علامہ عبد العزیز حقانی کی وفات حسرت آیات پر چند احساسات ؛منتشر جذبات
عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
الحمد لله رب العالمين و العاقبۃ للمتقين و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبياء و المرسلين و من تبعہم بإحسانٍ إلی يوم الدين أما بعد
سنیچر (ہفتے)کا دن تھا؛عیسوی سنہ کی ۲۲ تاریخ تھی؛اور جولائی کا مہینہ تھا؛عصر کے بعد بیٹھا اپنے ایک عزیز سے محو گفتگو تھا کہ گروپوں میں ایک صاعقہ پاش خبر نے سب کے دل کی دنیا ہی بدل دی (یہ خبر بڑے رنج و الم کے ساتھ سنی جائے گی کہ آج بتاریخ 22 جولائی 2023بروز سنیچر بوقت شام چھ بجے کے آس پاس فضیلۃ الشیخ مولانا استاذ الاساتذہ مفتی عبدالعزیز حقانی اس دارفانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے إنا لله وانا اليه راجعون اللهم اغفر له و ارحمه و عافه و اعف عنه واكرم نزله ووسع مدخله اللهم نقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس ،نماز جنازہ ان شاءاللہ آیندہ کل دو پہر ڈھائی بجے ان کے آبائی وطن بڑا سوناکوڑمیں پڑھی جاے گی)؛( جھارکھنڈ جماعت وجمعیت کے مشہور و معروف عالم دین ضلعی جمعیت اہلحدیث صاحب گنج کے امیر محترم فضیلۃ الشیخ جناب مفتی عبد العزیز الحقانی صاحب آج شام چھ بجے انتقال کر گئے ؛جنازے کی نماز کا اعلان بعد کیا جائے گا إنا لله وانا إليه راجعون اللهم اغفرله و ارحمه و أعذه من عذاب القبر و أدخله الجنةالفردوس)ان جیسے کئی ایک خبریں متواتر نے شک کو یقین میں بدل دیا اور سچ پوچھئے دل و دماغ پر بجلی سی گری ؛فون ہاتھ سے گر گیا اور رسمی إنا للہ ۔۔پڑھا اور تعزیت کے درج ذیل چند کلمات اپنے فیس بک اور واٹس ایپ گروپ میں لکھ کر خاموش محو ِ تفکر ہوگیا :”حقانی صاحب بھی رحمہ اللہ ہوگئے:ملک کے انتہائی مشہور و معروف عالم دین،ضلعی جمعیت اہلحدیث صاحب گنج کے امیر،کئی مدارس و جامعات میں صحیح بخاری کا درس دینے والی عظیم شخصیت،مدتوں مسند افتا پر براجمان ہستی،محترم فضیلہ الشیخ علامہ و مفتی عبد العزیز الحقانی صاحب آج شام چھ بجے[ہندوستانی وقت]انتقال کر گئے، إنا لله وانا إليه راجعون اللهم اغفرله و ارحمه و اعذه من عذاب القبر و ادخله الجنةالفردوس.موصوف کو حدیث و فقہ و فتاوی پر بڑا درک تھا،جھارکھند کے گڈا،صاحب گنج،پاکوڑمیں کوئی بھی جلسہ آپ کی صدارت کے بغیر نہیں ہوتا تھامرحوم مفتی سے خاکسار کے بڑے مخلصانہ تعلقات تھے،بڑے پیار سے پیش آتے تھےمیں نے اپنی کتاب (جھود علماء جارکند) میں آپ کا تذکرہ کیا ہےآپ کی وفات سے جماعت میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے،اللہ کرے کوئی نعم البدل پیدا ہو[تفصیلات بعد میں]
شریک غم عبد السلام بن صلاح الدین مدنی 22 جولائی 2023“)[درج بالا مختصر تحریر میں نے فیس بک وال اور واٹس ایپ گروپ میں ڈالا تھا ]؛فورا یہ دو مصرعے ذہن میں مرتسم ہوگئے ؎ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ٭اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیافضیلۃ الشیخ حضرت علامہ عبد العزیز حقانی صاحب جنہیں اب رضا بر قضائے الہی رحمہ اللہ کہنا پڑ رہا ہے ؛واقعی علامہ تھے؛صلاحیت و صالحیت سے متصف ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے؛آپ کے تعلقات بڑے وسیع پیمانے پر تھے؛کبار علما آپ کو جانتےپہچانتے اور آپ کو خوب خوب مانتے تھے؛آپ کی علمی شخصیت کے قائل تھے اور علمی حلقوں میں آپ کا بڑا نام تھا؛علمی تو علمی حلقے رہے؛عوامی حلقوں میں آپ کافی نہیں بلکہ انتہائی اور بے تحاشا کافی مشہور تھے؛آپ کے فتاوے بڑے مقبول ہوا کرتے تھے ؛جب بھی آپ کوئی فتوی دیتے علم کی بنیاد پر دیتے تھے اور لوگ مطمئن ہوکرواپس جایا کرتے تھے؛جامعہ اصلاح المؤمنین برہیٹ صاحب گنج میں آپ نے ایک لمبی مدت گزاری ہے؛وہاں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز تھے ؛بخاری کا درس آپ نے ایک مدت تک دیا ہے اور کئی مدارس و جامعات میں تشنگان ِ علوم نبوت کی پیاس بجھائی اور خلق کثیر کو مستفیض فرمایا ہے ۔حضرت علامہ مفتی کی حیات و خدمات پر آپ کی زندگی ہی میں مختصر و مطول مقالے لکھے جا چکے ہیں؛ مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس کے موقر استاد نے فضیلت کی سند کے حصول کے لئے آپ کی شخصیت کو موضوع ِ سخن بنایا؛جس مقالے کا اشراف علامہ ٔ زماں حضرت مناظر ِ اسلام فضیلۃ الشیخ علامہ رئیس الأحرار ندوی۔رحمہ اللہ۔ نے سر انجام دیا؛صوبہ ٔ بہار کی عظیم دانش گاہ جامعہ امام ابن تیمیہ چندن بارہ چمپارن بہار میں ضلع صاحب گنج کے ایک سپوت عزیز گرامی شیخ اشفاق رضا تیمی نے بزبان عربی آپ کی جہود و مساعی کو موضوع سخن بناکر آپ کو آپ کی حیات ہی میں خراج ِ تحسین پیش کیا ہے؛مقالے کی نگرانی فضیلۃ الشیخ اشفاق سجاد سلفی نے فرمائی ہے ؛خاکسار راقم آثم (عبد السلام بن صلاح الدین مدنی)نے اپنی عربی کتاب (جھود علماء جارکند)میں آپ کی حیات و خدمات اور دعوتی و تدریسی مساعی کا تذکار ِ جمیل صفحہ نمبر 229سے 249تک کیا ہے؛اور آپ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے؛لہذا بہت ساری معلومات ان تحاریر سے اخذ کی جا سکتی ہیں؛سر دست میں مزید چند باتیں یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں :(1)علامہ حقانی کے نام سے بہت پہلے سے آشنا تھا تاہم ناچیز کی آپ سے پہلی ملاقات 2005ء میں صوبہ ٔ جھارکھنڈ کی انتہائی معروف و مشہور دانش گاہ ”جامعہ اصلاح المؤمنین برہیٹ ضلع صاحب گنج “میں ہوئی ؛جب خاکسار کو جامعہ کے دستار ِ فضیلت کے اجلاس عام کے موقعے پر شریک اجلاس ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا؛اجلاس میں مقرر بیباک فضیلۃ الشیخ عبد الشکور اثری ۔رحمہ اللہ۔؛مقرر شرر بار فضیلۃ الشیخ حافظ جلال الدین قاسمی اور مقرر شعلہ بیاں مولانا محمد جرجیس اٹاوی ۔حفظہما اللہ۔شریک تھے اور آخر الذکر دونوں شخصیات سے پہلی بار اسی برہیٹ میں ملاقات ہوئی تھی ؛اور پہلی بار اسی دو روزہ اجلاس ِ عام علامہ ٔ زماں حضرت مفتی عبد العزیز حقانی رحمہ اللہ کو دیکھنے؛سمجھنے؛پڑھنے اور استفادہ کا موقعہ ملا؛ا س اجلاس میں آپ کے حکم سے آخری دن فریضہ ٔ نظامت بھی انجام دینے کا شرف ملا تھا؛ا س موقعے پر آپ رحمہ اللہ نے بڑی حوصلہ افزائی فرمائی تھی؛اس کے بعد تعلقات بحمدہ تعالی مستحکم ہوتے چلے گئے ؛پھر آپ کو شہر گریڈیہہ میں قائم سلفی ادارہ بنام:”مرکز آزاد التعلیمی الإسلامی ؛بلاقی روڈ گریڈیہہ“؛دستارِ حفظ کے موقعے پر دعوت ِ پر خلوص دی گئی؛جس پر آپ نے نہ صرف لبیک کہا بلکہ پروگرام میں تشریف لائے اور حفاظ ِ کرام کے سروں پر دستار ِ حفظ رکھا اور نیک دعاؤں سے نوازا؛اس اجلاس ِ دستار بندی میں استاذ الاساتذہ فضیلۃ الشیخ حافظ نثار احمد فیضی ۔رحمہ اللہ۔بھی تشریف لائے تھے؛اپنے علاقے کی مایہ ٔ ناز شخصیت حضرت مولانا محمد الیاس مدنی بھی شریک ِ اجلاس تھے پھر یہ تعلقات آپ کی آخری زندگی تک محیط رہے تاہم کبھی کبھار؛موقعہ بہ موقعہ ؛جن حضرات نے مستقل آپ سے کسب ِ فیض کیا ہے ؛آپ کی حیات و خدمات اور جھود و مساعی پر مزید روشنی ڈالیں گے ؛جس سے آپ کی خدمات کے بعض متروک گوشے سامنے آسکیں گے(2)حضرت علامہ حقانی ایک انتہائی ولی صفت انسان تھے؛ تقوی شعار ؛تہجد گزار؛شب ِ زندہ دار اور عابد و زاہد مرد ِ مجاہد تھے؛نو چھ بالکل نہیں جانتے تھے؛آپ کی حیات لف و دوران کی گنجلک گتھیوں سے بالکل دور بلکہ بہت دور تھی؛جسے ہم نے بڑے قریب سے دیکھا ہے؛سنا ہے اور برتا ہے ؛ھکذا أحسبہ و اللہ حسیبہ و لا أزکی علی اللہ أحدا ؛اور اس بات کی گواہی ہر وہ شخص دے گا؛جس نے آپ کے ساتھ کچھ پل گزارے ہوں؛آپ لین دین میں بھی انتہائی شدید واقع ہوئے تھے؛جس سے قرض لیتے؛فھر پور ادا کرتے؛وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کرتے؛آں رحمہ اللہ کے سب سے بڑے فرزند شیخ اسلم سلفی حقانی کے بیان کے مطابق جب آخری ایام چل رہے تھے تو آں رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ آپ فلاں سے لین دین کا معاملہ کیا کرتے تھےکیا آپ کے ذمے کچھ قرض ہے؟فرمانے لگے:نہیں؛پھر پوچھا :کہیں دوسرے سے ؛برہیٹ میں آپ نے ایک لمبا عرصہ گزارا ہے؛وہاں کسی سے کچھ لیا ہو ؛دیا ہو؛کچھ باقی ہو ؛عرض کیا :کہیں کچھ باقی نہیں ہے ؛ہاں ایک بہت پرانے ساتھی ہیں ,جن سے طالب علمی کے زمانے میں ساڑھے تین روپئے قرض لئے تھے جو اب تک ادا نہیں کیا جا سکا ہے؛شیخ اسلم حقانی ان کے پاس گئے اور قرض ادا کرنے کی پیشکش کی؛انہوں نے ڈانٹ کر جواب دیا:یہ تو زمانہ ٔ طالب علمی ہی میں معاف کر دیا تھا؛اللہ اکبر ! علامہ مفتی کے زہد و تقشف کا اندازہ کیجئے اور اپنے احوال و ظروف کا جائزہ لیجئے (3)حضرت علامہ حقانی رحمہ اللہ جھارکھنڈ کے انتہائی مستند اور معتبر عالم دین تھے؛جیسا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے تعلق سے اظہار خیال کرنے والے بعض علماء نے ذکر فرمایا ہے؛جب کہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ ایسے لوگ کم ہی کسی کی علمیت وصلاحیت کا لوہا مانتے ہیں مگر آپ کی صلاحیت و استناد کا اعتراف آپ کی علمیت کی بھر پور دلیل ہے؛فرحمہ اللہ رحمۃ الأبرار ۔۱۳۔۱۴۔۱۵ مارچ۲۰۰۴ء کو صوبہ ٔ جھارکھنڈ کے ضلع پاکوڑ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی طرف سے تین روزہ عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی تھی؛جس میں رویت ہلال کی وحدت و یگانگت کے مرکزی عنوان سے سیمینار بھی ہوا تھا اور ممتاز فضلائے گرامی نے اپنے گراں قدر مقالے پیش کئے تھے؛حضرت علامہ مفتی حقانی نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا تھا جس میں انتہائی باریکی بینی سے مسئلہ کی توضیح و تشریح و تفہیم فرمائی تھی اور اختلاف مطلع واضح کیا تھا؛آپ کے مقالہ پڑھنے اور سمجھانے کا وہ انداز آج بھی میرے ذہن میں مرتسم ہے۔(4) یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ کی شخصیت بے تحاشا مقبول تھی مشہور تھی؛محترم تھی اور انتہائی قابل تکریم تھی؛آپ کی شخصیت قد آور تھی ؛آپ کی تکریم بارہا کی گئی؛مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی طرف سے منعقد ہونے والی عظیم الشان کانفرنس بعنوان:”عظمت ِ صحابہ “منعقدہ 10۔11 اپریل 2010ء بمقام رام لیلا میدان نئی دہلی میں آپ کو آپ کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے نوازا گیا؛صوبہ ٔ جھارکھنڈ کی ایک عظیم علمی دانش گاہ ”جامعہ امام ابن باز“ستلا ,گریڈیہہ جھارکھنڈ نے بھی آپ کی تکریم کی اور ایوارڈ سے نوازا ؛آپ کی مقبولیت و شہرت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ صوبہ جھارکھنڈ کے اضلاع:پاکوڑ؛صاحب گنج اور گڈا میں کوئی بھی اجلاس آپ کی صدارت کے بغیر منعقد نہیں ہوتا تھا ؛بعد میں حالات کچھ بدلے ہیں؛مگر اکثر اجلاس آپ کی صدارت میں ہی منعقد ہوتے تھے ؛آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان اضلاع کا بچہ بچہ آپ کے نام سے واقف تھا؛اور ہر بچہ آپ کو جانتا پہچانتا تھا؛یہ بات مجھے کئی معتبر ترین ذرائع سے معلوم ہوئی ہے۔(5) آپ میدان ِ مناظرہ کے بے تاج بادشاہ تھے ؛کئی مناظروں میں آپ کی شرکت کلیدی تھی ؛آپ کے نام سے ہی مخالفین کانپتے تھے؛آپ جہاں جاتے فتحیاب ہو کر نکلتے تھے؛آپ کے نام سے مخالف مولوی کے تو پیشاب تک خطا ہوجاتے تھے اور راہ ِ فرار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا ؛آج جبکہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں بتاریخ 23 جولائی ۲۰۲۳ء کوصوبہ ٔ جھارکھنڈ کی ایک انتہائی عظیم شخصیت اور نابغہ ٔ روزگار حضرت مولانا قربان علی فیضی مدنی ﷾سے ہماری گفتگو ہورہی تھی؛اثناء کلام حضرت علامہ مفتی رحمہ اللہ کا تذکرہ آگیا اور ہم نے ایک دوسرے کی تعزیت کی اور ڈھیر سارے خصائل و مناقب کا تذکرہ کیا؛حضرت مولانا قربان مدنی نے آپ کو بہت قریب سے دیکھا ہے؛بعض مسائل میں مناقشہ بھی کیا ہے؛آں محترم ﷾کے بقول مفتی بڑی خوبیوں کے مالک تھے ؛ مسائل ازبر تھے اور فقہ کے قواعد خوب یاد تھےنصوص یاد رکھتے تھے؛مسائل میں استحضار تھا اور ہر جواب نوک ِ زبان پر رہتا تھا؛مجھے اپنی کتاب (جھود علماء جارکند)کی تیار ی کے موقعے پر آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا ؛اس موقعے پر میں نے خود دیکھا کہ لوگ آرہے ہیں اور مفتی صاحب سے فتوے پوچھ رہے ہیں اور مفتی صاحب ہیں کہ بغیر کسی اکتاہٹ و بلبلاہٹ انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ لوگوں کے استفسارات کے جوابات دیے جا رہے ہیں ۔(6)ابھی چند ماہ قبل آپ سے اپنے دورۂ جھارکھنڈ (مارچ 2023ء کی 4 تاریخ سے 12 مارچ تک) کے موقعے پر برہیٹ میں واقع کلیہ خدیجہ الکبری کے پروگرام میں ملاقات کا شرف حاصل کیا ؛مگر افسوس آپ سے بہت دیر تک استفادہ کا موقعہ نہیں ملا ؛اس پروگرام میں مہمان و مقرر خصوصی کے طور پر عالم اسلام کی مشہور شخصیت اور داعی ٔ کبیر فضیلۃ الشیخ سید معراج ربانی مدنی ﷾شریک ہوئے تھے اور انتہائی زور دار خطاب فرمایا تھا(7)آپ علم فرائض کے ماہر تھے؛لوگ دور دراز سے فرائض کے مسائل پوچھنے آتے تھے؛میرے جامعہ ریا ض العلوم دہلی کے ترمذی و سراجی کے انتہائی موقر استاد فضیلۃ الشیخ عبید الرحمن مدنی مئوی ۔رحمہ اللہ۔ کا بیان ہے کہ جب آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت حاصل کرکے میدان ِ تدریس میں قدم رکھا تو علم میراث کے لئے جامعہ اسلامیہ سلفیہ عبد اللہ پور میں حضرت علامہ حقانی سے رابطہ کیا اور آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور بھر پور استفادہ فرمایا؛استاد گرامی کا بیان ہے کہ حضرت علامہ فرائض کے انتہائی ماہر اور بے تحاشا صلاحیت کے مالک تھےحاضر جوابی میں تو کوئی ثانی نہیں تھا؛علمی؛منقطی اور الزامی جواب تو کوئی آپ سے سیکھے مگر اب کیا ؟اب تو آپ کی یادیں رہیں گی؛باتیں رہیں گی؛آپ کی شخصیت تو آخرت کو سدھار گئی لہذا ؎جائیے اب عمر بھر بیٹھے تاسف کیجئے (8) آپ کی وفات اور علماء کے اظہار خیالات :میری اپنی حیات میں چند ایسی شخصیات گزری ہیں جن کی وفات پر زار و قطار رونے پر مجبور ہوا ہوں؛جن میں عالم اسلام کی انتہائی مشہور شخصیت ؛مملکت ِ سعودی عرب کے سابق مفتی ٔ اعظم؛فقیہ دہر اور مفکر عصر حضرت علامہ ابن باز ۔رحمہ اللہ۔کی وفات پر دھاڑیں مار مار کر رونے پر مجبور ہوا تھا؛دوسری شخصیت جامعہ سلفیہ کی ممتاز اور مایہ ٔ ناز شخصیت اور استاد با وقار حضرت علامہ رضاء اللہ محمد ادریس مبارک پوری ۔رحمہ اللہ۔کی وفات حسرت ِ آیات نے زار و قطار رونے پر مجبور کر دیا تھا؛حالانکہ مبارک پوری مرحوم نہ میرے استاد تھے اور نہ ہی بہت قریب سے آں رحمہ اللہ کو جانتا تھا ؛مگر آنسو تھے کہ آپ کی وفات پر تھمتے نہ تھے ؛حضرت علامہ مفتی رحمہ اللہ کی وفات اور جنازہ کا منظر دیکھ کر آنکھیں آنسؤں سے بھر گئی کہ ؎یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی*ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی جب آپ کی وفات کی خبر نشر ہوئی تو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور منٹوں میں پورے عالم میں پھیلے آپ کے محبین و معتقدین کے رسائل ِ تعزیت اور کلمات صبر و شکیبائی سے پوری فضا مغموم و حزین اور دلفگار ہوگئی ؛کیا عوام کیا خواص ؛کیا جھارکھنڈ اور کیا دیگر صوبے کے علماء ؛سب نے آپ کو خراج تحسین پیش کیا اور آپ کی خدمات کوسراہا؛اور نیک کلمات و جملہ ہائے جمیلہ سے یاد فرمایا؛بخوف ِ طوالت ان تاثرات سے صرف ِ نظر کیا جا رہا ہے؎رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر *عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا(9)آپ کی نماز جنازہ کا منظر دیکھا تو دیکھتا رہ گیا؛راقم گوکہ آپ کی جلالت ِ علمی کا قائل اور ثنا خواں رہا ہے مگر اتنی بھیڑ ہوگی؛سوچا نہ تھا؛ علمائے کرام؛دعاۃ عظام ؛عوام و خواص اور آپ کے معتقدین کی جم غفیر آپ کے جنازے میں شریک تھی؛نماز جنازہ پڑھانے کے لئے مائیک کا انتظام تھا؛شدت ِ گرمی کی وجہ سے مختصر پنڈال لگایا گیا تھا؛نماز جنازہ آپ کے بڑے فرزند ارجمند شیخ اسلم حقانی نے پڑھائی ؛اور مٹی ڈالنے کے لئے لائنیں لگی تھیں؛اور لوگ قطار میں کھڑے تھے؛اللہ اکبر !اضلاع گریڈیہہ؛جامتاڑا اور دیوگھر سے لوگ آپ کے جنازے میں شرکت کے لئے پہنچ گئے جو آپ کی مقبولیت کی بھر پور دلیل ہے؛جنازے سے پہلے مولانا عبد العزیز فیضی اور مولانا عبد الرحمن فیضی نے آپ کے تعلق سے آپ کی حیات پر مختصر مگر جامع روشنی ڈالی۔ ایسے مناظر دیکھ کر امام احمد کا قول یاد آنے لگتا ہے کہ اہل سنت کے جنازے ایسے ہی ہوتے ہیں ؛امام احمد نے فرمایا تھا:( قولوا لأهل البدع بيننا وبينكم يوم الجنائز)[سؤالات السلمي ازدارقطنی:ص؍ 361).][بدعتیوں کو بتادو کہ ہمارا اور تمہارا فیصلہ جنازہ کی بھیڑ سے ہو سکتا ہے](10)آں رحمہ اللہ اخلاق کے اونچے عہدے پر فائز تھے؛آپ سے جو بھی ملتا اسے احساس ہوتا کہ آپ سے بڑی پرانی شناسائی ہے؛چھوٹوں پر شفیق اور خورد نواز تھے ؛بڑوں کی تکریم کرتے تھے؛پڑھنے لکھنے کے شوقین تھے؛کتابوں سے گہرا لگاؤ تھا؛مطالعہ کے بیحد حریص تھے؛ابھی کچھ دنوں قبل مملکت ِ سعودی عرب سے جامعہ الإمام محمد بن سعود ریاض کے ایک طالب علم (عبد الإلہ بن محمد القحطانی ) اپنے ایم اے کے مقالے کی تیاری کے لئےصوبہ ٔ جھارکھنڈ گئے ہوئے تھے؛حضرت علامہ مفتی کی خدمت میں بھی پہنچے تھے؛حقانی صاحب میری کتاب (جھود علماء جارکند )کا مطالعہ فرما رہے تھے؛چونکہ موصوف کا مقالہ جھارکھنڈ کے جھود و مساعی پر تھا؛کتاب پر نظر پڑی؛پسند آگئی ؛اور شیخ حقانی سے کتاب لے لی؛حقانی صاحب نے فورا خاکسار سے رابطہ فرمایا کہ آپ کی کتاب کا ایک ہی نسخہ میرے پاس تھا اور فلاں کو کتاب کی ضرورت بھی ہے اور مطلوبہ تمام چیزوں موجود ہیں؛لہذا کتاب انہوں نے لے لی ہے؛بنا بریں ایک دوسرے نسخے کا جلد از جلد انتظام کیجئے؛الحمد للہ حکم کی تعمیل کی گئی اور ایک آدھ دن ہی میں کتاب آپ رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچا دی گئی؛مفتی حقانی صاحب نے شکریہ بھی ادا فرمایا اور دعاؤں بھی سے نوازا ؛فرحمہ اللہ رحمۃ الأبرار(11)آپ نے مختلف جامعات میں درس و تدریس ؛تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دیا ہے؛تاہم جامعہ اصلاح المؤمنین برہیٹ صاحب گنج میں ایک طویل مدت تک تدریسی فرائض ؛افتا نویسی ؛ اصلاح و تربیت؛دعوت و تبلیغ اور افادہ و استفادہ کا فریضہ انجام دیا ہے؛برہیٹ کی زمین سے آپ کو بڑی محبت تھی اور برہیٹ والے بھی دیگر مقامات کی طرح آپ کو ٹوٹ کر چاہتے تھے ؛برہیٹ کے دوران ِ تدریس آپ سے بڑی بڑی شخصیات نے استفادہ فرمایا ہے؛جامعہ برہیٹ آپ کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا ہے کہ :؎جا چکے پھر بھی مہکتے ہیں دروبام ابھی٭ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھےیہی وجہ ہے جنازے سے پہلے فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن فیضی ﷾نے انتہائی واشگاف لفظوں میں فرمایا کہ:[“ہم سب آپ رحمہ اللہ۔کے روحانی شاگرد ہیں”]یہ کلمات ِ حسین ایک عظیم شخصیت کے لئے ایک عظیم شخصیت کی طرف سے انتہائی معتبر ترین شہادت اورعظیم خراج ِ تحسین ہے کیوں کہ فضیلۃ الشیخ ابو عمیر عبد الرحمن فیضی خود انتہائی باوقار اور نابغہ ٔ روزگار عالم دین ہیں؛بڑی عمدہ صلاحیت کے مالک ہیں؛حدیث و فقہ اور ادب و لغت میں بہترین پکڑ ہے اور بروقت جامعہ اصلاح المؤمنین برہیٹ کے شیخ الحدیث و پرنسپل کے قابل ِ فخر عہدے پر فائز ہیں۔(12)اس تحریر کے ذریعہ سب سے پہلے ابنائے حقانی بالخصوص شیخ اسلم حقانی اور شیخ اجمل حسین سلفی حقانی کو نہاں خانہ ٔ دل سے بھر پور کلمات ِ تعزیت پیش کرتا ہوں؛پھر اپنے آپ کی تعزیت کرتا ہوں؛صوبہ ٔ جھارکھنڈ کے اہالیان و باشندگان[علماء؛دعاۃ؛قلم کاران؛آپ کے معتقدین و شاگردان اور محبان ]کی تعزیت کرتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ اصلاح المؤمنین کے ذمہ داران؛اساتذہ؛تلامذہ اور منسوبین کی خدمت میں بالخصوص کلمات ِ تعزیت پیش کرتا ہوں : ﴿عظم الله أجركم، و يرحم ميتكم ويغفر له ويجعل قبره روضة من رياض الجنة، و إنا لله وإنا إليه راجعون، لله ما أخذ ولله ما أعطى، وكل شيء عنده إلى أجل مسمى، فلتصبروا وتحتسبوا،و أعانكم على مصابكم وربط على قلوبكم، كما نسأله سبحانه أن يسكنه فسيح جناته،و يكفر عن سيئاته و زلاته، و يتقبل جهوده و خدماته و يجعل ذلكم في موازين حسناته و أن يلهم أهله و ذويه و تلامذته و محبيه الصبر و السلوان يا كريم يا رحمن ﴾آمین یا رب العالمین