مبادیاتِ اسلام سے لاعلمی اور علماء کی صحبت سے دوری نئی نسل کے ارتداد کا سبب بن سکتی ہے: مولانا خلیل احمد ندوی نظامی
حیدرآباد۔11؍دسمبر (نمائندہ) آج نئی نسل میں بنیادی دینی معلومات سے لاعلمی اور علماء کی سرپرستی سے دوری اِرتداد کا باعث بنتی جارہی ہے۔ گمراہ کن فتنوں سے وابستہ اپنی چالاکی‘ چرب زبانی‘ عیاری ومکاری سے ناآشنا لوگوں کے سامنے اسلامی لبادہ اُوڑھے دین کے سچے ترجمان بن کر اس طرح آتے ہیں کہ اُن کے گمراہ کن پروپگنڈوں اور جھوٹے دعوؤں کو دین سمجھ لیاجاتاہے۔ آج اُمتِ مسلمہ کو درپیش سنگین چلینجس میں سے منکرِختمِ نبوت فتنۂ قادیانیت ہے‘ جس نے تفریق بین المسلمین و تخریب بین المسلمین کا کام کیا ہے اور اُمت کا رشتہ اپنے پیارے آقا حضرت محمدﷺ اور قرآن کریم سے توڑنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ مولانا خلیل احمد ندوی نظامی‘ سابق ماہرکتبات محکمۂ آثارقدیمہ‘ چیئرمین صمدانی گروپ آف ایجوکیشنل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹس‘ کمپیوٹر ٹریننگ اینڈ لینگویجس سنٹر NCPUL وفانوس آگہی (تاریخِ اسلام وثقافتِ اسلامیہ سے نئی نسل کو واقف کرانے کیلئے کل ہند سطح پر انٹراسکولس؍ کالجس مقابلۂ جات) حیدرآباد نے کہا: مرزا غلام احمد قادیانی کو انگریزوں کی طرف سے مسلمانوںکو بہکانے اور دینِ حق سے دور کرنے کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ انگریز چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو آپس میں اُلجھادیں تاکہ وہ سکون سے مسندحکومت پر براجمان رہ سکیں‘ اس لئے برطانوی حکمرانوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنا آلۂ کار بنایا‘ جس کی وجہ سے اُن کو اپنی مطلب براری میں کافی مدد ملی۔ جھوٹی نبوت کے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کے تین دور گزرے ہیں؛ عام مسلمان کی حیثیت سے پہلا، دوسرا دور جس میں اُمت کے اجماعی عقائد ونظریات میں جدید تاویلات کے ذریعہ ایک نئی تحریک کے خودساختہ مبلغ بن کر تدریجی طورپر مہدی اور مسیحِ موعود بننے کا دعویٰ۔ عقیدۂ ختم نبوت کے ہوتے ہوئے مسیح موعود بننا مشکل تھا تو ختم نبوت کے معنی میں تحریف وردّوبدل کرنی شروع کی‘ نبوت کی تشریعی‘ غیرتشریعی‘ ظلی‘ بروزی‘ لغوی‘ مجازی قسمیں بتلاکر عقیدۂ ختمِ نبوت کے یقینی اطلاق کو مشکوک کردیا، تیسرا دور بیسوی صدی کے اوائل میں تاویل وتحریف سے بے نیاز ہوکر‘ کھلے طورپر جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا اور خودکو صاحبِ شریعت نبی بتلایا، چنانچہ وہ اپنی کتاب تتمۃ حقیقۃ الوحی میں نہ صرف اپنے آپ کو تشریعی نبی اور صاحبِ وحی وصاحبِ کتاب قرار دیا بلکہ تمام انبیاء کرامؑ بشمول سیدالمرسلین خاتم الاوّلین والآخرین حضرت محمد مصطفیﷺ سے بھی افضل قرار دیا۔ آنحضرت ﷺ کے معجزات کی تعداد صرف تین ہزار بتلاکر براھین احمدیہ میں مرزا غلام احمد قادیانی اپنے معجزات کی تعداد 10لاکھ ہونے کا دعویٰ پیش کرتا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے اپنے خودساختہ اُصولوں‘ عقائد وطرززندگی کے مطابق دین کے ہربات کی گمراہ کن تشریح کرتے ہیں۔ دین کے ہرجزء میں اپنی من گھڑت رائے قائم کرتے ہوئے برملا اِس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ آپؐ کے بعد چودہ سوسال میں قرآن وحدیث اور دین کے مبادیات کی صحیح تشریح مرزا غلام احمد قادیانی نے ہی کی‘ مرزا غلام احمد قادیانی کو برحق سمجھتے‘ اس نے جوکچھ دین میں اختراع کیا اس کو حق مانتے‘ اس کی مکمل تائید کرتے ہوئے اس کو نہ ماننے والوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور اس کا برسرعام اعلان بھی کرتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی من گھڑت وبے بنیاد کتابیں سینکڑوں گمراہ کن پروپگنڈوں اور گستاخانہ کلمات سے بھری پڑی ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے 1888 میں اپنی نبوت کا اعلان کیا اور بیعت لینی شروع کی۔ اس طرح اس نے فرقۂ قادیانیت کی بنیاد ڈالی۔ امرتسر اور پٹھان کوٹ کے درمیان قادیان ایک مقام ہے‘ جہاں مرزا غلام احمد کا خاندان آباد تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مغلیہ دور کے آغاز میں اس کے باپ دادا سمرقند سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے اور پنجاب میں آباد ہوگئے، جاگیردار بنے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد مرزا غلام احمد کی سیالکوٹ میں قیام کے دوران عیسائی پادریوں سے قربت کے ساتھ دیگر مذاہب سے قریبی رشتہ نے اسلام سے اُس کو دور کردیا، پھر اُس نے دعویٰ کیا کہ مسیح ابن مریم ختم ہوچکے اُن کی جگہ مرزا غلام احمد کی آمد ہوئی، نبوت کے جھوٹے دعوے کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ سچا دین اور سچا اسلام وہی ہے جس کو وہ پیش کررہا ہے۔ فتنۂ قادیانیت کے مبلغین جو مسلمانوں کو ایمان سے محروم کرنے کیلئے کوشاں ہیں‘ بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنی عقیدت میں اس قدر اندھا بنادیتے ہیں کہ وہ عقائدِصحیحہ سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ ختمِ نبوت پر قرآن کریم کی سوسے زیادہ آیات اور دوسو سے زائد احادیث اور امت کے 1400 سالہ اجماع اور جمہور علماء وصوفیاء کا اتفاق‘ آپؐ کا خاتم النبیین ہونا ثابت کرتا ہے۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں یہ دلائلِ قاطعہ سے ثابت ہے، سینکڑوں کتابیں ختمِ نبوت کے دلائل سے بھری پڑی ہیں؛ بلکہ ائمۂ محققین کے نزدیک نبوت کے جھوٹے دعویدار کو قتل کرنے کا حکم ہے۔