محمد حامد بن مسلم فیضی
یقیناً سال ختم ہونے کو ہے بہت سے دوست و احباب امسال فارغ ہوکر میدان عمل میں آئینگے اس موقع پر اپنے تمام دوستوں کو ایک اہم پیغام دینا چاہتا ہوں
یہ بات اظھر من الشمس کہ جتنے لوگ فارغ ہو رہیں ہیں انکی دلی کیفیات مختلف ہوگی ایک طرف خوشی کی لہریں ہونگی کہ اللہ نے مجھے نبیوں کی وراثت عطا کیا شریعی تعلیمات سے لیس کیا مجھے ان لوگوں کے صفوں میں شامل کیا جس کو لوگ عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں
دوسری جانب یہ غم لاحق ہوگا کہ مدرسے کو چھوڑنا پڑے گا اس چہار دیواری کو الوداع کہنا پڑے گا جہاں رہکر آپ نے اپنی تعلیمی سفر میں مختلف نشیب و فراز دیکھے تھے جہاں مایوسی بھی تھی مسرت بھی تھی بے تکلف محفل بھی سجائی تھی اور آداب مجلس بھی سیکھے تھے شرارتوں کے میدان میں بھی قدم رکھا شرافتوں کے صفوں میں بھی شمولیت اختیار کی تھی شیری جام کو بھی نوش کیا تلخیوں کے مزے بھی چکھے تھے جہاں حسین لمحات بھی دیکھیں تو کبھی نفرتوں و ناگواری کے المناک داستان بھی رقم کی تھی یہ سب چیزیں یاد آتی ہوگی جس سے دل مایوس اور دماغ بوجھل ہو جاتا ہوگا
یقیناً سال کے اختتام پر مدرسہ کے اس فضاۓ بسیط میں انقلاب کے آثار نظر آرہیں ہونگے رفتہ رفتہ پورا ماحول الوداعی رسموں رواج کی طرف بڑھ رہا ہوگا دوستوں کا کھلکھلاتا ہوا چہرا انکی چمکتی ہوئی پیشانی ماند پڑنے لگی ہوگی آنکھیں اشکبار نظر آرہی ہوگی جیسے انکے لبوں سے مسکراہٹ چھین لی گئی ہو اور مسرت و شادمانی کی لہریں حزن و ملال کے نقوش بن کر دلوں میں اثر کرنے لگی ہوگی
میرے دوستوں ۔آپ نے اپنی عمر کی قیمتی لمحات کو جس شجرۓ علم سے خوشہ چینی کرنے میں لگاۓ تھے جس کے ماہر اساتذہ کے سامنے زانوۓ تلمذ تہہ کۓ تھے جس کے کتب خانے سے کسب فیض کۓ وہی جامعہ یا مدارس نہ چاہتے ہوۓ بھی آپکا راستہ بند کردیا آپ کے کوچ کا نقارہ بجا دیا اور دوستوں نے الوداع الوداع الرحیل الرحیل کی نعرے لگا دۓ جسے سن کر آپ یہ کہتے ہوۓ رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوگۓ ہیں
پرندہ خشک جھیلوں سے یہی اب کہہ گیا آخر
مجھے مجبور میری ہجرت پر میرے حالات کرتے ہیں
مزید آپ کے زبان پر یہ مچل رہا ہوگا
درو دیوار پے حسرت کی نظر کرتے ہیں
خوش رہو اھل چمن اب ہم سفر کرتے ہیں
مندرجہ بالا ستور میں ۔میں نے ان چیزوں کا ذکر کیا جو آپکے دل میں مچل رہا ہوگا مگر مجھے آئیندہ آنے والی پر خطر راستوں سے بھی آپ سبھی کو آگاہ کرنا ہے
یاد رکھیں آپ اب تک حزن و ملال سے کوسوں دور تھے آپ رنج و الم سے بے خبر تھے اور جس کو آپ اس چہار دیواری میں تکلیف سمجھ رہیں تھے حقیقی معنوں میں وہی خوشی کے کچھ پل تھے اب آپ سبھی جس میدان میں آنے والے ہیں وہ بڑا ھی صبر آزما ہیں اب تک آپ سے جو بشری غلطی ہو رہی تھی اسکو ایک بچہ سمجھ کر معاف کردیا جاتا تھا پر اب آپ کے ہر ہر قول و فعل اور وضع قطع کو نوٹ و کوٹ کیا جاۓ گا
سماج و سوسائٹی کی گہری نگاہیں آپ پر ٹکی رہے گی اور جہاں بھی امامت و خطابت یا تدریسی فرائض انجام دینے جائینگے وہاں آپکی قابلیت اور علم صلاحیت کو بعد میں پہلے آپ کتنی چاپلوسی کرسکتے ہیں اور مسند اقتدار پر بیٹھے لوگوں کی ہاں میں ہاں کتنا بھر سکتے ہیں یہی دیکھ کے رکھا جاۓ گا ایسے امور انجام دینے کو کہا جاۓ گا کہ چند لمحوں کے لۓ آپکا حوش باختہ ہوجائے گا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کتنے ایسے مواقع آئینگے کہ آپکی ضمیر اندر سے جواب دے دے گا کہ اگر ضمیر ہی کا سودا کرنا ہے یا عوام الناس کی بے بنیاد الزامات اور گالی ہی سننا ہے تو اس علم کا فائدہ کیا اس سے اچھا یہ ہے کہ چلو پردیس چلتے ہیں اگر وہاں گالی بھی سنیں گے تو موٹی رقم بھی ملے گی اس طرح آپ اس میدان سے مایوس اور بے زار ہوکے الگ ہوجائینگے مگر اس وقت آپکو صبر کا دامن تھامے رکھنا ہے آپ کو جہاں سے وراثت ملی ہے اس کے مورث کو کیسی کیسی تکلیفیں دی گئی اس سے سبق سیکھنا ہوگا تب جاکر آپکے علم سے دوسروں کو فائدہ ہوگا اور حقیقی معنوں میں وراثت کے حقدار کہلائیں گے
میرے بھائیوں ۔یقینا جتنا آسان متعلم بننا ہے اس سے کئی زیادہ مشکل معلم بننا ہے میں آپ کی ہمت پست نہیں کرہا ہو اور ناہی آپکو مایوس کرہا ہوں بلکے میں آپ کو پر عزم ہوکے آنے کی ہدایت کرہا ہو اس ترقی یافتہ دور میں بھی علماء کی کمی ہے لوگ آپکے منتظر ہیں بس آپ اخلاص کی تسبیح لۓ اور پر عزم ہوکے میدان عمل میں اترے اللہ ضرور مدد کرے گا اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین
previous post