پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com (Osm)
اسلامی تعلیمات کے تین اہم موضوعات ہیں یعنی (1) اعتقادات (2) عبادات اور (3) معاملات ۔ جس طرح اعتقادات میں تصور توحید و رسالت اور عبادات میں نماز کو اہمیت اور فضیلت حاصل ہے اسی طرح معاملات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کو فوقیت حاصل ہے۔ قرآن حکیم کی متعدد آیات میں رب کی عبادت کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم ملتا ہے ۔ارشاد ربانی ہے’’اور یاد کرو جب لیا تھا ہم نے پختہ وعدہ بنی اسرائیل سے (اس بات کا) کہ نہ عبادت کرنا بجز اللہ کے اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت 83) احادیث شریفہ میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا میں نے پوچھا پھر کون سا عمل ؟ فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا (بخاری، مسلم)اس حدیث پاک میں عبادت رب کے فوری بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم ہورہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور جہاد کی اجازت طلب کی آپﷺ نے فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہاں ہاں فرمایا ان کی خدمت میں جہاد کرو (بخاری ، مسلم ، ابو دائود ، نسائی) قرآن حکیم اور احادیث نبویہ ﷺ میں عبادت رب کے فوری بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا جارہا ہے چونکہ رب کی ربوبیت اور والدین کی تربیت میں بہت ساری مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح رب بغیر کسی لالچ اور طمع کی بندوں کی پرورش کرتا ہے اسی طرح والدین بھی اولادکو پالتے ہیں، جس طرح ہر دین میں خدا کے تصور کو اہمیت دی گئی ہے اسی طرح ہر دین میں والدین کے مقام و مرتبہ کو تسلیم کیا گیاہے، جس طرح بندے پر رب کی اطاعت و فرمانبردی ہر لحظہ لازم ہے اسی طرح اولاد پر والدین کی فرمانبرداری کرنا ہر وقت ضروری ہے، جس طرح انسان رب کی عبادت کا حق ادا نہیں کرسکتا اسی طرح اولاد بھی اپنے والدین کا حق ادا نہیں کرسکتی۔ شریعت اسلامی میں والدین کے عظمت و حیثیت اور مقام و مرتبہ کو بڑی اہمیت و فوقیت دی گئی ہے ۔ دین اسلام نے حقوق العباد کی ترتیب میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کو سرفہرست رکھا ہے۔ شریعت مطہرہ میں توحید کے بعد والدین کو سب سے اونچا درجہ حاصل ہے۔ لیکن صدحیف کہ انتشار اور افراتفری کے شکار مسلم معاشرے میں انہی والدین کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ جس کے لیے اکثر لوگ اولاد ہی کو مورد الزام ٹہراتے ہیں۔ اگر اس خرابی کا منصفانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان غیر اسلامی واقعات کے لیے جس قدر اولاد ذمہ دار ہے اس سے کہیں زیادہ وہ والدین بھی ذمہ دار ہوتے ہیں جواپنی اولاد کی اسلامی نہج پر تربیت نہیں کرتے جو کہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے۔اسلامی تربیت کا نہج یہ ہے کہ مربی رحمت اور غضب کا حسین امتزاج ہو۔ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں ایک نام ’’رب‘‘ ہے جس کے لغوی معنی کسی چھوٹی چیز کی مکمل رعایت کرتے ہوئے بتدریج درجہ کمال تک پہنچانے کے ہیں۔ خالق کونین نے اپنا اولین تعارف اسی نام سے کروایا پھر اس کے بعد اپنی دو خاص صفات کا ذکر فرمایا (1) رحمن و رحیم اور (2) مالک یوم الدین ۔ گویا قرآن نے پوری دنیا کو بالعموم اور اپنے ماننے والوں کو بالخصوص یہ پیغام دیا کہ اچھی تربیت کا تقاضا یہی ہے کہ مربی رحمت اور غضب دونوں صفات سے متصف ہو ورنہ تربیت ناقص ہوگی اور ناقص تربیت سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ آج کے مسلم معاشرے پر نظر ڈالیے تو پتہ چلتا ہے کہ والدین انہی دو صفات میں توازن برقرار نہیں رکھ پارہے ہیں۔ کہیں حد سے زیادہ لاڈ دلار اور پیار ہے تو کہیں صرف پابندیاں اور سختیاںہی نظر آرہی ہیں نتیجہ نوجوان نسل تباہ و تاراج ہورہی ہے۔ خلاق دو جہاں نے اولاد کو دنیوی حیات کی زنیت اور رونق سے تعبیر فرمایا ہے ۔ یہ زینت اور رونق اسی وقت تک برقرار رہ سکتے ہیں جب تک ہم ان کی مکمل نگہداشت کریں گے۔ اسی لیے بچوں کی تربیت کو شریعت مطہرہ نے والدین کی ذمہ داری قرار دیا ہے ۔رحمت عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’کسی باپ کی طرف سے اس کی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے‘‘ (ترمذی شریف) لہذا مسلمانوں کو بچوں کی تربیت پر نہ صرف توجہ دینی ہوگی بلکہ تربیت کے وہی اصول اپنانے ہوں گے جو مربی حقیقی نے قرآن کی پہلی سورت یعنی سورۃ الفاتحہ میں بیان فرمائے ہیں۔ جس کا بنیاد تقاضہ یہ ہے کہ والدین تربیت اولاد میں رحمت اور غضب کے پہلو میں توازن کو برقرار رکھیں ورنہ اولاد دنیوی نعائم اور اخروی بخشائش سے محروم ہوجائے گی۔ اُردو کی بہت مشہور کہاوت ہے کہ ’’سونے کا نوالہ کھلائو اور شیر کی نگاہ دیکھو‘‘ یہ کہاوت بچوں کی اچھی پرورش کا راز بتاتی ہے کہ بچوں کو ان کی من پسند اشیاء فراہم کی جائیں لیکن ان کی مکمل دیکھ بھال اور تربیت خوش اسلوبی اور جسمانی و روحانی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے تو اولاد نیک اور صالح بنتی ہے جو ملک، قوم اور ملت کے لیے بہترین اثاثہ ،انسانی معاشرے کے لیے نعمت غیر مترقبہ اور آخرت میں والدین کے حق میں نجات کا ذریعہ بنتے ہے اور اگر تربیت میں کمی واقع ہوگی تو اولاد انسانی سماج کے لیے بوجھ اور بروز محشر ذلت و رسوائی کا سبب بنے گی۔ بلا تفریق مذہب و ملت ہر والدین اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں لیکن اکثریت کی تربیت صرف جسمانی تقاضوں کو پورا کرنے تک محدود رہتی ہے ۔ موجودہ دور میں اکثر والدین بچے کی صحت مند نشو و نما کے لیے غذا فراہم کرنے ، بحالت مرض دوائیں مہیا کرانے ، مواسم کے اعتبار سے لباس دلوانے، روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل کرنے اور عصری تعلیم اور تقاضوںکو پورا کرنے کو ہی تربیت سمجھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ اگر کوئی بچہ اعلی تعلیم حاصل کرلیتا ہے تو والدین سکون کی سانس لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تربیت کا حق ادا کردیا۔ اگر تربیت کا مقصد تعلیم سے آراستہ کرنا ہی ہوتا اور مجرد تعلیم ہی پر انسان کی دینی اور دنیوی کامیابی کا مدار ہوتا تو شیطان ہرگز ملعون نہ ہوتا چونکہ وہ تو فرشتوں کا بھی استاد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کی پہلی آیت پاک جس کا تعلق تعلیم سے ہے اس میں مجرد پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ارشاد ہورہا ہے پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ لیکن ہم نے لفظ ’’اقرا‘‘ پر تو عمل کررہے ہیں لیکن ’’باسم ربک الذی خلق‘‘ کو کہیں نہ کہیں فراموش کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ہماری اسی سونچ اور روش کی خرابی کا نتیجہ ہے کہ آج تعلیم یافتہ طبقے میں بھی طلاق اور خلع کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کی آڑ میں مخالفین اسلام،قومی و بین الاقوامی ٹی وی چینلس، پرنٹ میڈیا شریعت مطہرہ پر رکیک حملے کررہے ہیں اور اسلام کے نظام طلاق کو ایکسویں صدی جیسے ترقی یافتہ دور کے لیے فرسودہ قرار دے رہے ہیں۔ جس کے لیے بڑی حد تک ہم اور وہ والدین ذمہ دار ہیں جو اپنے اولاد کی تربیت اسلامی نہج پر نہیں کرتے۔ چونکہ اولاً تو یہ کہ اسلام نے طلاق کو ’’ابغض المباحات‘‘ قرار دیکر مسلمانوں کو حتی الوسع اس سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ثانیاً یہ کہ حضور اکرم ﷺ سے اپنی کسی زوجہ مطہرہ کو طلاق نہیں دی۔ ثالثاً یہ کہ جو طریقہ مسلم معاشرے میں رائج ہے وہ بالکل قرآنی تعلیمات کے مغائر ہے۔ قرآن حکیم نے حکم فرمایا ہے کہ جس وقت تمہیں ازدواجی زندگی میں فساد، بگاڑ اور ناچاقی ہونے کا خدشہ ہو اور اصلاح حال کی تمام تر کوششیں رائیگاں ہوجائیں تولڑکے اور لڑکی والے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اپنے اپنے خاندان کے صاحب الرائے حضرات اور معاملہ فہم اشخاص سے مدد لیںتو اللہ تعالی مصالحت کی کوئی نہ کوئی سبیل ضرور پیدا فرما دیگا۔ طلاق اور خلع کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پس منظر میںہم دیکھیں کہ کتنے مسلمان ایسے ہیں جو باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے حکیمانہ انداز سے ممکنہ تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ جواب نفی میں ملے گا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن بنیادی وجہ اسلامی نہج پر تربیت کا نہ ہونا ہے۔ اگر کسی کی اولاد مالی اعتبار سے خود کفیل ہوجائے تو والدین (قطع نظر اس کے کہ حلال ذرائع سے کمائی ہورہی ہے یا حرام ذرائع سے )بڑے خوش ہوجاتے ہیں کہ ہماری نظروں کے سامنے ہماری اولاد مرفہ الحال زندگی گزار رہی ہے ۔ لیکن اگر واقعی کامیابی دولت اور پیسہ میں ہوتی تو رب کائنات فرعون کو غرق سمندر کرکے ساری دنیا کے لیے عبرت کا نشان نہ بنایا ہوتا۔ تقریباً پروفیشنل کورسس کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں کی زندگی کا اہم مقصد پیسہ کمانا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت سسک اور بلک رہی ہے ، اعلیٰ اقدار میں دن بہ دن گراوٹ آرہی ہے۔ اگر کوئی شخص خانگی یا سرکاری ملازمت میں اعلی عہدے تک رسائی حاصل کرلیتا ہے تو اکثر والدین فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہماری اولاد اس مقام و مرتبہ اور منصب پر فائز ہے جہاں پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر واقعی صرف مناصب اور عہدوں پر فائز ہونے میں دین اور دنیا کی کامیابی ہوتی تو اللہ جل شانہ ساری انسانیت کو یہ حکم نہ فرماتا کہ سیر کرو زمین میں اور ان سرکش اور نافرمان حکمرانوں اور اعلی عہدیداروں کی زندگی کا مطالعہ کرو جن کے کرو فر اور جلال و ہیبت سے ساری دنیا دہل جاتی تھی لیکن آج ان کا نام لینے والا بھی کوئی باقی نہیں ہے۔ ان کی پر شکوہ کوٹھیاں اور دیدہ زیب محلات کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مجرد تعلیم و حکمت، مال و دولت، اقتدار و حکومت کے ذریعہ آدمی سے انسان بننے کا سفر طے نہیں کیا جاسکتا ۔ چونکہ ان تمام کا حصول تربیت کے ایک پہلو یعنی جسمانی تربیت سے متعلق ہے جبکہ انسان کی حقیقی دینی و دنیوی کامیابی و کامرانی کا مدار روحانی تربیت پر منحصر ہے۔ موجودہ دور میں والدین نے اس پہلو کو تقریباً فراموش کردیا ہے جبکہ بحیثیت مسلمان ہمارے لیے یہ دونوں پہلو زیادہ اہم ہیں چنانچہ جب مسلم گھرانوں میں بچہ یا بچی پیدا ہوتی ہے تو تحنیک (یعنی چبائی ہوئی گھجور یا شہید بچہ کو چٹوانا ) کے فوری اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جاتی ہے یعنی جسمانی و روحانی تربیت کا یکساں خیال رکھا جاتا ہے ۔ علماء کرام نے یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ تحنیک کرنے والا شخص صالح اور متقی ہو۔ جسمانی تقاضے کو پورا کرنے میں بھی روحانیت کو اہمیت و فوقیت دی گئی ہے۔ لیکن آج ہم جسمانی تربیت کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں اور روحانی تربیت کو کہیں نہ کہیں فراموش کر رہیں ۔ اسی کا خمیازہ ہے کہ دنیوی عیش و عشرت کے تمام اسباب مہیا ہونے کے باوجود آج ہم ذہنی سکون ، قلبی مسرت اور روحانی اطمینان کو ترس رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس دنیوی اسباب وافر مقدار میں مہیا نہ ہونے کے باوجود ان کی زندگیاں نہ صرف قابل رشک تھیں بلکہ اغیار کے لیے بھی نمونہ تھیں چونکہ وہ جسمانی تربیت سے کہیں زیادہ روحانی تربیت کو ترجیح اور فوقیت دیتے تھے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ جیسی تربیت ہوگی اس کے اثرات ویسے ہی نمودار ہوں گے اگر تربیت کا تعلق صرف بچہ کی جسمانی ساخت سے ہوگا تواس کے اثرات ہوا پرستی، دنیا پرستی اورمفادپرستی میں ظاہر ہوں گے اور اگر تربیت کا تعلق صرف روحانی اقدار تک محدود ہوں تو اس کے اثرات رہبانیت اور دنیا سے بے تعلقی کی شکل میں نمودار ہوں گے اور یہ دونوں پہلو انسانیت کے لیے مضرت رساں ہیں۔ دین اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان دونوں میں توازن کو برقرار رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب مالی یا کسان اپنے پھول ، پودوںاور فصل کوفطری و قدرتی تقاضوں کے مطابق بڑی احتیاط کے ساتھ پروان چڑھاتا ہے تو ایک طرف مالی کو دنیوی منفعتیں اور راحتیں ملتی ہیں تو دوسری جانب دنیا والوںکو زمینی پیداوار سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے لیکن مالی سے پھول، پودوں اور فصل کی دیکھ بھال کرنے میں ذرا سی بھول چوک ہوجائے تو پوری محنت پر پانی پھرجاتا ہے جس کے سبب ایک جانب مالی ،معاشی بحران کا شکار ہوجاتا ہے، بسا اوقات قرض کے بوجھ تلے دب کر خودکشی کرنے کی طرف بھی آمادہ ہوجاتا ہے تو دوسری طرف زمینی پیداوار کی قلت کی وجہ سے اشیا مایحتاج کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوجاتی ہیں اور مہنگائی سر اٹھانے لگتی ہے جس کی زد میں آکر عوام الناس بالخصوص متوسط و غریب طبقہ پس جاتا ہے۔ اسی طرح جب والدین سے اولاد کی تربیت میں کہیں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو اولاد کی دنیا اور دین دونوں تباہ و تاراج ہوجاتے ہیں۔ لہذا بحیثیت مسلمان ہمیں تربیت کے دونوں پہلوئوں کو مد نظر رکھنا چاہیے تب ہی والدین اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوپائیں گے۔ جب والدین اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھانے میں کامیاب ہوجائیں گے تو والدین کو کسی کے سامنے یہ کہنا نہ پڑے گا کہ میری اولاد بڑی نافرمان ہے، والدین کو اپنی ہی اولاد کو بددعا دینا نہیں پڑے گا، اولاد غیر انسانی ، غیر سماجی اور غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوگی جس کے باعث والدین کا سر قوم اور ملک کے سامنے شرم سے جھک جائے، ضعیفی کے عالم میں بھی اشیا مایحتاج کے حصول کے لیے والدین کو دوڑ دھوپ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، اپنے ہی گھر میں اجنبیوں کی طرح رہنے کی نوبت نہیں آئیگی اور بیت المعمرین (Old Age Home) کے چلن میں تیزی سے گراوٹ آئیگی، یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب والدین تربیت کے ظاہری اور باطنی پہلوئوں کو مد نظر رکھ کراپنی اولاد کی تربیت کریں گے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے بطفیل نعلین پاکِ مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔