن کو گوارا نہیں تھی، جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ ان جھوٹی معلومات کی بنیادپر بعض اوقات ایسا عمل کربیٹھتے ہیں کہ جس سے دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اس لئے ایسے کسی بھی فتنوں کا شکار ہونے سے بچتے رہنے کی فکر ہمیشہ دامن گیر ہونی چاہئے۔