Siyasi Manzar
Top News مضامین

شہر رمضاں تیری آمد مبارک

ڈاکٹر عبد الغنی القوفی
استاد جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر وصدر عمومی راشٹریہ مدرسہ سنگھ نیپال
ران المبارک، اسلامی سال کا نواں مہینہ، ایک ایسی عظیم نعمت ہے جو ہر سال مسلمانوں کے لیے مسرت، سکون اور ایمانی وروحانی ترقی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ مہینہصرف روزوں، عبادات، اطاعتوں، نیکیوں، تلاوتوں، صدقات وخیرات اور دعاؤں کا مجموعہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ دنیوی اعتبار سے بھی خود کو سنوارنے، معاشرے کو بہتر بنانے کا  ایک سنہری موقع ہے۔ رمضان کا استقبال کرنے کے لیے ہر مسلمان کے دل میں ایک خاص جوش و جذبہ ہوتا ہے، اور اس کی تیاری نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر بھی کی جاتی ہے۔
رمضان کی عظمت اور اہمیت
رمضان کی عظمت اس حقیقت سے عیاں ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول کے لیے منتخب کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن هدى للناس وبينات من الهدى والفرقان”، "رمضان کا مہینہ وہ عظیم مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے مکمل ہدایت اور ہدایت کی واضح نشانیوں پر مشتمل ہے اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے” (سورۃ البقرہ: 185)۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ رمضان صرف روزوں کا مہینہ نہیں، بلکہ ہدایت کا سرچشمہ ہے جو انسان کو گمراہی سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے” (صحیح بخاری و مسلم)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی مدت ایک ایسی بابرکت مدت ہے جہاں نیکیوں کے مواقع بڑھ جاتے ہیں اور گناہوں سے بچاؤ آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس کا استقبال ایک عام مہینے کی طرح نہیں، بلکہ ایک مہمان نوازی کے عظیم موقعہ کے طور پر کرنا چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مغفرت اور رحمت سے نوازتا ہے۔
رمضان کے استقبال کی تیاری
رمضان کے استقبال کی تیاری کو کئی مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جو ذہنی، جسمانی اور روحانی سطح پر کی جاتی ہیں۔
روحانی تیاری
رمضان سے پہلے مسلمان اپنے دل و دماغ کو صاف ستھرا اور پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا آغاز توبہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ” وتوبوا إلى الله جميعا أيه المؤمنون لعلكم تفلحون”، "اور اے ایمان والو تم سب اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے آگے سر تسلیم خم کرو تاکہ فلاح یاب ہو سکو” (سورۃ النور: ٣١)۔ رمضان سے پہلے گناہوں سے توبہ اور اللہ سے معافی مانگنا اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کرنےکی بنیاد بنتا ہے۔
اس کے علاوہ، رواں ماہ شعبان میں روزوں کی مشق کرنا بھی سنت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں اتنا روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا وہ شعبان میں رکھتے تھے” (صحیح بخاری)۔ ہاں یہ خیال رہے کہ اس تعلیم پر عمل شعبان کے حوالے سے آخر کے دنوں کو چھوڑ کر کیا جائے گا، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا
ہے۔ یہ عمل جسم کو روزوں کے عادی ہونے میں مدد دیتا ہے اور رمضان کے لیے تیاری کو آسان بناتا ہے۔
جسمانی تیاری
رمضان میں روزے رکھنے کے لیے جسمانی طور پر تیار ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زیادہ کھانا کھایا جائے، بلکہ متوازن غذا اور صحت مند عادات کو اپنایا جائے تاکہ روزوں کے دوران کمزوری نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ” طاقتور اور مضبوط مومن بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے ضعیف وکمزور مومن سے” (مسلم)۔
گھریلو اور سماجی تیاری
رمضان سے پہلے گھر کی صفائی، ضروری اشیاء کی خریداری اور افطار و سحری کے انتظامات کو مکمل کرنا بھی استقبال کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ، رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات اور انہیں رمضان کی مبارکباد دینا ایک خوبصورت روایت ہے جو سماجی رابطوں کو مضبوط کرتی ہے۔
رمضان کے استقبال کے فوائد
رمضان کا استقبال نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ اس کے کئی روحانی، نفسیاتی اور سماجی فوائد بھی ہیں۔
روحانی ترقی
رمضان کا استقبال کرنے سے انسان اپنے ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔ جب وہ اس مہینے کے لیے تیاری کرتا ہے، تو اس کا ذہن عبادت اور اللہ کی رضا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ” يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون”، "اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو” (سورۃ البقرہ: 183)۔ تقویٰ، جو اللہ کا خوف اور اس کی اطاعت ہے، رمضان کا بنیادی مقصد ہے، اور اس کی تیاری اسے حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔
نفسیاتی سکون
رمضان سے پہلے تیاری کرنے سے انسان ذہنی طور پر پرسکون ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے گھر، خوراک اور عبادات کے انتظامات مکمل کر لیتا ہے، تو اسے روزوں کے دوران پریشانی نہیں ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت” (صحیح بخاری)۔ یہ خوشی اسی وقت صحیح طریقے پر مکمل ہوتی ہے جب انسان تیاری کے ساتھ رمضان میں داخل ہو۔
سماجی یکجہتی
رمضان کا استقبال کرنے سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ بڑھتا ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ افطار کی دعوتیں بانٹتے ہیں یا غریبوں کی مدد کرتے ہیں، تو سماج میں اتحاد پیدا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کرائے، اس کے لیے اس روزہ دار کے اجر وثواب کے برابر ثواب ہے، اس کے اجر میں کوئی کمی کیے بغیر” (سنن ترمذی، اسے علامہ البانی نے صحیح الجامع (6415) میں ذکر فرمایاہے)۔
استقبال کی مثالیں تاریخ سے
رمضان کے استقبال کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہم صحابہ کرام اور سلف صالحین کی زندگیوں سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رمضان سے پہلے غریبوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے تاکہ کوئی روزہ دار بھوکا نہ رہے۔ اسی طرح، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رمضان سے پہلے قرآن کے اوراق کو ترتیب دیتے اور اس کی تلاوت کے لیے منصوبہ بندی کرتے تھے۔ ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کا استقبال ایک فعال عمل ہے جو انسان کو اس مہینے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے قابل بناتا ہے۔
رمضان کا استقبال ایک ایسی تیاری ہے جو انسان کو اس بابرکت مہینے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ یہ صرف روزوں کی مشق یا گھر کی صفائی تک محدود نہیں، بلکہ ایک مکمل روحانی، جسمانی اور سماجی تبدیلی کا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: "والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا”، "اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں جد وجہد کرتے ہیں ہم انہیں یقینا اپنی راہوں کی رہنمائی فرما دیتے ہیں، ” (سورۃ العنکبوت: 69)۔ رمضان کے استقبال کے ذریعے ہم اللہ کی رضا اور اپنی نجات کی راہ تلاش کرتے ہیں۔
اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ رمضان کو ایک عظیم مہمان کی طرح خوش آمدید کہے، اس کی تیاری پوری تندہی سے کرے اور اس کے ہر لمحے سے فائدہ اٹھائے۔ یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد اللہ کی بندگی اور اللہ کی مخلوق کی خدمت ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کے مابین توازن رکھتے ہوئے انہیں پورا کرنا ہے اور ماہ مبارک کا استقبال اس مقصد کو پورا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔
ڈاکٹر عبد الغنی القوفی
alqoofi@hotmail.com

Related posts

دہلی کے اقتدار سے کیوں بہت دور رہ گئی عآپ؟

Siyasi Manzar

مہاکمبھ میلہ علاقے میں آتشزدگی،18 ٹینٹ راکھ

Siyasi Manzar

یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چیزہماری رکھوالی کوئی اورکرے

Siyasi Manzar